• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • خطے میں بدلتا امریکی کردار اور سعودی عرب۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

خطے میں بدلتا امریکی کردار اور سعودی عرب۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

امریکہ کی خارجہ پالیسی میں کافی بڑے پیمانے پر شفٹ آرہا ہے۔ کسی زمانے میں امریکی میڈیا روسی خطرے کا ڈھول پیٹا کرتا تھا۔ سوویت یونین کو ایک ایسے ولن کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، جس کا انسانیت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ امریکی عوام کی ذہنی تربیت کچھ اس انداز میں کی گئی تھی کہ وہ روس کو شر مطلق سمجھ کر ہر حال میں روس سے دشمنی رکھیں۔ اسی لیے روسی خطرے کا بتا کر جو بھی کر لیا جائے یا جتنے بھی فنڈز خرچ کر دیئے جائیں، وہ خوشی سے دیئے جاتے تھے۔ ابھی یورپ کا دیکھ لیں، جب شام اور افغانستان سے مہاجرین یورپ کے دروازے پر پہنچے تھے تو بڑی مشکل کے بعد کچھ کو یورپ داخلے کی اجازت دی گئی تھی اور ترکی سے ساز باز کرکے باقی کو ترکی میں ہی روک لیا گیا تھا، مگر جب روسی مقابلے میں یوکرینی مہاجرین کی بات آئی تو نہ صرف انہیں آنے دیا گیا بلکہ انہیں لانے تک کے انتظامات کیے گئے۔ مہاجرین بعد میں پہنچے اور ان کے رہنے اور کھانے پینے کے انتظامات پہلے سے ہوچکے تھے۔

یہ صورتحال بہرحال جاری رہی، امریکی پالیسی مشرق وسطیٰ کے بارے میں بھی یہی رہی کہ اس نے یہاں اسرائیل کے مقابل ہر آواز کو اپنی مخالف آواز سمجھ کر دبایا۔ اب امریکہ خطے میں اسرائیل کو لیڈر بنا کر عربوں کو خوفزدہ کرکے ان کے سر پر سوار کرانا چاہتا ہے۔ ٹرمپ دور میں شروع کیا گیا منصوبہ اب آگے بڑھانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ سعودی عرب نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ اسرائیلی یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے ذمہ دار جو بائیڈن ہیں، ان کی سستی کی وجہ سے جس سپیڈ سے عرب اسرائیل کو تسلیم کر رہے تھے، وہ رک گئی ہے، بالخصوص سعودی عرب امریکہ اور اسرائیل کا مشترکہ ٹارگٹ ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لے گا؟ یہ ایک اہم سوال ہے اور اس کے کئی پہلو ہیں۔ اگر محمد بن سلمان کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ جس انداز میں پچھلے سات آٹھ سال میں سعودی عرب میں تبدیلیاں کی گئی ہیں اور ریاست کی آواز کے مخالف ہر آواز کو جیسے خاموش کیا گیا ہے، وہ اس کی تیاری کر رہے ہیں کہ ریاست جو بھی فیصلہ کرے، عوام کو فقط اس کی اطاعت کرنی ہے، انہیں اس پر تنقید تک کا حق حاصل نہیں ہے۔
اسی لیے جن علماء اور سکالرز نے سعودی شاہی خاندان بالخصوص محمد بن سلمان کی پالیسیز کی مخالفت کی، انہیں نشان عبرت بنا دیا گیا۔ کئی نے اپنا قبلہ دوبارہ سے شاہی خاندان کو بنا کر جان چھڑائی اور جو اپنے نظریہ پر قائم رہے، وہ جیلوں میں ہیں۔ اگر سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے تو ردعمل کیا ہوگا؟ محمد بن سلمان اور شاہی خاندان کے لیے اپنی شاہی حکومت بچانے کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ وہ بہر صورت سعودی عوام کے ردعمل سے خائف ہیں۔ کسی نے کہا بھی تھا کہ اگر ہم نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو ہماری عوام ہمیں جان سے مار دیں گے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے شاہی خاندان اپنی حکومت کی ضمانت مانگے گا۔ دوسرا عوامی ردعمل کی صورت میں مدد کا تقاضا کیا جائے گا۔ مذہبی قوتیں اور قبائل مل کر آل سعود کی حکومت کے خلاف بڑی طاقت بن سکتے ہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ بے جے پی کی ترجمان کی طرف سے نبی اکرمﷺ کی شان میں گستاخی پر پاکستان میں اتنا ردعمل نہیں آیا، جتنا ردعمل عرب دنیا نے دکھایا ہے۔ اس سے جہاں عرب حکومتیں مودی کی مذمت پر مجبور ہوئیں، وہیں عرب عوام کو بھی یہ پتہ چلا کہ ان کی آواز میں کتنی طاقت ہے۔

دنیا میں روس یوکرین جنگ نے کھانے اور ایندھن کا بحران پیدا کر دیا ہے۔ دنیا میں تیل کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔ دنیا کے بڑے ٹھیکدار کے طور پر اس بحران کا ذمہ دار امریکہ ہے، جو ہر معاملے میں دخل اندازی کرتا ہے۔ امریکہ یوکرین کو روس کے خلاف ابھارتا رہا اور اب اسے مرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ خیر یہ تو امریکی پالیسی ہے کہ حوصلہ افزائی کرکے جنگ پر آمادہ کرو اور پھر خود پیچھے ہٹ جاو۔ توانائی کے اس بحران کے کئی حل ہیں، جیسے اسلامی جمہوریہ ایران سے پابندیاں ختم کر دی جائیں، تاکہ امریکی مظالم کے تاریک دور کا اختتام ہو۔ اس سے تیل کا بحران دنوں میں ختم ہو جائے گا۔ اس آپش کو اختیار کرنے میں امریکہ مخلص نہیں ہے۔ اب بحران سعودی تیل سے حل ہونا ہے تو اس کی چابی محمد بن سلمان کے پاس ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے سربراہ ڈاکٹر عزیزالرحمان صاحب نے خوب لکھا: روس اور یوکرین کی جنگ اپنی جگہ مگر بائیڈن انتظامیہ کی غیر حقیقت پسندانہ پالیسی نے تیل کے بین الاقوامی کرائسس کو بڑھا دیا ہے۔ بائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہی سعودی عرب کے ولی عہد اور کرتا دھرتا محمد بن سلمان کو کٹ ٹو سائز کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اس کے بعد سے بائیڈن انتظامیہ اور سعودی عرب کے درمیان ایک خاموش سرد جنگ جاری ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے انسانی حقوق اور قانون کی پاسداری کے آدرشوں پر بھاشن دیتے ہوئے خاشقجی کے قتل کو لے کر انتخابی مہم کے دوران جو باتیں کیں تھیں، ان کے دسویں حصے پر بھی عمل کرنے کی صورت میں امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اس بگاڑ کا نتیجہ ہے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے لئے اوپیک ممالک جو کردار ادا کرسکتے ہیں، وہ نہیں ہو پا رہا۔ ان حالات میں جب سعودی عرب کے ہاتھ میں تیل کا پتہ موجود ہے، امریکی صدر تو انسانی حقوق کے بھاشن بھول کر سعودی عرب روانہ ہے، کیا سعودی اس موقع کو اہل فلسطین کی آزادی اور قبلہ اول کی عزت عظمت کے لیے استعمال کریں گے؟ یا صرف شاہی خاندان صرف اپنی حکمرانی کے بدلے اسرائیل سے سودے بازی کر لیں گے؟ بہت جلد اس کا پتہ چل جائے گا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply