معاشی حالات اور ڈگری۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

1975 کے آخر میں پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے وائس چانسلر جسٹس اسلم ریاض حسین کے دستخطوں سے جاری ہوئی میری انسانوں کے معالج ہونے کی سند بالکل اصلی ہے مگر اس کا نہ مجھے کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی کچھ زیادہ مریضوں کو۔ اس میں میرا قصور اس لیے نہیں ہے کہ جب میں 1999 میں امریکہ گیا تو میرے ہم جماعت اور دوست ڈاکٹر سعید احمد باجوہ نے تسلیم ہی نہیں کیا تھا کہ میں نے کوئی طبّی تخصص حاصل نہیں کیا ہوگا کیونکہ سعید سمیت باقی سبھی ہم جماعت مجھے نہ صرف بہت ذہین سمجھتے تھے بلکہ بہت سے جن میں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائینسز کے موجودہ چانسلر میجر جنرل ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم بھی شامل ہیں مجھے اب بھی ذہین شخص خیال کرتے ہیں، مطلب یہ کہ میں برا ڈاکٹر نہیں تھا۔ قصور اگر تھا تو ملک اور لوگوں کے حالات کا تھا جو آج بھی بہتر نہیں ہو سکے ہیں۔
فوج اس لیے چھوڑ دی کہ مزاج کے خلاف تھی۔ ملازمت اس لیے نہیں کر سکا کہ اس کو نبھانے کے “وصف” نہیں تھے۔ پریکٹس اس لیے چھوڑ دی کہ مجھے لگتا تھا کہ میں اصلی ڈگری کا حامل ہوتے ہوئے درست تشخیص کرنے کے بعد سارا جھوٹ بول رہا ہوں۔ اس کو ثابت کرنے کے لیے شاید دو مثالیں کافی ہوں۔ وزارت بہداری و بہزیستی ایران کی ملازمت سے فراغت کے بعد جنوبی پنجاب کے ایک چھوٹے شہر میں میڈیکل پریکٹس کرنے لگا تھا۔ وہاں تپ دق بہت عام تھی۔ ان دنوں میں اس مرض کی ایک روز کی ادویہ کم ازکم ساٹھ روپوں میں آتی تھیں جبکہ ان کے استعمال کا کورس کم ازکم چھ ماہ ہوتا تھا۔ مریض کو مکمل آرام کا مشورہ دینا، اسے اچھی غذا بشمول دودھ، گوشت اور انڈوں کے استعمال کی ہدایت کرنا، گھر میں صفائی ستھرائی رکھنے کی تلقین کرنا، یہ سب مجھے لگتا تھا کہ میں جھوٹ بک رہا ہوں۔ تپ دق میں مبتلا ہونے والے اکثر نادار دیہاتی ہوتے تھے جن کی ماہوار آمدنی بمشکل ہزار بارہ سو ہوا کرتی تھی۔ وہ عموما” کثیر العیال ہوتے تھے۔ تعلیم سے اکثر عاری ہوتے تھے، حفظان صحت کے اصولوں کو خاک سمجھتے۔
دوسرا مرض جو عام تھا اسے عرف عام میں “گیس” کہا جاتا ہے۔ ایسا کوئی مرض ہوتا ہی نہیں۔ پیٹ میں گیس بھر جانا اور اخراج نہ ہونا پریشانی کی علامت ہے چنانچہ یہ مرض “اینگزائٹی نیوروسس” یعنی پریشانی کے بارے میں پریشان ہونا ہے۔ میں لوگوں کو کاغذ پر جسم کتے عضلات کی تصاویر بنا کر اور عضلات کی اقسام اور اعمال بتا کر سمجھاتا تھا کہ ان کی مرض کیا ہے۔ جب انہیں مناسب غذا کے استعمال، سیر اور مصروف رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے کوئی دوائی نہیں دیتا تھا تو ان کو لگتا تھا کہ “ڈاکٹر تے گلاں ای کردا اے، آندا جاندا کجھ نئیں”۔ ان کو تسلی تب ہوتی اگر آٹھ دس مہنگی ادویات لکھ دیتا اور مرض کے اثرات سے خوفزدہ کر دیتا یعنی میری پریکٹس نہ چلنے کی دوسری وجہ لوگوں کی علم گریزی یا جہل تھا۔
تخصص کیوں نہ حاصل کر لیا یعنی سپیشلسٹ کیوں نہ بن گیا؟ اچھا سوال ہے۔ جی بننا چاہتا تھا، ماہر نفسیات۔ ابھی ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی نہیں دی گئی تھی۔ حس نثار ایک رسالہ نکالتا تھا “احساسات” نام کا۔ ان دنوں ہم دونوں کی گاڑھی چھنا کرتی تھی۔ میں نے تحقیق پر مبنی ایک مضمون منشیات سے متعلق لکھا تھا۔ اس مضمون والے رسالے کی ایک کاپی ایک معروف ماہر ذہنی امراض کو پہنچا آیا تھا۔ انہوں نے حسن کو فون کیا تھا اور حسن نے مجھے بتایا تھا کہ تمہیں انہوں نے بلایا ہے۔ نام میں نہیں لوں گا۔ جس روز میں ان سے ملنے گیا تو افواہ اڑی ہوئی تھی کہ آج بھٹو کو پھانسی دی جانی ہے۔ شہر کی فضا بہت سوگوار اور کشیدہ تھی۔ ان صاحب نے مجھے اپنے ساتھ “منشیات مخالف ادارے” میں کام کرنے کی پیشکش کی تھی لیکن میں نے ان کا مریضوں کے ساتھ “بنیے” کا سا رویہ دیکھ کر معذرت کر لی تھی۔ وہ حیران تو ہوئے ہی تھے ناراضی بھی ظاہر کی تھی۔
ڈاکٹروں پر ہی بس نہیں ہے۔ جو شخص جس میدان میں ہے وہاں جائز ناجائز طریقے سے دولت کمانا چاہتا ہے۔ دولت کمانے کی خواہش کوئی بری بات نہیں ہے لیکن دولت کمانے کی کوئی تو اخلاقیات ہونی چاہیے۔ اخلاقیات بنائے نہیں بنا کرتی۔ اخلاقیات مرتب ہونے کے لیے مناسب نظام کا ہونا ضروری ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مغربی ملکوں میں تمام پیشوں کی اپنی اپنی اخلاقیات ہے۔ ظاہر ہے کہ سیاسی و معاشی نظام بہتر اور ترقی یافتہ ہے۔ پیشہ ور لوگوں کو جب مناسب معاوضہ ملتا ہے تو اخلاقیات خود بخود بننے لگتی ہیں۔ ایسے ملکوں میں نہ تو ڈاکٹر لوگوں کو خوفزدہ کرکے لوگوں کی جیبیں کاٹ کر امیر ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی آئی ٹی کمپنی والا میڈیا میں آ کر دوگنی تگنی تنخواہ کا لالچ دے کر صحافیوں اور دانشوروں کو ورغلا سکتا ہے۔
درست ہے کہ ڈگریاں جعلی یا غیر تسلیم شدہ اداروں سے حاصل کردہ یا خرید کردہ نہیں ہونی چاہییں مگر اصل ڈگری ہولڈر کو سعد عزیز کی طرح انتہا پسنددہشت گرد اور مجاہد مرزا کی مانند ملک چھوڑ کر پیشہ تبدیل کرنے والا بھی نہیں ہونا چاہیے۔ ان دونوں غیر معمولی رویوں کے لیے ملک کے حالات بدلا جانا ضروری ہے۔ شکر ہے یار دوستوں نے ذہین کہہ کہہ کر ذہانت کا احساس دلا دیا تھا چنانچہ دیار غیر میں بھی اپنے پیشے کے برخلاف صحافت کے پیشے میں کھپ گیا ورنہ کسی مغربی ملک میں کوئی چھوٹا موٹا کام کر رہا ہوتا اور ملک و ملک کے لوگوں کو کوس رہا ہوتا۔
جعلی یا غیر تسلیم شدہ ڈگریاں انہیں چاہیے ہوتی ہیں جنہیں ایسی ڈگری کی بنیاد پر کام ملنے کا یقین ہوتا ہے یا کسی نے انہیں یقین دلا دیا ہوتا ہے۔ پر اصلی ڈگریوں والے جوتے توڑتے ہوئے بے تحاشا نوجوان جن میں اب تو ڈاکٹر اور انجنیر بھی شامل ہو چکے ہیں وہ کیا کریں؟ شعیب احمد شیخ تو کوئی بن سکتا ہے لیکن سعد عزیز بننے کے لیے ماحول بھی ہے، حالات بھی، ترغیب بھی اور مذہبی استدلال بھی۔ پہلے ڈگری والوں کے حالات ٹھیک کیجیے پھر جعلی اور غیر تسلیم شدہ ڈگریاں بیچنے والوں اور حاصل کرنے والوں کی خبر لیجیے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply