کپلز کی سیکس ایجوکیشن اور سیکس سکلز کی اہمیت۔۔تنویر سجیل

کپل تھراپسٹ کے طور پر  بہت سے ایسے کیسز سے سامنا ہوتا ہے جن کے مسائل کی جب نشاندہی اور جانچ کی جاتی ہے تو ان کے مسائل کی کڑیاں جذبات کی تشنگی سے نکلتیں جنسی عمل کی بے ضابطیگیوں سے جا ملتی ہیں, جن کو اکثر مرد و عورت دونوں تشخیص کے بعد تسلیم کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے ان مسائل پر ان کی رہنمائی کی جائے, تاکہ ان کی ازدواجی زندگی میں پھر سے بہار آ جائے.
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ شادی کے بعد میاں بیوی کا ایک دوسرے سے اپنے پیار کا اظہار کرنا اور قربت کے لمحات کو جنسی عمل سے رنگین بنانا نا صرف ایک فطری خواہش ہے بلکہ دونوں کی جذباتی اور جنسی ضرورت بھی ہے جس کی تسکین میں کسی قسم کی بے اعتدالی ان کی نفسیاتی و جسمانی صحت کے لیے مضر ہوتی ہے جو دونوں کو کسی ایسی صورتحال سے بھی دوچار کر سکتی ہے جس سے ان کے آپس کے اختلافات جنم لیں۔

جنسی عمل کے بے سروپا پن کی سب سے بڑی وجہ سیکس ایجوکیشن اور سیکس سکلز سے مستند علم کی کمی کا ہونا ہے، اکثر تو دونوں پارٹنرز ہی اس ضروری علم اور مہارت سے ناواقف ہوتے ہیں اور ان کی یہ ناواقفیت ان کے قربت کے لمحات کے لیے ایک وبال کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے، جس کی وجہ سے ان کی جنسی تسکین محرومی کا شکار ہو جاتی ہے اور جنسی تسکین کی یہ محرومی ان کے لیے بہت سےازدواجی مسائل کا پہلا دروازکھولتی ہے۔

جب دونوں یا کوئی بھی پارٹنر سیکس سکلز سے محروم ہو گا تو اس کے لیے جنسی عمل سے لطف لینا ممکن نہیں رہےپائے گا، جس کی وجہ سے دونوں کے درمیان ایک ایسی غیر صحت مند فضا پیدا ہو گی جس کا رخ ایسے منفی جذبات کی طرف جائےگا جو غصہ، رنج، چڑچڑاپن، اعصابی کھنچاؤ اور دوسری متعدد جسمانی اور نفسیاتی مسائل کی شکل  اختیار کر لیتا ہے۔

آج کے دور میں جب ہر کوئی سوشل میڈیا، ویب ٹیکنالوجی سے وابستہ ہے تو اس کی دسترس بھی ایسے بہت سے مواد سے ہوتی ہے جو ازدواجی زندگی کے ان معاملات کی طرف آگاہی مہیا کرتے ہیں جن کا تعلق جنسی عمل اور اس عمل کے طریقہ کار سے متعلقہ ہوتا ہے، جو اکثر ایسی معلومات پر مشتمل ہوتی ہیں جو حقیقی زندگی کے تقاضوں اور ضرورتوں سے مطابقت نہیں رکھتیں مگر پھر بھی مرد و زن دونوں ہی ایسی معلومات کو اپنے ذہن کے گوشوں میں محفوظ کر کے اپنے پارٹنر سے ویسی ہی توقع پیدا کر لیتے ہیں جس کو پورا کرنا ایک پارٹنر کے لیے ممکن نہیں ہوتا جس کو دوسرا پارٹنر بہت شدید رنج سے محسوس کرتا ہے کہ اس کی خواہش کو جان بوجھ کر رد کیا گیا ہے۔

جنسی عمل کے علم اور مہارت کی کمی یا ان کے حوالے سے قائم غلط تصورات اور نظریات دراصل پارٹنرز کی ازداوجی زندگی کی خوشی کے سب سے بڑے قاتل ہوتے ہیں کیونکہ یہ ایسے محرکات ہیں جن کو سمجھنے کے لیے انسانی جسم کے بیش تر نظاموں کو سمجھنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔مثال کے طور پر دماغ میں پائےجانے والے خوشی کے نیوروکیمیکلز کا کنکشن انسان کے جنسی عمل سے وابستہ ہے اور جب جنسی عمل لطف اور راحت کا سبب نہ بنے تو ان نیوروکیمیکلز کا دماغ میں اخراج ہی نہیں ہوپا تا، اگرچہ ایک پارٹنر قربت کے ان لمحات میں لطف اندوز ہو بھی رہا ہو تو دوسرے پارٹنر کے لیے لطف کا یہ لمحہ اذیت بن کر ابھرتا ہے اور جب بار بار لطف کی بجائے اذیت کا ہی منہ دیکھنا پڑے تو دوسرے پارٹنر کی دلچسپی اس عمل ختم ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے مسائل کو بھی راہ دکھاتی ہے جس کا تعلق ازدواجی نا خوشی کے ساتھ ہو تا ہے۔

روایتی طور پر عورت نے مرد کو ہی یہ اختیار دیا ہے کہ وہی جذبات کے اظہار کی پہل کرے اور ایسے انداز سے کرے کہ رومانیت کا بھرپور احساس جاگے اور اس احساس کی آنچ پر عورت اپنے مرد پر اپنے جذبات کو نچھاور کر کے اس کی جنسی تسکین کے عمل میں برابر کی رفیق بنے۔

مگر یہ بات دراصل ایک بھیانک حقیقت ہے کہ مردوں کی اکثریت پہل تو کرتے ہیں مگر ان کی پہل سیدھی جنسی عمل کے آغاز سے ہوتی ہے جو کہ عورت کے اس رومانوی تخیل کو چکنا چور کر دیتی ہے جس کی وہ خواہش مند ہوتی ہے اور یہی مرد کی وہ پہلی ناکامی ہے جو اس کو ایک ایسے پارٹنر میں بدل دیتی ہے جس سے عورت نہ پیار کر سکتی ہے اور  نہ  ہی نفرت مگر ان دونوں شدید جذبات سے آزاد ہونے کے چکر میں وہ اپنی جذباتی صحت داؤ پر لگا کر اپنی زوجیت کی ذمہ داری کو آنکھیں بند کئے نبھائے جاتی ہے اور ایک روز وہ ایسی جذباتی پیچیدگی پیدا کر لیتی ہے جس سے نفسیاتی و جسمانی مسائل کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

اس ضمن میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اگر عورت نے پہل کی ذمہ داری مرد کے ہاتھ میں دی ہے تو مرد کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے پارٹنر کے جذبات کا احساس کرتے ہوئے اس کے رومانوی کردار  پر پورا اُترے، تاکہ دونوں ہی وصل کی قرب کی راحت سے سرشار ہوں نا کہ اس لطیف عمل کو بدسلیقگی سے اپنے اور دوسرے کے لیے اذیت کا سبب  بنا سکیں۔

جیسا کہ معاشرتی اعتبار سے مرد کا ازداوجی زندگی کے معاملات میں زیادہ کردار ہوتا ہے جس کو اسے سمجھنا چاہیے اور جنسی معاملات کی مہارت کی طرف بھرپور توجہ دینی چاہیے اور ان کو باقاعدہ طور پر معتبر اور معیاری ذرائع سے سیکھنا چاہیے یا پھر ماہر نفسیات کی خدمات لینی چاہیے تاکہ اس کی بہتر رہنمائی ہو سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوسری اہم بات جو خواتین کے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے رومانوی تخیل کو حقیقت کی روشنی میں لائیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ ناولوں اور فلمی کرداروں کے کردار جو ان کے لاشعور میں بستے ہیں حقیقی زندگی میں ان کے پارٹنر ویسا کردار نہیں نبھا سکیں گے اس لیے ان کو حقیقت پسندی سے اپنے پارٹنرز کو تھوڑی رعایت دینا چاہیے اور ان سے اپنی رومانوی اور جنسی خواہشات کا اظہار ضرور کریں تاکہ وہ ان کی تسکین کے لیے کوئی عملی کوشش کر کے ان کے لیے قربت کے لمحات کو لطف میں بدل سکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply