فادر ڈے۔۔آغر ؔندیم سحر

فادر ڈے ’باپ کو یاد کرنے کا عالمی دن۔کیا ماں یا باپ کو یاد کرنے کا کوئی دن مقرر ہو سکتا ہے؟میں پچھلے ایک گھنٹے سے اسی سوچ میں گم ہوں’کالم لکھنا چاہتا ہوں’باپ سے اپنی محبت کا اظہار لفظوں میں کرنا چاہتا ہوں مگر کچھ نہیں لکھ پا رہا۔باپ کی جدائی کو سولہ برس بیت گئے’ان سولہ برسوں میں ایک ایک لمحہ پہاڑ تھا’قدم قدم پر اس ہستی کی کمی محسوس ہوئی’وہ ہستی جس نے اپنے زخمی ہاتھوں سے بہت اونچا تعمیر کیا ’گھریلو حالات اچھے نہ رہے تب بھی میری چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو پورا کیا’انگلی پکڑ کر اس میدانِ کارزار میں چلنا سکھایا’ٹھوکر کھا کر سنبھلنے کا گُر سکھایا’ایسی ہستی کو ایک دن میں کیسے قید کیا جا سکتا ہے۔

میں نے زندگی کے یہ سولہ برس کیسے کاٹے’یہ میں ہی جانتا ہوں لہٰذا میں والد مرحوم کے ساتھ ایک سیلفی شیئر کر کے ان کی بے لوث محبت کا قرض نہیں چکا سکتا۔جس ہستی نے خود بھوکا رہ کر مجھے کھلایا’خود فرش پہ سو کر مجھے نرم بستر فراہم کیا’اپنی خواہشات کو مار کے میری چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا کیا’خود دھوپ میں کھڑا ہو کر میرے لیے چھاؤں فراہم کی’میری زندگی کی ناکامیوں کو اپنی ناکامی سمجھا’میری کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھا’میرے دکھ کو اپنا دکھ کہا اور میری خوشی کو اپنی خوشی’ایسی ہستی کو ایک دن میں قید کیا جا سکتا ہے؟بالکل نہیں۔دوستو! میرا ضمیر نہیں مان رہا کہ میں سوشل میڈیا پر اپنے والد کے ساتھ ایک سیلفی شیئر کروں اور سرخرو ہو جاؤں’باپ تو ایسی ہستی ہے جسے بھولنا گناہِ کبیرہ ہے’جس کے احسانات کا بدلہ ہم اپنی جان دے کر بھی نہیں چکا سکتے’ہماری ایک ایک سانس ماں اورباپ کی محبت کی مقروض ہے’ایسی ہستیوں کا نعم البدل نہیں ہوتا۔

تعجب کی بات ہے کہ جب تک باپ زندہ ہوتا ہے’ہمارے پاس ان کے لیے وقت نہیں ہوتا’وہ اولاد جن کی تعمیر باپ کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہے’وہ اولاد جن کو تعلیم یافتہ بنانے’جن کے خواب پورے کرتے کرتے باپ قبر میں پہنچ جاتا ہے’اس بیٹے یا بیٹی کے پاس باپ کی خیریت تک دریافت کرنے کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ہم میں سے کتنے ہیں جو روزانہ (کم از کم)دس سے پندرہ منٹ اپنے باپ کا ماں کو وقت دیتے ہیں’ان کے مسائل پوچھتے ہیں’ان کی خیریت دریافت کرتے ہیں’ان کی بیماری اور تکلیف کا پوچھتے ہیں’ان کی قدم بوسی کرتے ہیں اور ان سے دعائیں لیتے ہیں؟،ہم میں سے کتنے ہیں جن کے ماں یا باپ دنیا سے رخصت ہو چکے اور وہ ان کے لیے دعا کرتا ہے’ان کی قبر پر جاتا ہے اور ان کی قبروں کی مٹی کو چومتا ہے؟،شاید دس فیصد ایسے لوگ ہوں گے جن کی زندگیوں میں ماں باپ کی موجودگی اس وقت بھی اہم ہوتی ہے جب ہم کامیاب ہو کر مختلف عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں۔

ایسا کیوں ہے؟کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اس مادی زندگی نے جہاں ہم سے سکون چھینا ہے وہاں ہم سے ماں باپ جیسی ہستیاں بھی چھین لی ہیں’کتنے بدقسمت ہیں وہ لوگ جن کے پاس ماں یا باپ موجود ہے مگر ان کے لیے ماں باپ فقط ‘‘مدر ڈے یا فادر ڈے’’تک محدود ہو گئے’کتنے بد قسمت ہیں وہ لوگ جن کے پاس سنوکر لب’شیشہ کلب’پارٹی ہاؤسز اور کافی پوائنٹس پر تو جانے کے لیے وقت ہے مگر والد کی قدم بوسی کا وقت نہیں۔ہم سوشل میڈیا پر سیلفی شیئر کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے حق ادا کر دیا’حالانکہ ‘حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا’۔ہمیں اس دفعہ ‘‘فادر ڈے’’مناتے ہوئے یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ ہمیں کس طرف جانا چاہیے تھا اور ہم مادی زندگی کی دوڑ میں کس طرف نکل آئے’ہم اتنے خود غرض اور بے حس کیسے ہو گئے کہ ہمیں ایسی ہستیوں کو بھی فراموش کر گئے جو ہم سے بلا مشروط محبت کرتی ہیں۔

مجھے فادر ڈے کے موقع پر میرے مہربان دوست اور بھائی محمد ضیغم مغیرہ نے ندا فاضلی کی باکمال نظم بھیجی’میں آپ دوستوں سے وہ نظم شیئر کرنا چاہتا ہوں’یہ نظم پڑھتے ہوئے میں میری آنکھیں کئی بار نم ناک ہوئیں’آپ بھیاس نام نہاد ‘‘ فادر ڈے’’ پر ندا فاضلی کی نظم‘والد کی وفات پر’ملاحظہ فرمائیں:
تمہاری قبر پر

میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا

مجھے معلوم تھا

تم مر نہیں سکتے

تمہاری موت کی سچی خبرجس نے اڑائی تھی

وہ جھوٹا تھا

وہ تم کب تھے

کوئی سوکھا ہوا پتاہوا سے مل کے ٹوٹا تھا

مری آنکھیں

تمہارے منظروں میں قید ہیں اب تک

میں جو بھی دیکھتا ہوں

سوچتا ہوں

وہ وہی ہے

جو تمہاری نیک نامی اور بدنامی کی دنیا تھی
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا

تمہارے ہاتھ میری انگلیوں میں سانس لیتے ہیں

میں لکھنے کے لیے

جب بھی قلم کاغذ اٹھاتا ہوں
تمہیں بیٹھا ہوا میں اپنی ہی کرسی پہ پاتا ہوں

بدن میں میرے جتنا بھی لہو ہے

وہ تمہاری؍ لغزشوں ناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے
مری آواز میں چھپ کر

تمہارا ذہن رہتا ہے

مری بیماریوں میں تم

مری لاچاریوں میں تم

تمہاری قبر پرجس نے تمہارا نام لکھا ہے

وہ جھوٹا تھا

تمہاری قبر میں،میں دفن ہوں

تم مجھ میں زندہ ہو

کبھی فرصت ملے توفاتحہ پڑھنے چلے آنا۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوستو!   یہ سچ ہے کہ والدین دنیا سے چلے بھی جائیں تو کہاں جاتے ہیں’ان کی دعاؤں کا فیض جاری رہتا ہے’تاقیامت جاری رہے گا۔ہمیں مادی زندگی کی دوڑ میں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری تعمیر و ترقی میں جو ہاتھ زخمی ہوئے’ہم ان کے مقروض ہیں۔ہمیں یہ قرض ایک سیلفی شیئر کر کے نہیں چکانا بلکہ ان کے لیے مستقل دعاؤں کا بندو بست کرنا ہے’جن کے والدین زندہ ہیں’وہ ان کو وقت دیں۔ماں باپ اس وقت جیتے جی قبر میں پہنچ جاتے ہیں جب ان کی اولاد ان کے لیے اجنبی ہو جائے۔خدارا! یہ اجنبیت جہنم ہے جہنم۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply