• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عامر لیاقت حسین کی قبر کشائی، جذبات اور قانون۔۔ چوہدری عامر عباس ایڈوویٹ

عامر لیاقت حسین کی قبر کشائی، جذبات اور قانون۔۔ چوہدری عامر عباس ایڈوویٹ

مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 176 کی ذیلی دفعہ 2 قبر کشائی کے قانون بارے ہے۔ اس کے مطابق اگر کسی بھی شخص کے انتقال اور اسکی تدفین کے بعد کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت یہ شک گزرے کہ متوفی طبعی موت نہیں مرا بلکہ اسے زہر دے کر یا گلا دبا کر یا کسی بھی دیگر طریقے سے قتل کیا گیا ہے تو عدالت مطمئن ہونے کے بعد وجہ موت معلوم کرنے کیلئے قبر کشائی کرکے پوسٹ مارٹم کا حکم دے سکتی ہے۔ ایسی درخواست تحصیل کچہری میں علاقہ مجسٹریٹ کو گزاری جاتی ہے۔ درخواست دینے کیلئے ضروری نہیں ہے کہ کوئی قریبی رشتہ دار یا لواحقین میں سے کوئی شخص درخواست دے قانون اس بارے واضح ہے کہ کوئی بھی عام شہری درخواست دے سکتا ہے۔

عوام جذباتی ہوتی ہے مگر قانون جذباتی نہیں ہے۔ قانون کا دل ہوتا ہے اور نہ دماغ۔ قانون نے فیصلہ اپنے طےشدہ اصولوں کے تحت کرنا ہے۔ عدالتوں میں جذباتی تقریریں نہیں چلتی بلکہ قانون اور سامنے موجود شواہد و شہادتوں کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ وہ شخص جج ہی نہیں جو جذبات کی رو میں بہہ جائے۔ اگر جذبات میں آکر فیصلہ ہونے لگے تو دنیا کا نظام ہی درہم برہم ہو جائے۔ مضبوط عدالتی نظام میں فیصلے جوش سے نہیں بلکہ قانون اور ہوش سے کئے جاتے ہیں۔

قبر کشائی بارے قانون بہت زبردست ہے۔ اگر قانون میں یہ شرط رکھ دی جائے کہ قبر کشائی کیلئے لواحقین میں سے کوئی شخص درخواست دے تو میں ایک عمومی بات کر رہا ہوں کہ مثال کے طور پر اگر کسی متوفی کو قتل ہی قریبی رشتہ دار نے کیا ہو تو وہاں کون درخواست دے گا؟ خاندانوں میں جائیداد کے جھگڑے ہوتے ہیں۔ اگر شرعی وارثان میں سے کسی نے قتل کیا ہو تو وہ اپنی وراثت سے محروم ٹھہرے گا۔ ویسے بھی انتقال اور تدفین کے بعد اگر زرا سا بھی شک ہو کہ متوفی کو قتل کیا گیا ہے اور مجسٹریٹ کو اس پوائنٹ پر مطمئن کر دیا جائے تو قبر کشائی کی جا سکتی ہے اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔ وجہ موت جاننا زیادہ اہم ہے۔

کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم سے جو مردے کی بےحرمتی ہو گی اس سے عامر لیاقت حسین کے لواحقین پر کیا گزرے گی؟ بہت اذیت ناک حالت سے گزریں گے عامر لیاقت کے لواحقین کو بہت تکلیف ہو گی وہ تو پہلے ہی بہت زیادہ پریشان ہیں۔
حد ہے بھئی۔۔
آپ کس دلیل پر یہ بات کر رہے ہیں؟ میرے عامر لیاقت کے لواحقین سے نہیں بلکہ آپ لوگوں سے درج ذیل سوالات ہیں:
جن رشتےداروں کے جذبات کیلئے آپ اس وقت اپنی فیس بک کی دیواروں کو کالا کر رہے ہیں یہ رشتےدار اس وقت کہاں تھے جب وہ زندگی اور موت کے درمیان کھڑا تھا اور دنیا تماشا دیکھ رہی تھی؟
جب وہ سارا دن دھاڑیں مار مار روتا رہتا تھا؟
جب وہ رو رو کر ویڈیوز ریکارڈ کروا کر بھیجتا تھا کہ خدا کیلئے مجھے معاف کر دو؟ پوری دنیا دیکھتی تھی مگر ان رشتہ داروں کی نظر سے نہیں گزریں؟
یہ رشتےدار اس وقت کہاں تھے جب وہ ساری رات چیخیں مارتا تھا اور اس کی آوازیں سارا محلہ سنتا تھا؟
یہ رشتے دار اس وقت کہاں تھے جب وہ شدید ڈپریشن میں آ کر بار بار بیہوشی کی حالت میں چلا جاتا تھا؟
مطلب جب وہ زندہ تھا زندگی موت کی کشمکش میں تھا اسے آ کر پوچھا تک نہیں ہے جب وہ مر گیا تو اسکی صرف قبر کشائی سے انکے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ وا ہ کیسے عمدہ جذبات پائے ہیں لواحقین کے ترجمانوں نے۔

مجھے افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اگر اسکی زندگی میں یہی لوگ آ کر اسکا ہاتھ تھام لیتے تو شاید اسے مرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ مگر صد افسوس کہ ہمیں جذباتی تقریریں جھاڑنے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں ہے۔

عامر لیاقت کی موت ایک معمہ ہے یہ تو سارا ملک مانتا ہے۔ اب ایک شخص بیچارہ اگر درخواست لے کر عدالت پہنچ گیا ہے کہ میری کنفیوژن دور کر دو تو کچھ لوگ لٹھ لے کر اسکے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ بھئی اس میں آخر حرج ہی کیا ہے؟ اس نے تو آدھی قوم کی ترجمانی کر دی۔

قبر کشائی کا فیصلہ قانون کا فیصلہ ہے اور بہت درست فیصلہ ہے کہ بھئی اگر کوئی وہم ہے تو اسے دور کیا جائے لہذا قانون کو اپنا راستہ بنانے دیجئے۔ قبرکشائی کے مکمل قانون کے متعلق وضاحت میں اوپر میں دے چکا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عامر لیاقت ایک سیلیبریٹی تھا۔ دنیا کی پانچ سو متاثر کن شخصیات میں سے ایک تھا۔ ایک پبلک فگر تھا۔ پاکستان میں ہر ذی شعور شخص اسے سنتا تھا۔ اگر کم از کم دس کروڑ پاکستانی بھی اسے سنتے تھے تو کم از کم پانچ کروڑ لوگ تو اسکے فالوورز بھی ہوں گے۔ اگر ایک بھی فالوور آ کر عدالت کو مطمئن کر دے تو قبر کشائی ہو سکتی ہے۔ اگر باقی پانچ کروڑ لوگوں میں سے بھی کوئی درخواست دے کر جج کو مطمئن کر دے تو جج قبرکشائی کا حکم دے سکتا ہے۔ یہی قانون ہے یہی ضابطہ ہے باقی سب فضول جذباتی اور افسانوی باتیں ہیں۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply