مایا اور میری کہانی۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

مایا سے متعارف کرانے کی ہامی ہلکے سرمئی بالوں کے جتھے سے نکلتے چاندی کے چند تاروں والی اس لڑکی نے بھری تھی جو پندرہ بیس سالوں بعد بھاری آواز، مردوں کی سے کٹے سیاہ و سفید بالوں اور مردوں والے نام ماتے کے ساتھ مجھے ملا تھا۔
تب جب وہ لڑکی تھی اور اس کا نام مارینا تھا، اس نے ماسکو میں میرے دفتر میں بسیرا کیا ہوا تھا، کھانا اور بہت اچھا کھانا بنا کے دینے کے علاوہ وہ لڑکیوں کی طرح ملتفت نہ ہوتی نہ ہی التفات کے اظہار کا جواب دیتی۔
کہنے لگی میں اپنی ایک سہیلی مایا سے ملوا دیتی ہوں آپ کو۔ اس سہیلی کی پذیرائی کی شرائط ایسی تھیں جیسے کوئی عام خاتون نہیں بلکہ شہزادی پدھار رہی ہوں۔
تب پیسے ہوتے تھے چنانچہ میں نے بھی کنجوسی نہ کی۔ جب وہ خاص طور پر شوفر والی کار میں لائی گئیں تب تک ایک دوست کی ناگوار کال کے باعث میرا شوق دید پامال ہو چکا تھا۔
مسکراتی ہوئی یہ عام شکل و صورت کی بلند قامت خاتون دیکھ کے مجھے لگا کہ یونہی اس قدر اہتمام کر ڈالا۔ مزاج میرا، ویسے ہی برہم تھا۔
چند دقیقوں کے بعد میں نے مہمان مایا سے انگریزی میں کہا کہ ساتھ کے کمرے میں چل کے میری بات سنیں۔ وہ بلا چون چرا میرے ساتھ ہو لی تھیں۔
میں نے ان کی بھاری چھاتیوں کی جانب اشارہ کرکے انگریزی میں ہی پوچھا تھا، ” کیا میں انہیں چھو سکتا ہوں؟ ” انہوں نے مسکرا کے گردن کے اشارے سے اجازت دے دی تھی۔
چھونے کے بعد میں نے واپسی کے چند قدم لیے تھے ۔ وہ میرے پیچھے تھیں۔ جی میں نہ جانے کیا آیا کہ مڑا اور ان کا بازو پکڑ کے دفتر کے دوسری طرف ایک کمرے میں لے گیا۔ جہاں مرمت کے سبب زمین پہ پلاسٹک شیٹ کا ٹکڑا تھا۔ اسی پہ انہیں دو زانو کر دیا۔
فراغت پہ مجھے ایسے لگا جیسے پیاسے کے ہاتھ سے جنت کی نہر کے ٹھنڈے میٹھے دودھ کا گلاس پورا پیے بغیر چھین لیا گیا ہو۔
پھر پارٹی رہی۔ مایا آنے جانے اور راتیں ساتھ بتانے لگیں جبکہ میری گرل فرینڈ نینا تھیں جن سے ابھی بیاہ نہیں ہوا تھا۔ مگر رہتا میں ان کے ساتھ تھا۔ مایا یہ بات جانتی تھیں۔
چند ماہ کی ملاقاتوں کے بعد مایا اپنے ملک چلی گئیں۔ چند ماہ بعد ملاقات ہوئی۔ زرد تھیں۔ پوچھا کیا ہوا۔ بولیں تم سے حاملہ تھی۔ میں نے اسقاط کروا دیا۔ میں نے کہا ہیں کیا؟ بولیں، اسے چھوڑو مزاق کر رہی تھی۔ میں بیمار ہو گئی تھی، اب ٹھیک ہوں۔ مگر مجھے ان کہا پہلے کہا درست لگا تھا۔ مگر ملاقات مختصر تھی کہ اس کی سہیلی لینے پہنچ گئی۔
پھر میری ملاقات کئی سالوں بعد تب ہوئی جب میں ان کے ملک میں ان کے شہر میں ان کے ہاں مہمان ہوا۔ گلے ملتے ہی کان میں کہا، ” یہاں مجھے ہاتھ نہ لگانا، یہ آپ کے پٹھانوں کا سا سماج ہے”.
پھر ایک دن کہا، ” پہلی ملاقات اور پہلے عمل میں آپ نے مجھے حرافہ جانا ہوگا؟ ”
میں نے صدق دل سے کہا، ” نہیں، میں نے تمہیں ہی حقیقی انسان جانا تھا جو دوسرے انسان کا مزاج سمجھ کے نہ صرف اس کی ضرورت پہچانے بلکہ اسے خوش دلی سے پورا کرنے پر بھی این و آن کیے بن راضی ہو”.
مانیں نہ مانیں، میں زندگی میں جس ” حسین ترین ” خاتون سے شناسا ہوں وہ یہ مایا ردونایا ہیں جن میں میں نے کبھی کوئی منفی یا مطالبہ آمیز جذبہ نہیں دیکھا۔۔۔۔ نہ حسد، نہ رشک، نہ خواہش، نہ طلب، نہ جھگڑا، نہ اداسی البتہ کبھی کبھی مایوسی کی جھلک دیکھی جو اگلے ہی لمحے وہ اپنی مسکراہٹ سے دور کر دیا کرتیں۔
میں 1998 کے بعد ان سے بوجوہ نہیں مل پایا۔ جارجیائی نسل کی یہ خاتون ایک عرصہ سے سویڈن میں ہیں۔ ان کے شوہر ماہر نفسیات ہیں اور ان کی ایک جوان ہوتی بیٹی ہے۔ جب یہ جارجیا میں تھیں تو وہاں پاکستان آرمی کے امن دستے کے افسروں کی مترجم اور معاون تھیں۔ سویڈن میں انہوں نے ڈینٹل ٹیکنیشن کا کورس کیا اور پیشہ بدل لیا۔
مایا ہمیشہ دل سے قریب تر رہیں گی۔
2 کیفیتیں
میرے جیسے تخئیل پسند عینیت پرستوں پر دن میں کئی کیفیات طاری ہوتی ہیں مگر آج کی دو کیفیتیں بتانے کو جی چاہا۔
پہلی
ناشتہ کرکے ثروت مند دوست میزبان نے لیٹنے کی خواہش کا اظہار کیا تو میں بھی ڈی ایچ اے لاہور کے بنگلے کی دوسری منزل پہ فراہم کیے گئے مجہز اور ایر کنڈیشنڈ کمرے میں لوٹ ایا۔ بستر پر دراز ہوتے ہوئے خود سے بہ آواز بلند کہا،” یار یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیسی زندگی ہے یہ؟” پھر خود سے دل میں کہا،” بس ٹھیک ہے نا، اس میں بھی اللہ کی رضا ہوگی” یہ سوچتے ہوئے ذہن میں آیا، ” مذہب افیون ہے”۔
مگر میزبان کے لیے تو مذہب افیون نہیں ہے نا، اللہ نے اسے سب عنایت کیا ہوا ہے اور وہ فرصت کو عام بات سمجھتا ہے، اس کی سوچ بارے سوچنا شاید میری ہی سوچ ہو۔
دوسری
گھر کے عام کام کرنے والا پندرہ سالہ عدنان جس نے ایک بھی جماعت نہیں پڑھی مگر موبائل میں لکھے ساری انگریزی ہدایات کو پڑھے بغیر سمجھتا اور ان سے نمٹ سکتا ہے جیسے فائلز کہاں ہیں وغیرہ۔۔۔۔ ایبسولیوٹلی ناٹ جانتا ہے، کمرے میں کوئی کام کرنے آیا۔ جاتے ہوئے پوچھا،” ڈاکٹر صاحب آپ کو میڈیا میں کیسی جاب چاہیے ” میں نے مسکرا کے کہا اینکر پرسن کی۔ نہ سمجھا تو بتایا جو ٹاک شو کرتے ہیں۔ بولا، ” میں بات کرتا ہوں ایک آدمی سے، میڈیا میں کام کرتا ہے” یہ کہہ کے دروازہ بند کرکے چلا گیا۔ مجھے اس کے احساس تعلق پہ پیار آیا، میں خوشی سے ہنسا اور پچ کرکے جیسے اس کی غیر موجودگی میں اسے شفقت سے چوم لیا ۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply