جگر ایک گلینڈ ہے اور باقی کے مقابلے میں بہت بڑا ہے۔ اس کا وزن 3.3 پاونڈ ہے۔ اور یہ بہت مصروف عضو ہے۔ اگر یہ بند ہو جائے تو چند ہی گھنٹوں میں موت واقع ہو جائے گی۔اس کے بہت سے کاموں میں ہارمون، پروٹین اور ہاضمے کا جوس بنانا ہے جو بائل کہلاتا ہے۔ یہ زہریلے مادے فلٹر کرتا ہے۔ پرانے سرخ خلیے تلف کرتا ہے۔ وٹامن جذب اور ذخیرہ کرتا ہے۔ فیٹ اور پروٹین کو کاربوہائیڈیٹ میں تبدیل کرتا ہے اور گلوکوز کی مینجمنٹ کرتا ہے۔ یہ عمل اس قدر ضروری ہے کہ چند منٹ کا تعطل اعضاء کو فیل کر سکتا ہے اور دماغ میں ضرر پہنچا سکتا ہے۔
(اس عمل میں جگر گلوکوز کو گلائکوجن میں بدلتا ہے اور ضرورت پڑنے پر اسے واپس گلوکوز میں بدل کر خون میں شامل کر دیتا ہے)۔
کل ملا کر جگر پانچ سو کے قریب میٹابولک پراسس میں شرکت کرتا ہے۔ یہ جسم کی لیبارٹری ہے۔ اس وقت آپ کے خون کا ایک چوتھائی حصہ جگر میں پایا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جگر کا ایک اور زبردست فیچر خود کو دوبارہ پیدا کر لینے کی صلاحیت ہے۔ آپ اس کا دو تہائی حصہ کاٹ سکتے ہیں اور یہ چند ہفتے میں اپنے پچھلے سائز پر واپس آ جائے گا۔ پروفیسر ہانس کلیور کے مطابق، “یہ اتنا خوبصورت نہیں ہو گا۔ اصل جگر کے مقابلے میں کچھ rough ہو گا لیکن ٹھیک کام کرتا ہو گا۔ ہم نہیں جانتے کہ جگر کو کیسے معلوم ہوتا ہے کہ واپس بڑھنا ہے اور ٹھیک سائز پر پہنچ کر رک جانا ہے۔ لیکن ہم میں سے کچھ کے لئے یہ خوش قسمتی ہے کہ یہ ایسا کرتا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جگر کی یہ لچک لامحدود نہیں۔ اس کی سو سے زیادہ بیماریاں ہیں۔ اور کئی خطرناک ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی کا تعلق شراب نوشی سے ہے۔ NAFLD ایک اور عارضہ ہے جس کا زیادہ لوگوں نے سنا نہیں ہوتا لیکن یہ عام ہے۔ ایک تہائی آبادی اس کی ابتدائی سٹیج پر ہوتی ہے لیکن خوش قسمتی سے اکثریت اس سے آگے نہیں بڑھتی۔ لیکن اگر بدقسمتی سے ایسا ہو جائے تو جگر کی ناکامی یا دوسرے سنجیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک اسرار ہے کہ یہ کن لوگوں میں ہوتی ہے اور کون لوگ اس سے بچ جاتے ہیں۔
ایک اور رسک ہیپاٹائٹس سی کا ہے۔ یہ اپنے شکار کے جسم میں چالیس سال سے بھی زائد عرصہ رہ سکتا ہے اور اس دوران جگر کو خاموشی سے نقصان پہنچاتا رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
جگر کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں رہی ہیں۔ اسے بہادری کی جگہ بھی سمجھا جاتا تھا۔ طبِ یونانی میں دو سیال پیدا کرنے کا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا۔ دو ہزار سال تک جگر کے بارے میں یہ غلط فہمیاں رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہونا، دل کو رونے اور جگر کو پیٹنے کے درمیان انتخاب، خونِ جگر کا بہنا، جگر کے زخموں اور داغوں پر شاعری ۔۔۔۔ ایسا صرف اردو ادب تک ہی محدود نہیں۔ بے ہمت کو اردو میں بے جگرا اور انگریزی میں lily-livered کہا جاتا ہے۔
اور یہ بات آپ اپنے جگری دوستوں کی محفل میں بتا سکتے ہیں۔
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں