• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سلسلہ ہائے اہلِ بیت رسول اللہﷺ/ہماری مائیں(گلدستہ اہل بیت کا دوسرا معطر پھول)/حضرت سودہ بنت زمعہ رض (قسط1)۔۔محمد جمیل آصف

سلسلہ ہائے اہلِ بیت رسول اللہﷺ/ہماری مائیں(گلدستہ اہل بیت کا دوسرا معطر پھول)/حضرت سودہ بنت زمعہ رض (قسط1)۔۔محمد جمیل آصف

اگر ہم سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی ایام کا جائزہ لیں تو عشق و وفا، تسلیم و رضا اور عقیدت و چاہت کے کامل مجسم بلا تفریق مرد و زن نظر آئیں گے جو کسی بھی روحانی پیشوا کو خال خال ہی نصیب ہوئے ۔
تاریخ کا دھارا کسی بھی موڑ پر ایسی روشن مثالیں پیش کرنے سے قاصر ہے ۔جو عاشقان رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم نے پیش کیں ۔
حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اور ان کے خاوند سکران بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہی قدسی نفوس کے جانثار قافلہ عشق و وفا میں نمایاں تھے ۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہا اوائل اسلام کی السابقون میں سے ہیں ۔اور آپ رضی اللہ تعالی  عنہا نے قریش مکہ کے ظلم و جبر کی بدولت ہدایت رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کی روشنی میں اپنے ایمان کو چھپایا اور اپنے خاوند سے بھی اس بات کا پردہ رکھا ۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہا کے مکارم اخلاق ابتداء ہی سے مشہور تھے۔
آپ رضی اللہ تعالی  عنہا نے
بطور اچھی شریک حیات اپنے خاوند کو احسن طریقے سے ترغیب اور دین حق کی طرف بلایا ۔
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو یہ شرف بھی حاصل ہے جنہوں نے پیار محبت اور اخلاق حسنہ سے اپنے خاوند کے دل کو منور کیا اور انہیں شمع رسالت کا پروانہ بنایا ۔
قیامت تک آنے والی تمام خواتین کو شوہر کے لیے بطور راہ حق پر چلنے والے مسافر کی مجسم ہدایت روشن مثال قائم کی۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہا کی اس خوبی کو مشہور سکالر پروفیسر اسرار حسین معاویہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں
تذکرہ اہل بیت کی خصوصیات میں وہ کہتے ہیں کہ ”
کائنات میں سب سے خوبصورت تحفہ جو ایک رشتے کا دوسرے رشتے کو دینا ہے ۔وہ سیرت رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم پر اس کی زندگی کو لانا ہے جو حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کیا۔”
دونوں میاں بیوی نے دین حق کی سربلندی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی خاطر خندہ پیشانی سے مشکلات و مصائب کا سامنا کیا ۔
ہجرت کی صعوبتیں برداشت کیں وطن سے دوری کی اذیت اٹھائی ۔
دیار غیر میں بھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فکر مند رہتیں ۔انکی محبت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ
پروفیسر اسرار حسین معاویہ کہتے ہیں
” حبشہ کے دنوں میں ایک دن حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالی  عنہا اور انکے شوہر حضرت سکران بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہ کھانا کھانے لگے ۔یہ ایک دم رونے لگیں،انکے شوہر کہنے لگے کیا ہوا ۔
کہنے لگیں  جن کی خاطر ہجرت کی وہ مکہ میں تکلیفوں میں ہیں، پریشانیوں میں ہیں، کانٹوں میں ہیں، اوجھڑی پھینکی جاتی ہے ہم ہجرت کرکے بادشاہوں کے محل میں  آگئے، باورچی کے بنے شاہی کھانے کھاتےہیں ہمیں زیب نہیں دیتا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تنگی میں ہوں، فاقوں میں ہوں، دکھوں میں ہوں، تکلیفوں میں ہوں اور سودہ اور اسکا شوہر سکران دستر خوان پر ہوں ۔ ہمیں واپس جانا چاہیے، اسی ذات کے ساتھ زندگی گزارنی چاہیے ۔
سکران رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔”
تو دونوں نے طے کر لیا ہجرت حبشہ سے واپس مکہ مکرمہ صرف اس بنا پر حضور تنگی میں ہوں گے اور ہم آسانی میں، حضور فاقوں میں ہوں  گے، ہم اچھا کھاتے ہیں، وہ کانٹوں پہ ہو ں گے ہم محلات میں ہیں ۔ انہوں نے ہجرت حبشہ سے مکہ واپسی طے کرلی (سیرت اہل بیت پروفیسر اسرار حسین معاویہ)
ہجرت حبشہ کے دوران حضرت سودہ رضی اللہ تعالی  عنہا کے خاوند بیمار ہو گئے ۔
اس  سے پہلے انہوں نے ایک خواب دیکھا جس کا ذکر انہوں نے اپنے خاوند حضرت سکران رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ۔
جاری ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply