• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ساڈے نال سجنا نے کیتی بے وفائی اے ۔۔ قادر خان یوسف زئی

ساڈے نال سجنا نے کیتی بے وفائی اے ۔۔ قادر خان یوسف زئی

ڈالر کی اونچی اڑان کسی طور تھم نہیں پارہی، عوام کو اس امر کی سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت نے پٹرول سبسڈی کو آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ختم کردیا تو اس کے باوجودان کا اور حکومت کے درمیان معاہدہ کیوں نہیں ہورہا،وہ مزید کیا چاہتے ہیں؟۔

حکومت مشکل فیصلے کرنا چاہتی ہے لیکن وہ دشوار فیصلے کیا ہیں، یہ عوام کو سمجھ میں نہیں آرہا،انہیں تو برطرف حکومت اور حالیہ گورنمنٹ میں کوئی فرق محسوس نہیں ہورہا، مہنگائی پہلے بھی تھی اور آج اس سے زیادہ ہے۔ پریشانی تو پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے، بلکہ بتایا جاتاہے کہ چند مہینے نہیں بلکہ کئی برس سخت رہیں گے۔ یہ بہت ہولناک صورتحال ہوگی کیونکہ اگر یہی سب کچھ ہونا تھا اور عوام کی آزمائشیں کم نہیں کرناتھیں، تو انہوں نے پی ٹی آئی حکومت کیوں برطرف کرائی،اعداد و شمار کے گنجلگ دھندوں میں نہ  جاتے، کیونکہ عوام اعداد و شمار کے بجائے اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ انہیں اجناس کم قیمت پر ملیں گی یا نہیں، بجلی گیس اور پانی کے بلوں میں کمی ہوگی یا نہیں، ان کی قوت خرید کب بڑھے  گی، پرائیوٹ ملازمین کی تنخواہوں میں کون اضافہ کرے گا، ان کے بچے کب اچھی تعلیم حاصل کرسکیں گے اور ان کا معیار ِ زندگی کب بہتر ہوگا۔

کہنے تو کہا جاتا ہے کہ ڈالر کی اونچی اُڑان کا فی الوقت واحد سبب سیاسی عدم استحکام ہے، جو کسی بھی سرمایہ کار یا مالیاتی ادارے کے لئے اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ کیا کمزور حکومت مستحکم فیصلے کرسکتی ہے جس سے ان کے سرمایہ کو تحفظ حاصل ہو۔ تو یہ سمجھنے کے لئے معاشی تجزیئے کی ضرورت نہیں کیونکہ معاملہ دو جمع دو، چار ہی ہے کہ کوئی بھی سرمایہ کار ایسے کسی ملک میں اپنے اثاثے خطرات میں نہیں ڈال سکتا، جہاں اسے معاشی و سیاسی تحفظ نہ ملے۔ ہمیں بتایا گیا کہ بڑھتی ہوئی عالمی نمو اور افراط ِ زر کے نقطہ نظر سے سرمایہ کاروں کے تحفظات نے 2002کے بعد امریکی ڈالر کو بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ اس وقت بھی دنیا میں ڈالر کے مقابلے میں کوئی دوسری متبادل ریزرو کرنسی کے طور پر موجود نہیں، سوئس فرانک، یورو اور سٹرلنگ نے پورٹ فولیوز میں اپنی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں جزوی فائدہ تو اٹھایا ہے لیکن ڈالر دو دہائیوں سے مضبوط سے مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ تاہم بتایاگیا کہ بلند افراط ِ زر اور جغرافیائی سیاسی عدم استحکام کے امتزاج نے دنیا کی ریزرو کرنسی کی مانگ میں قدرے اضافہ کیا ہے، جیسے روس۔ یوکرین جنگ میں پابندیوں کے باعث تجارت امریکی ڈالر کے مقابلے میں متبادل کرنسی میں ہورہی ہے۔

عوام کو ان عوامل سے کوئی سروکار نہیں اور نہ یہ ان کے لئے کوئی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ ان کا شعبہ ہی نہیں کہ ڈالر بڑھتا کیوں اور گھٹتا کیوں ہے، انہیں تو معاوضہ روپوں میں ملتا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ڈالر کے بڑھنے اور گھٹنے سے کیا فرق پڑ سکتا ہے، یہ تو اُن لوگوں کے چونچلے ہوں گے جو باہر ملک جاتے ہیں، جن کے کاروبار باہر ہیں، جن کے خاندان بیرون ملک رہتے ہیں،ہمیں تو دال روٹی خریدنے کے لئے روپوں کی ضرورت ہے او ر وہ روپیہ دے کر اشیاء خریدتے ہیں اور انہیں تنخواہ بھی روپوں میں ملتی ہے۔اب انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ امریکی ڈالر عام طور پر کم عالمی لیکویڈیٹی کے اس ماحول میں مضبوط ہوتا ہے، نیز یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ یہ تب ہی دوبارہ کمزور ہوگا جب عالمی نقطہ نظر بہتر ہوجائے گا۔ یقینی طور پر مالیاتی منطق سر کے اوپر سے گذر جاتی ہوں گی کہ کسی بھی ملک کی معیشت اور مالی حالات کی بہتری کے ساتھ قوت خرید کا براہ راست تعلق ڈالر کی شرح سے ہے اور ڈالر کا مستحکم ہونا، سیاسی استحکام سے جڑا ہوا ہے۔یعنی آسان الفاظ میں کہا جائے کہ جب تک کسی بھی ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہوگا اس کی معیشت کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوسکتی اور اس کا وہی حال ہوگا جو سری لنکا جیسے ملکوں کا ہوا۔

عوام کو یہ سمجھانا بھی مشکل ہے کہ روس۔یوکرین جنگ کو اپنے  منطقی انجام تک پہنچنا ضروری ہے کیونکہ روس کو تو تاریخی منافع ہورہا ہے لیکن جنگ کے مضر اثرات سے پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک یہاں تک کہ جس ملک کا ڈالر ہے وہ خود بھی متاثر ہے، یعنی امریکہ۔ گزشتہ دنوں ہی خبر آئی تھی کہ وہاں بھی پیٹرولیم مصنوعات میں تاریخی اضافہ ہوا۔ اب یہ سمجھنا واقعی مشکل ہے کہ جب امریکہ کا اپنا ڈالر ہے تو وہ خود مہنگا کیوں ہو رہا ہے، تو اسے کم ازکم عوام کی اکثریت سمجھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی، اب تو یہ بھی کوئی نہیں پوچھ رہا کہ برطرف حکومت کا بیانیہ تھا کہ ان کے جانے ے حزب اختلاف کو فائدے ملیں گے، ان کی ’خطائیں‘ معاف کردی جائیں گی، لیکن سب کچھ الٹا کیوں ہورہا ہے، ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ جیسے مالیاتی ادارے سزا دے رہے ہوں، پٹرول اور بجلی پر سبسڈی ختم کرانے کے باوجود نئے نئے مطالبات سامنے آرہے ہیں، خاص کر سی پیک منصوبوں پر ادا کی جانے والی رقوم کا حساب کتاب مانگنا تو ہمیں یہی سمجھا رہا ہے کہ معاملہ کچھ او ر ہے، دکھایا کچھ اور کیا کچھ اور جارہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن سب چھوڑیں، بادی   النظر لگتا ایساہے کہ سابق وزیراعظم کو برطرف کرنے کی سزا موجودہ حکومت کو دی جارہی ہے، نہ کوئی امریکی ریلیف، نہ کوئی فوجی امداد، نہ کوئی خیر خیرات، کچھ بھی تو نہیں، یہاں تک کہ امریکی صدر نے شہباز شریف کو بھی ابھی تک فون نہیں کیا۔ تو پھر یہ سب کیا ہے کہ موجودہ حکومت وہ سب کام کررہی ہے جو سابق حکومت نے کرنے تھے، یا پھر انتخابات کا اعلان ہوتا تو عبوری انتظامیہ چھپ چھپاتے تمام معالات کرلیتی، یہ آگ کے شعلے موجودہ حکومت نے کیوں منہ میں ڈالے کہ سب کچھ جلتا جارہا ہے۔ عوام بہت سادہ ہے، اسے اس کی کوئی سمجھ نہیں کہ اتنی مہنگائی، بجلی گیس سمیت پیٹرولیم مصنوعات میں ہوش الربا اضافے کے باوجود اب بھی کون سے ’مشکل فیصلے‘ کئے جانے ہیں، وزیر خزانہ روز ٹی وی پر آکر ڈراتے ہیں، ان سے ہم خوف زدہ ہوجاتے ہیں لیکن سابق وزراء خوش ہوتے اور شکر ادا کرتے ہیں کہ
ساڈے نال سجنا نیں کیتی بے وفائی اے
رل تے گئے آں پر چس بڑی آئی اے

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply