• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سیاسی کارکنوں کے مشترکہ اثاثے کیا ہیں۔۔سیّد علی نقوی

سیاسی کارکنوں کے مشترکہ اثاثے کیا ہیں۔۔سیّد علی نقوی

برصغیر جذباتی طور پر متحرک افراد کا خطہ ہے مذہب ہو، مسلک ہو، سیاست ہو، ریاست ہو، کرکٹ ہو یا ذات برادری، ہمارے نزدیک معاملہ فہمی سے زیادہ جذبات اہم ہیں، نظریات سے زیادہ شخصیات اہم ہیں، اصول سے زیادہ ذاتی وابستگی اہم ہے، اسی جذباتیت نے انتہا پسندی کو جنم دیا ہے، ہزاروں سالوں سے اس خطے میں مختلف مذاہب و نظریات کے ماننے والے ایک ساتھ رہ رہے تھے، مسلمان ہولی و دیوالی کھیلتے تھے تو ہندو، سکھ، عیسائی عید مناتے اور محرم کے انتظامات کرتے تھے، لیکن یہ تقسیم در تقسیم در تقسیم کا ایجنڈہ ایسا کامیاب ہوا کہ آج مسلمان مسلمان کا اور ہندو ہندو کا نہیں رہا، جب لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان ایک مسلم ریاست ہے تو میرے دماغ میں پہلا سوال یہ آتا ہے کہ کونسا اسلام ہے جو یہاں رائج ہے؟؟ کیونکہ اب مسلمان ہونا کافی نہیں آپ کو یہ بتانا پڑے گا کہ آپ سنی العقیدہ مسلمان ہیں یہ شعیہ ہیں، بریلوی، دیوبندی، سلفی ہیں یا مولانا عبد الوہاب کے نظریات کو مانتے ہیں، اچھا اگر سنی ہیں تو کون سے فقہ کو آپ فالو کرتے ہیں؟؟ حنفی، مالکی، شافعی یا حنبلی، اسی طرح آپ کا سلسلہ کون سا ہے چشتیہ یا قادریہ، وغیرہ وغیرہ۔۔ اسی طرح اگر آپ شیعہ ہیں تو تقلیدی ہیں یا اخباری؟؟ اگر تقلید میں ہیں تو کس کی مراجعت کے آپ قائل ہیں؟؟ مومن ہیں یا مقصر؟؟غرض تقسیم کرنے کو بہت سامان ہے لیکن جوڑنے کو کچھ نہیں یہاں تک کہ دین بھی نہیں۔

سیاسی بات کریں تو گفتگو کی سطح مزید گر جاتی ہے یہاں گالم گلوچ، ذاتیات پر رکیک حملے، تکفیر ، غداری، کرپشن، ملک دشمنی کے فتوے تو ہیں لیکن جوڑنے کو یہاں بھی کچھ نہیں، ریاست بھی نہیں۔

اگر ہم موجودہ پاکستان کی بات کریں تو سیاست کو لے کر تقسیم خطرناک صورت اختیار کرتی جا رہی ہے، ہم نے اپنے بڑوں بوڑھوں کو سیاسی اختلاف کرتے دیکھا ہے گرما گرم بحثیں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے بزرگوں میں ہوا کرتی تھیں لیکن جہالت، غداری، ملک دشمنی تک بات نہیں پہنچتی تھی لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ کسی زندہ کی عزت کرنا ممکن نہیں رہا،
ہاں اگر کوئی مر جائے تو اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا جاتا ہے، کل شاید یہ بھی نہ ہو پائے۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ اس دنیا کے مسائل اتنے گھمبیر اور ڈئینیمک ہیں کہ جو باتیں ہمارے سیاستدان کرتے ہیں ان کا اصل معاملات سے دور دور کا تعلق نہیں ہے، مثال کے طور پر جتنا زور ہمارے تمام سیاسی قائدین ایک دوسرے کی مخالفت پر صرف کرتے ہیں کیا اسکی ایک فیصد شدت سے کبھی آپ نے انکو اس ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی پر بات کرتے دیکھا؟؟

آپ لاہور شہر کو دیکھیے جس کو باغوں کا شہر کہتے تھے آج وہاں چھ مہینے سموگ کا راج رہتا ہے، بے تکٌی سردی، بے سروپا گرمی، لیکن کیا کسی لاہور کے چودہری، ملک، میاں، بٹ یا خان صاحب کو آپ نے یہ کہتے سنا کہ ہم لاہور کے ماحول کو صاف کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں؟؟ کیا پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے منشور میں آپکو ماحولیات کی صفائی بھی نظر آئی؟؟

کراچی کہ جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا دہشتگردی، انتہا پسندی، جرائم، قتل و غارتگری کا ایپی سنٹر بن گیا، کراچی میں گھروں میں پانی پہنچانے والا ٹینکر تک ایک مافیا بن چکا لیکن کیا آپ نے کبھی کسی کراچی کے میمن، ڈھیڈی، زرداری، پگاڑا یا مہاجر سے سنا کہ ہم وہ منصوبہ لا رہے ہیں کہ جس کے بعد کراچی کی عوام کو پانی خرید کر نہیں پینا پڑے گا یا کم از کم اب ہم ان ٹینکر والوں کو مافیا نہیں بننے دیں گے؟؟

بلوچستان اور کے پی کے کی تو خیر کیا ہی بات کریں غرض ہر وہ معاملہ کہ جو عوامی اہمیت کا ہو ہمارے سیاسی افق پر کبھی نہیں جگمگا پاتا اسکی وجہ کیا آئیے اس پر بات کرتے ہیں

میرا پہلے دن سے موقف یہ ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ عوامی نہیں ہے، اور اگر کوئی لوگ عوامی تھے بھی نہ تو وہ کبھی آگے آ سکے اور جو آگے آئے وہ کسی طاقتور کے ایجنٹ تھے، پاکستان کبھی ایک جمہوریہ نہیں تھا ویسے تو 1949 میں ہی یہاں عسکری قبضہ ہو چکا تھا یا شاید اس سے بھی پہلے۔۔جس کا سب سے بڑا ثبوت پاکستان کی پہلے آٹھ وزراء اعظم کی آمد اور رخصتی ہے کہ پہلے دس سے گیارہ سالوں میں آٹھ (بے بس) وزراء اعظم تبدیل ہوئے کہ جن میں لیاقت علی خان نے چار سال گزارے اور باقی سات نے چھ سے سات، جبکہ دوسری طرف ایوب خان اکیلے گیارہ سال اس ملک کے مطلق العنان حکمران رہے کہ جن کا مقابلہ فاطمہ جناح بھی نہیں کر سکیں اور جو بوجھ الیکشن کا ان پر آیا وہ انکے دوپٹے کو لینا پڑا۔۔ آج جبکہ ایوب خان کے اقتدار کو ختم ہوئے پچاس سال سے اوپر ہو گئے ہیں میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ایوب خان برٹش ایجنڈے کے کسٹوڈین تھے وہ ماؤنٹ بیٹن بھی تھے اور ولیم فریزر بھی، اور جی ہاں ہمارے لیے وہی جنرل ڈائر بھی تھے، اگر میں کہوں کہ ایوب خان اس ملک کی پہلی فالٹ لائن تھی تو یہ غلط نہیں ہوگا۔۔ پیپلز پارٹی کے دوستوں کے لیے عرض ہے کہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو جو ہمارے ملک میں انقلاب کی علامت ہیں اسی ایوب کو کہ جو جنرل گریسی کا سکسیسر تھا کبھی جمال عبد الناصر سے تشبیہہ دیتے رہے تو کبھی کمال اتاترک سے، میں نے اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ایک آرٹیکل میں کبھی لکھا تھا کہ جب پیپلز پارٹی مارشل لاء کو گالی دیتی ہے تو اس سے مراد ضیاء الحق کا مارشل لاء ہوتا ہے نہ کہ ایوب خان کا، اسی طرح جب مسلم لیگ ن مارشل لاء پر دشنام رکھتی ہے تو اس سے مراد پرویز مشرف کا مارشل لاء ہوتا ہے نہ کہ ضیاء الحق کا۔۔
میں سوچتا ہوں کہ کاش محمد علی جناح اور انکی عظیم ہمشیرہ فاطمہ جناح کا بھی کوئی نام لیوا ہوتا تو آج کوئی تو ہوتا کہ جو ایوب خان کے مارشل لاء کو بھی برا بھلا کہہ سکتا؟؟
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ملک میں آج جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں ان میں سے کوئی بھی جناح اور انکے خاندان کو اون نہیں کرتی۔۔

آنا کے خول میں قید ہمارے سیاسی قائدین دراصل بونے ہیں جن کو اپنا قد اونچا دکھانے کے لیے دوسرے کا قد گھٹانا پڑتا ہے اور اسکے لیے وہ عوام کو استعمال کرتے ہیں ۔۔کیوں مجھے اور آپ کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ اگر کوئی سیاسی قائد یہ کہہ رہا ہے کہ باہر نکلیں احتجاج کریں، رکاوٹیں ہٹا دیں، قانون نافذ کرنیوالے ادارے اگر آپ کے راستے میں آئیں تو ان پر حملہ کر دیں تو ہم اس سے پوچھیں کہ آپکے بچے کہاں ہیں؟؟ آپکے پارٹی لیڈران کنٹینر کے اندر یا زیادہ سے زیادہ اوپر کیا کر رہے ہیں؟؟ وہ یہ رکاوٹیں ہٹانے میں ہماری مدد کیوں نہیں کر رہے؟؟تھپڑ، جوتے، ڈنڈے، جیلیں، پرچے، گالیاں، دشنام، کوڑے، آنسو گیس، شیلنگ ہمارے لیے اور عزتیں، وزارتیں، محلات، سیکورٹی، دورے، علاج اور پروٹوکول آپکے لیے یہ تقسیم کون سی جمہوریت کا تقاضا ہیں؟؟

ہمارے ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں مشترک کیا ہے اور غیرِ مشترک کیا تو سنیے میرے اور میرے سیاسی مخالف کہ جو میرے سامنے والے گھر میں رہتا ہے میں مشترک ہے وہ گلی کہ جس سے ہم دونوں گزرتے ہیں جو پہلے دن سے خستہ حال ہے، جب اسکی پارٹی کی حکومت آئی تو انہوں نے بھی وہ گلی نہیں بنائی تھی اور جب میری پارٹی کی حکومت آئی تو انہوں نے بھی وہ گلی نہیں بنائی، مشترکہ ہے وہ جدوجہد جو میں اور وہ نوکری کے لیے کر رہے ہیں لیکن ہم دونوں کی پارٹیوں نے حکومت ملنے کے باوجود ہمیں نوکری نہیں دی، مشترکہ ہے وہ وبائی بیماری کہ جو ہم دونوں کے بچوں کو لاحق ہے لیکن ہم دونوں کی پارٹیوں نے اس کا علاج نہیں کیا, مشترکہ ہے وہ گند جو ہمارے محلے میں تب سے پڑا ہے جب سے ہم دونوں پیدا ہوئے ہماری پارٹیوں نے کئی کئی باریاں لیں لیکن وہ گند بڑھتا ہی گیا، مشترکہ ہے وہ قبرستان کہ جہاں اسکا اور میرا باپ دفن ہے، مشترکہ ہے وہ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کہ جس کے خاتمے کے لیے ہم اپنی اپنی پارٹی کے ساتھ پُر عزم ہیں، مشترکہ ہے وہ ہسپتال کہ جہاں ہم دونوں ذلت تو پاتے ہیں لیکن شفا نہیں، مشترکہ ہیں وہ سڑکیں کہ جہاں ہم ایک دوسرے کے خلاف ٹائر جلاتے ہیں، مشترکہ ہیں وہ بہنیں کہ جن کی شادیاں میں نے اس سے اور اس نے میرے سے قرض لے کر کی تھیں، مشترکہ ہیں وہ جنازے کہ جو میں نے اور اس نے مل کر اٹھائے اور دفنائے تھے، مشترکہ ہے وہ مٹی کہ جس میں ہمارے اجداد نے ایک ساتھ مل کر ہل چلائے تھے، مشترکہ ہیں وہ فصلیں کہ جو ہم ہر سال ایک ہی ٹرالی پر ڈال کر منڈی بیچ آتے ہیں، مشترکہ ہیں وہ جانور کہ جن کا دودھ میرے اور اسکے بچے ایک ساتھ بیٹھ کر پیتے ہیں، مشترکہ ہیں وہ آرزوئیں وہ خواب کہ جو ہمارے لیڈروں نے ہمیں دکھائے پر کبھی انکو پورا کرنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا، مشترکہ ہیں وہ گیت جو اب گانے کی اجازت نہیں، مشترکہ ہے وہ رقص جو جلیانوالہ باغ میں آخری بار ہوا تھا، مشترکہ ہے وہ احتجاج جو کالونی ٹیکسٹائل ملز کے مزدوروں کا حق تھا اور انکو نہیں دیا گیا، مشترکہ ہیں وہ گولیاں جو ایک لاکھ پاکستانیوں کو گزشتہ بیس سالوں میں ماری گئیں، مشترکہ ہیں وہ عوامی پالیسیاں جو بنائی تو گئیں لیکن ہم دونوں کی پارٹیوں سے نافذ نہ ہو سکیں، مشترکہ ہے وہ سویلین بالا دستی کا خواب جو ہر روز کسی کینٹ کی چوکی پر کھڑا شرمندہ تو ہوتا ہے تعبیر نہیں پاتا، مشترکہ ہیں کچھ گرد آلود صبحیں جو ہمیں وہی محنت کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں جو ہمارے بزرگ کیا کرتے تھے، اور کچھ مشترکہ ملگجی شامیں جن میں ہم آنے والے اچھے دنوں کے خواب دیکھ کر سو جاتے ہیں، مشترکہ ہیں وہ تھرڈ کلاس C گریڈ قید خانے کہ جن میں ہم اس کے لیے قید ہوئے تھے کہ جو ملک سے باہر اس لیے بیٹھا تھا کہ اگر وہ ملک واپس آ گیا تو کہیں دھر نہ لیا جائے، مشترکہ ہیں وہ نوحے کہ جو ہم ایک دوسرے کے سامنے نہیں پڑھتے، مشترکہ ہیں وہ آنسو جو ہم اکیلے میں بہا آتے ہیں، مشترکہ ہیں وہ سرخ آنکھیں کہ جن کی سرخی ہم نے نیند کی کمی سے جوڑ دیا ہے، مشترکہ ہیں وہ زدر چہرے کہ جن کا رنگ نا امیدی نے اڑا دیا ہے، مشترکہ ہیں وہ خوشیاں جو ہم سب سے گم ہو گئیں ہیں۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور اگر کچھ مشترک نہیں ہے تو وہ نعرے ہیں جو ہمارے لیڈروں نے کچھ بدزبان لوگوں سے پیسے اور پلاٹ دے کر لکھوائے ہیں، جن کو وہ پارٹی منشور کہتے ہیں، جن کی بنیاد پر پاکستان میں ہر رات کو پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر ایک مچھلی منڈی لگتی ہے جہاں سیاسی قائدین کو آپس میں لڑا کر کچھ بد بخت سیٹھ پیسے کماتے ہیں، ہر شام ہمارے لیڈر وہی نعرے لگاتے ہیں جو تقسیم کی لکیروں کو تازہ کرتے ہیں اور یہ ایک غیرِ مشترک چیز ہمیں ہمارے تمام مشترکات کو دیکھنے اور سمجھنے سے روکے ہوئے ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply