• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عالَمِ بَرْزَخ سے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا خط ۔۔سلمان نسیم شاد

عالَمِ بَرْزَخ سے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا خط ۔۔سلمان نسیم شاد

“السلام علیکم”

قارئین آج عالم برزخ میں یہاں میرا پانچواں دن ہے۔ میرے ساتھ کیا ہوا، کیسے ہوا۔ اجل نے مجھے کس طرح اپنی آغوش میں لیا۔ طبعی موت مرا یا میرا قتل ہوا۔ میں اچھا تھا یا بہت برا۔ میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ کیونکہ جو ہونا تو وہ تو ہو چکا میں آپ لوگوں کی نفرت سے بھری دنیا کو چھوڑ کر میں یہاں آ بسا ہوں۔

میرے محترم ناقدین میں اس بات سے اچھی طرح واقف ہوں کہ آپ لوگ مجھ سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ آپ نے میرے کردار میری گفتار میری کامیابیوں و ناکامیوں پر ہمیشہ انگلیاں اٹھائیں۔ میرے خلاف تیز و تند جملے کسے۔ میں نے اپنی زندگی میں اگر کچھ اچھے عمل کرنے کی بھی کوشش کی، تب بھی میرے خلاف دشنام طرازی جیسا رویہ اپنایا گیا۔ اس کو دکھاوا کہا گیا۔ میری ذات پر انگلیاں اٹھائی گئیں۔ مگر میں نے ہمیشہ خوشیاں بکھیرنے کی کوشش کی۔ کتنے ہی بچھڑے ہوئے بچوں کو ان کے ماں باپ سے ملوایا۔ موذی امراض میں مبتلا لاچار و بے بس مریضوں کے آپریشن کروائے۔ اولڈ ہاؤسز میں آپ لوگ جہاں اپنے بوڑھے والدین کو مرنے کے لیے چھوڑ گئے ان کو آپ سے دوبارہ ملوایا۔

آپ دولت و شہرت کی بلندیوں پر جس عامر لیاقت کو پرواز کرتا دیکھتے تھے، وہ مقام مجھے پلیٹ میں سجا کر پیش نہیں کیا گیا۔ اس کے لیے میں نے دن رات محنت کی ہے۔ میری زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب میرے پاس اپنی جان سے پیاری ننھی بیٹی “دعا” کو دینے کے لیے پچاس روپے تک نہیں تھے۔ اس وقت میری بے بسی و لا چاری میں ہی جان سکتا تھا۔ میری اولین خواہش تھی کہ میں اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دے سکوں۔ ان ہی کے بہتر مستقبل کے لیے میں نے دن رات پسینہ بہایا، محنت مشقت کی تاکہ میرے بچے معاشرے میں اعلیٰ مقام پاسکیں۔

محترم ناقدین۔ آپ کو اچھی طرح سے یاد ہوگا کہ وطن عزیز میں ایک ایسا بھی وقت آیا، جب مسلکی بنیادوں پر ایک دوسرے پر شدید قسم کی فتوے بازیوں کا دور تھا۔ جہاں ایک دوسرے کو کافر اور بدعتی کی اسناد سے نوازا جاتا تھا۔ میں نے ان مخدوش حالات میں جہاں دلوں میں نفرتیں پنپ رہی تھیں اتحاد بین المسلمین کے نام پر تمام مکاتب فکر کے علما اکرام کو عالم آن لائن میں ایک ساتھ بٹھایا۔ سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا اور اس طرح علما اکرام کے ایک نشست پر بیٹھنے سے تمام مسالک کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا۔

رمضان المبارک میں آپ کے لیے افطار سے سحر تک اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی براہ راست نشریات کیں۔ جو ایک عالمی ریکارڈ بھی ہے۔ پھر انعام گھر میں گر کسی کو میں نے آم کھلایا یا کبھی آپ کو ہنسانے کے لیے میں “ناگن” بنا تب بھی مجھ پر آپ کی طرف سے گولہ باری کی جاتی۔ میرا تمسخر اڑایا جاتا۔

محترم ناقدین! آج میں سوچتا ہوں جس انسان نے لوگوں میں ہمیشہ محبتیں تقسیم کیں۔ جس کی ہمیشہ کوشش رہی کہ میں دکھی دلوں کو ہنسا سکوں، ان کے لبوں پر مسکان بھروں۔ بچھڑے ہوؤں کو جوڑ سکوں۔ میری ان سب کاوشوں کے باوجود مجھے کیوں نفرت کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔؟جب میں متحدہ قومی موومنٹ میں تھا۔ اس وقت ایک میں ہی تھا جو ان کی ترجمانی کررہا تھا۔ کہاں تھی اس وقت کی رابطہ کمیٹی اور سینئر ترین مفاد پرست ارکان جو قائد سے وفاداری کی قسمیں کھاتے تھے۔ وہ سب 22 اگست سے پہلے ہی اپنے قائد سے فاصلے بڑھا چکے تھے۔

ان حالات میں صرف میں ہی چٹان کی طرح مضبوطی سے مختلف ٹاک شوز میں بیٹھا ان کا دفاع کررہا تھا۔ آپ شاید اس بات سے بھی لاعلم ہوں ان کی اس متنازع تقریر کے بعد بھی میں وہ واحد فرد تھا جو اس پر بھی ان کے دفاع میں کھڑا تھا۔ اس ہی کی پاداش میں مجھے گرفتار کیا گیا اور پھر کیا ہوا کیسے ہوا عقل و شعور اور فہم و فراست رکھنے والے صاحب علم میری مجبوریوں کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جب میں ایم کیو ایم میں تھا، پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم میری مری ہوئی “ماں” کو گندی اور بازاری گالیاں دیتی رہی۔ جس کو سن کر میرا دل تڑپ جاتا، میری آنکھیں نمناک ہو جاتیں۔

ان سب کے بعد آپ نے جس عامر لیاقت حسین کو دیکھا وہ یکسر تبدیل ہوچکا تھا۔ اس کی گفتار اس کا انداز تکلم اس کا لب و لہجہ سب ہی تو تبدیل ہوگیا۔ مجھے جیو کو خیر باد کہنا پڑا اور پھر میں نے “بول” جوائن کیا۔ وہاں مجھے ایسا پروگرام “ایسے نہیں چلے گا” دیا گیا۔ جو قطعی میرے مزاج کے مطابق نہیں تھا۔ مگر مجھے وہ کرنا تھا۔ وہیں سے میرا زوال شروع ہوا۔ ایسا میں نے کیوں کیا کس لیے کیا؟ جانے دیں۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ یہ سب وہ عوامل تھے جو مجھے دن بدن ڈپریشن کا شکار کررہے تھے۔ اسی ڈیپرشن نے میری ازدواجی زندگی کو بھی متاثر کیا۔ میرا کرئیر تباہ ہوتا گیا۔ میرے اپنے مجھ سے بچھڑتے گئے۔ میں تنہائی کا شکار ہونا شروع ہوگیا۔

پھر طوبیٰ میری زندگی میں آئیں۔ ان سے میں نے باقاعدہ نکاح کیا۔ ان کو اپنی شریک حیات بنایا۔ اس پر بھی آپ لوگوں نے میرے خلاف ہتک آمیز رویہ روا رکھا۔ مجھے بدچلن اور ٹھرکی کے القابات سے نوازا گیا۔ کیا آپ لوگوں نے کبھی یہ سوچا کہ اگر میں ایک بد کردار ٹھرکی انسان ہوتا تو اپنی ٹھرک پوری کرنے کے لیے میرے پاس اتنے وسائل تھے کہ میں اپنی ٹھرک ناجائز عمل سے بھی پوری کرسکتا تھا۔ مگر میں نے شرعی طور پر ایک خاتون سے نکاح کیا۔ ان کو عزت شہرت مقام اور سہارا دیا۔ مگر آپ لوگوں کی ہائے اور سوشل میڈیا پر میرے خلاف چلنے والی مہم سے میرا وہ گھر بھی تباہ ہوگیا۔ طوبیٰ مجھے چھوڑ گئیں۔ جس کے بعد میری زندگی پھر ایک دفعہ تنہائی کا شکار ہوگئی۔

دانیہ لودھراں کے گاؤں کی ایک انتہائی غریب گھرانے کی لڑکی تھی۔ جس کو میں نے غلاظت کی  اس دلدل سے نکال کر ایک عزت دار زندگی دینے کی کوشش کی۔ اس کم عمر لڑکی کو نبی ﷺ کی سنت کے عین مطابق اپنے نکاح میں لیا۔ اس کو اپنی تنہائی کا ساتھی تصور کیا۔ اپنے دکھ اپنے درد، تکالیف دانیہ کے ساتھ بانٹیں۔ اپنے ہاتھ سے اس کو کھانا بنا بنا کر کھلایا۔ ایک نئی خوشگوار زندگی کا خواب دیکھا کہ شاید اس طرح میں قید تنہائی سے نکل سکوں جو مجھے دیمک کی طرح کھائے جارہی تھی۔

میں نے دانیہ کا ہر طرح سے خیال رکھا اس کے خاندان کی کفالت کی۔ ان کا ہر دکھ سکھ میں ساتھ دیا۔ مگر میری ان سب اچھائیوں کے باوجود دانیہ نے حدود اللہ میں داخل ہوکر میرے ساتھ وہ عمل کر ڈالا جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے اللہ کی جانب سے ڈھکا ہر پردہ پھاڑ ڈالا۔ میاں بیوی کی تنہائی میں بھروسے اور یقین کی للہی قوت کو للکار دیا، اس نے میرا لباس پھاڑ ڈالا۔ مجھے قوم کے سامنے برہنہ کردیا۔ اور پھر جس طرح آپ لوگوں نے میری برہنہ بے لباس ویڈیو پر مجھے تضحیک کا نشانہ بنایا۔ بیہودہ کمنٹس کیے۔ میری ویڈیو کو واٹس ایپ گروپس اور مختلف پیجز پر شیئر کیا گیا۔ نام نہاد یو ٹیوبرز سے میری کردار کشی کروائی گئی۔ آپ کے اس عمل نے مجھے میرے بچوں کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔

میری جو ویڈیو وائرل کرکے میرا تماشا بنایا گیا، میری تذلیل کی گئی، مجھے بدکردار اور بدچلن ثابت کیا گیا۔ پر میرا آپ سب معززین وطن سے صرف ایک سوال ہے۔ کیا اس ویڈیو میں میں کسی زانی کا کردار ادا کررہا تھا۔ یا میں کسی نامحرم دوشیزہ کے ساتھ کسی ہوٹل کے کمرے میں تھا، جس پر میری کردار کشی کی گئی۔ میں تو اپنی بیوی کے ساتھ اپنے کمرے میں تھا۔ جو میرا اور میں اس کا لباس تھا۔ جو میری اور میں اس کی عزت کا ضامن تھا۔ آپ نے اس عورت کو مقبول کر کے، اس کے بیہودہ الزامات کی تشہیر کرکے میری عزت تار تار کر ڈالی۔ پھر سب سے بڑا المیہ یہ کہ اس ملک میں ایف آئی اے سائبر کرائم کے ادارے کسی محکمے نے اس گھناؤنے عمل پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔ کسی عدالت کے کسی معزز جج صاحبان نے سوموٹو ایکشن نہیں لیا۔ کسی قسم کی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی آخر کیوں؟

جو یوٹیوبرز نام نہاد صحافی میرے ملک کے اداروں کیخلاف نفرت انگیز مہم چلائیں۔ میرے سپہ سالار کو میر جعفر و میر صادق کہہ کر ان پر غداری کے فتوے لگائیں، میرے ملک کی معزز عدلیہ ان کو قبل از وقت گرفتاری ضمانتیں دیتی پھریں۔ کوئی دوسرا سیاست دان بغیر نکاح کے اولادیں پیدا کرے، جس کے لاتعداد جنسی اسکنڈل ہوں۔ آپ جسے صادق و امین قرار دیتے ہیں۔ ان کے ناجائز فعل کو ان کی ذاتی زندگی قرار دے کر انھیں بری الذمہ قرار دے کر مسند اعلیٰ پر بٹھا دیتے ہیں۔ اور جو انسان نکاح جیسے پاکیزہ رشتے میں بندھ کر، شرعی طریقہ اپناتے ہوئے کسی کو عزت بھری زندگی دے۔ اس کو اپنی زندگی میں شامل کرے۔ آپ کی نظر میں وہ بدکردار و بدچلن ہے۔ اس کی عزت بیچ بازار نیلام کردی جائے۔ آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ اپنے بچوں، عزیز و اقارب دوستوں کو منہ دکھانے قابل نہ رہے۔ آپ اس گھناؤنے فعل پر بھی اس کا استہزا کریں اس کی میمز بنائیں۔ اس کو معاشرے میں اور ننگا کریں۔

میرے محترم ناقدین آپ سے بارہا گزارش کی کہ میں شدید ڈپریشن کا شکار ہوں۔ شدید اذیت اور کرب مبتلا ہوں۔ خدارا مجھے معاف کردیں۔ مجھ سے غلطی ہوگئی جو میں نے عمران خان پر تنقید کی۔ مگر میری اس بات پر بھی مجھے اور میری ماں کو گالیاں دی گئیں۔ ان کو “کنجری” کہا گیا میرا تمسخر اڑایا گیا۔ آپ کے اس طرز عمل سے ایک ہنسنے بولنے والا زندہ دل عامر لیاقت حسین قید تنہائی کا شکار ہوگیا۔ میں رات رات بھر روتا رہتا۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فریاد کرتا یا اللہ میں لاکھ گناہ گار، خطاکار ہوں۔ مگر تیرے محبوب ﷺ  کا عاشق رسول ہوں۔ ان کے طفیل میری خطاؤں کو درگذر فرماتے ہوئے مجھے اس آزمائش سے نکال میں اس آزمائش کے قابل نہیں ہوں۔

میں رات بھر اپنے پروردگار سے یہ ہی فریاد کرتا رہتا۔ دعا اور احمد کو شدت سے یاد کرتا کہ کاش جانے سے پہلے ایک بار اپنی گڑیا “دعا” اور احمد کو گلے سے لگا کر ان سے اپنی خطاؤں پر معافی مانگ سکوں۔ ان کے گلے لگ کر خوب رو لوں۔ دنیا کی بے رخی اور ان کی نفرت سے میرے اندر جینے کی تمنا بالکل ختم ہوچکی تھی۔ بس ایک آخری خواہش تھی کہ ملک چھوڑنے سے پہلے میں اپنی آنکھوں سے اپنے بچوں کو آخری بار دیکھ سکوں۔ مگر یہ ہو نہ سکا، اور جس عامر لیاقت کی پوری زندگی دنیا کے سامنے ایک کھلی کتاب تھی۔ کیسے اس کی موت ایک معمہ بنا دی گئی۔ اور میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس ظالم دنیا کو چھوڑ کر چل دیا۔ میرے سینے میں کئی راز تھے جو میرے ساتھ ہی دفن ہو گئے۔

آج میڈیا چینلز پر بیٹھے میرے کئی عزیز دوست میرے ساتھی میری موت اور ساری قوم کے سامنے مجھے برہنہ کرنے اور مجھ پر بے بنیاد تہمتیں لگانے پر صفِ  ماتم کرتے نظر آرہے ہیں۔ میری دینی اور علمی خدمات پر خراج تحسین پیش کرکے میری اجلی تصویر دنیا کو دکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ مگر یہ سب اس وقت خاموش تھے جب مجھے ان کی ضرورت تھی۔ اس وقت ان میں سے کسی نے میرا ہاتھ نہیں تھاما۔اگر یہ اس وقت میرا ہاتھ تھام لیتے تو شاید عامر اس اذیت ناک کیفیت سے باہر آجاتا۔

یہاں عالم برزخ میں پہنچتے ہی میں نے دور سے دیکھا سفید پوشاک میں ملبوس ایک خاتون اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے مجھے پکار رہی ہیں۔ میرے قریب آؤ “عامر”۔ میں حیرانی اور پریشانی کے عالم میں کبھی دائیں دیکھتا کبھی بائیں اور کبھی اس گونجتی ہوئی آواز کی طرف دیکھتا تو غور سے سننے کے بعد مجھے آواز مانوس سی لگی۔ میں دوڑتا ہوا ان خاتون کے قریب پہنچا تو دیکھا وہ کوئی اور نہیں محترمہ محمودہ سلطانہ میری “امی جان” تھیں۔ میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسوؤں کا سیلاب سا بہنے لگا۔ میں لپک کر ان کے گلے لگ گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ وہ مجھے اپنے سینے سے لگا کر دلاسہ دیتی رہیں۔ بس کرو بیٹا چپ کرو مگر میں بدستور امی سے لپٹ کر روتا رہا اور کہتا رہا امی میں اس دنیا کی بہت ساری نفرتیں سمیٹ کر یہاں پہنچا ہوں۔

جن سے میں نے محبت کی۔ جس پر بھروسہ کیا اس نے میرا مان توڑا ماں۔ آپ کا “عامر” آپ کا چھوٹو بہت تھک چکا ہے۔ میں بہت برا ہوں ماں بہت برا۔ میں بچوں کی طرح بلک بلک کر روئے جارہا تھا۔ مجھ کو نیند آرہی ہے ماں مدت ہوگئی آپ کا عامر سکون سے سو نہیں سکا ماں۔ مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ کر سلا دو ماں۔ مجھے سکون کی تلاش ہے جو تیرے آغوش میں ہی میسر ہے ماں۔ مجھے سلا دو مجھے سونا ہے۔ ابھی میری فریاد جاری تھی کہ امی نے مجھے اپنے زانوں پر لٹایا اور بڑی چاہ سے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولیں “عامر” میرے بیٹے۔ جانتی ہوں تم دکھی اور شکستہ دل کے ساتھ یہاں تک پہنچے ہو۔

بیٹا بس تم اپنے آنسو صاف کرلو اور میری بات سنو۔ میرے “چھوٹو”۔ بے شک دنیا نے تمھارا تمسخر اڑایا، تمھیں قابل نفرت سمجھا مگر میرے “چھوٹو” بھلے ساری دنیا تمھارے خلاف ہو تم سے نفرت کرے، تمھیں دھتکارے۔ مگر یاد رکھو بیٹا جس انسان کی “ماں” اپنی اولاد سے راضی ہو۔ اس سے خوش ہو، اس کے لیے دعائیں کرتی ہو، تو سارے جہاں کی نفرتیں “ماں” کے اس راضی نامے کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ یہ تمھاری خوش قسمتی ہے بیٹا کہ میں تمھاری “ماں” تم سے راضی ہوں۔ بس اب سوجاؤ بیٹے تمھیں سکون کی اشد ضرورت ہے۔ اور میں بعد مدت امی کی گود میں سر رکھ کر سکون کی نیند سویا۔

میرے محترم ناقدین۔ آپ کی نفرتوں عداوتوں اور لگائی گئی تہمتوں اور سازشوں کا شکار ہوکر میں اس دنیا سے جاچکا ہوں۔ میں ایک ایسی جگہ جاکر بس چکا ہوں جہاں سے اب کبھی واپس نہیں آؤں گا۔ آخر میں آپ تمام احباب سے گزارش ہے کہ آپ نے میرے ساتھ جو کیا سو کیا۔ مگر التجا ہے ایسا کسی دوسرے انسان کے ساتھ نہیں کیجئے گا۔

وہ عامر جس کو آپ نے ہمیشہ قابل نفرت سمجھا۔ جس کا ہمیشہ تمسخر اڑایا۔ ایک عاشق رسول و عاشق اہل بیت کو شیطان اور بدکردار کہا۔ آپ لوگوں کی نفرتوں کو اپنے دل میں سمیٹے میں تو مر گیا۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آپ کی نفرت بھری دنیا کو چھوڑ کر آج اس مقام برزخ پہنچ چکا ہوں۔ اپنی موت کہ بعد ان لوگوں کی بے رخی دیکھ کر بھی میرا دل ملول ہوا۔ وہ میڈیا چینلز جنھوں نے ہمیشہ “عامر” کو اپنی کامیابی کی سیڑھی سمجھا۔ وہ عامر جس نے اپنی محنت اور لگن سے ان کو ٹاپ رینکنگ میں پہنچایا۔ ان کو پیسہ کماکر دیا۔
جو ایک وقت میں عامر کے آگے آگے پیچھے دوڑتے تھے۔ ان میڈیا چینلز مالکان اور میڈیا سے جڑے دوستوں نے اس “عامر” کی نماز جنازہ پڑھنے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی۔ یہ سب دیکھ کر بہت دکھی دل کے ساتھ عامر اس اس دنیا سے رخصت ہوا۔

میں اس بات سے بھی بخوبی آگاہ   ہوں کہ   آپ کی اس نفرت بھری دنیا میں مجھ سے محبت کرنے والے بھی ایک کثیر تعداد میں موجود ہیں جن کی آنکھیں  میری یاد میں  اب  تک مسلسل نمناک اور دل فسردہ  ہیں۔ ان تمام چاہنے والوں کی محبتوں اور خلوص کو میں کبھی فراموش نہیں کر پاؤں گا ۔اپ سے بس اتنی التجا ہے کہ صبر کیجئے۔ جسم کہ مٹ جانے سے کبھی موت نہیں ہوا کرتی۔ جسم مٹ جاتا ہے مگر  جانے والے کے نظریات اس کے افکار ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

آخر میں میری محکمہ اوقاف درگاہ عبدااللہ شاہ غازی کی انتظامیہ اور اپنے ورثہ سے ایک ادنیٰ سی گزارش ہے کہ  یاد  رکھیں کبھی محبتوں پر تالے نہیں لگائے جاتے۔ محبت کو زنجیروں میں جکڑا نہیں جاتا۔ لہذا آپ سب سے گزارش ہے کہ میری فاتحہ خوانی کے لئے آنے والے زائرین کے لئے ہفتے میں کوئی ایک ایسا دن مقرر کردیں کہ وہ میری قبر پر عزت و احترام کے ساتھ آکر فاتحہ خوانی کرسکیں۔

دعا اور احمد آپ لوگ ہوسکے تو بابا کو معاف کردیجیے گا۔ آپ کے بابا برے انسان نہیں تھے۔ وہ آپ سے بہت پیار کرتے تھے۔ ان کی کیا مجبوریاں تھیں وہ کیا عوامل تھے جس کی وجہ سے آپ کے بابا اس حال تک پہنچے یہ آپ کو بتاکر آپ کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ آپ لوگ ہی میری زندگی تھے آخر وقت تک آپ کے بابا کی نظریں آپ کی منتظر تھیں بیٹا۔ احمد میاں جاتے جاتے آپ نے ایک بہت بڑی خوشی اپنے بابا کو دی بیٹا کہ میری وصیت کے مطابق آپ نے میری نماز جنازہ پڑھائی۔ایک باپ کے لئے اس سے بڑی سعادت کی بات کیا ہوگی کہ اس کا جنازہ اس کا بیٹا پڑھائے۔ شکریہ بیٹا۔ دعا اور احمد اپنی ماں کا بہت زیادہ خیال رکھنا ہمیشہ ان کی عزت کرنا۔تمھارے بابا اس نفرت بھری دنیا سے بہت دور جا بسے ہیں۔ آئی لو یو دعائے عامر اور احمد میاں۔ خوش رہو۔ زندگی کے ہر امتحان میں کامیابی تم دونوں کے قدم چومے امین۔

اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا۔

اس اپنے پن کے ساتھ “عامر لیاقت حسین” کو دیجیے ہمیشہ کے لئے اجازت کہ اپنا بہت خیال رکھیے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ حافظ۔

Facebook Comments

سلمان نسیم شاد
فری لانس جرنلٹس، رائٹر , بلاگر ، کالمسٹ۔ بائیں بازو کی سوچ اور ترقی پسند خیالات رکھنے والی انقلابی شخصیت ہیں اور ایک علمی و ادبی و صحافتی گھرانے سے وابستگی رکھتے ہیں. پاکستان میں میڈیا اور آزادی صحافت کے لئے ان کے اجداد کی لازوال قربانیاں اور کاوشیں ہیں۔ چی گویرا، لینن، اور کارل مارکس سے متاثر ہیں، دائیں بازو کے سیاسی جماعتوں اور ان کی پالیسی کے شدید ناقد ہیں۔ جبکہ ملک میں سول سپریمیسی اور شخصی آزادی کا حصول ان کا خواب ہے۔ Twitter Account SalmanNasimShad@

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply