پرویز مشرف کی واپسی:چند سوالات۔۔آصف محمود

پرویز مشرف کی واپسی میں مسئلہ کیا ہے کہ معززپارلیمان میں اس پر بحثیں ہو رہی ہیں؟کیا پرویز مشرف کو ملک کی کسی عدالت نے جلاوطن کیا ہے ؟ تو کیا انہیں پارلیمان نے کسی خصوصی قانون سازی کے ذریعے ملک سے نکالا تھا اور اب ان کی واپسی پر اس قانون کی حرمت پامال ہونے کا ڈر ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان کے قانون نے انہیں یہ سزا سنائی ہو کہ جب تک زندہ ہیں ملک واپس نہیںآ سکتے؟ توکیا دستور پاکستان میں کہیں یہ لکھا ہے کہ جس شخص پر آئین شکنی کا مقدمہ چل رہا ہو وہ اپنے ملک میں نہیں رہ سکتا؟کیا آرٹیکل چھ میں لکھا ہے کہ خبر دار! ہائی ٹریزن ایکٹ کا ملزم اپنے ملک میں نہ رہنے پائے؟ کیا اس ملک کے قانون میں کہیں یہ گنجائش موجود ہے کہ سنگین سے سنگین جرم کے مرتکب شخص پر بھی اس کے اپنے ملک کے سب دروازے بند کر دیے جائیں؟ آئین کا ایک پورا باب بنیادی انسانی حقوق کا ہے۔ آئین کے مطابق اپنے ملک میں رہنا ہر شخص کا بنیادی انسانی حق ہے۔ تو کیا پرویز مشرف کے معاملے میں آئین کا یہ باب ساقط ہو چکا ہے؟کیا آئین کا یہ حصہ ’ معطل ‘ سمجھا جائے جو ہر شہری کو بغیر کسی استثناء اور شرط کے اپنے ملک میںرہنے کی اجازت دیتا ہے؟ سطحیت اور پاپولز م نے ہمارا ستیا ناس کر دیا ہے اور ہمارے سیاسی ا ور فکری اکابرین کی فکری جولانیاں دیکھ کر بعض اوقات خوف آتا ہے۔اب کسی بھی معاملے پر رائے دیتے وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ا س کی قانونی حیثیت کیا ہے بلکہ صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ عوام میں مقبولیت کس بات کو ہو گی۔پرویز مشرف کا معاملہ یہ کبھی تھا ہی نہیں کہ انہیں ملک بدر کیا گیا۔ معاملہ یہ تھا کہ ان کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ شروع ہوا تو وہ اس مقدمے سے بچنے کے لیے ملک چھوڑ گئے۔ان کے ملک چھوڑنے کا عمل غیر قانونی تھا ، واپس آنے کا نہیں کہ واپسی تو ان کا قانونی ا ور آئینی حق ہے۔ان کے ملک چھوڑنے کے غیر قانونی فعل پر تو وطن عزیز میں سکوت رہا اور ان کی واپسی کے قانونی عمل پر شور مچا دیا گیا ہے۔ یعنی وہی بات کہ ہم اونٹ نگل جاتے ہیں اور مچھر چھاننے بیٹھ جاتے ہیں۔پرویز مشرف کی وطن واپسی ان کا حق ہے۔آئین اس حق کو ناقابل تنسیخ حق کہتا ہے۔ ہاں وطن واپسی کے بعد ان پر قانون لاگو ہونا چاہیے۔ یہ دونوں الگ الگ معاملے ہیں۔ہمارے خلط مبحث نے یہ فرق سمجھنے سے انکار کر دیا ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ عمر کے اس حصے میں انہیں قانونی طور پر بھی جیل میں نہیں رکھا جا سکتا۔بے شک پلیٹ لیٹس پوری ہی ہوں۔پرویز مشرف سے مجھے کوئی ہمدردی نہیں۔ وہ میرے ناپسندیدہ لوگوں میں سے ایک ہیں۔انہوں نے میرے ملک کا آئین پامال کیا ۔بطور حکمران ان کا نامہ اعمال اماوس کی رات جیسا ہے۔لیکن بات وہ کہنی چاہیے جو ضمیر کی آواز ہو اور سچ ہو۔ لکھنے والے کو پاپولزم کا شکار ہوئے بغیر صرف سچ لکھنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص پرویز مشرف سے نفرت میں ، انتقام کے جذبات سے مغلوب ہو چکا ہے تو وہ ایک الگ معاملہ ہے لیکن بات انتقام ، انا اور ضد کی نہیں بلکہ قانون ، آئین اور انصاف کی ہے تو میں وہ سوال دہرا دیتا ہوں جو میں پہلے دن سے لکھ رہا ہوں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ مشرف نے آئین شکنی 12 اکتوبر 1999 کو تھی اور منتخب حکومت کو گھر بھیجا تھاتو ان پر مقدمہ نومبر 2007 کی ایمر جنسی کا کیوں قائم کیا گیا؟اصل جرم پر مقدمہ کیوں نہیں قائم کیا گیا؟اگر اس کا جواب یہ ہے کہ عدالتیں بارہ اکتوبر کی توثیق کر چکی تھیں اس لیے اس جرم میں مقدمہ نہیں کیا یا تو یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پرویز مشرف نے آئین شکنی کی اور عدالت نے اس آئین شکنی کو جواز فراہم کر دیا ۔ تین سال حکومت کا حق بھی دے دیا اور آئین میں حسب ضرورت ترمیم کا وہ حق بھی دے دیا جو خود عدلیہ کے پاس بھی نہیں تھا۔آرٹیکل چھ کا اطلاق تو پھر ان سب پر ہونا چاہیے تھا اس کا اطلاق صرف پرویز مشرف پر کیوں ہوا؟مشرف کی آئین شکنی کو جواز فراہم کرنے اور اسے آئین میں ترمیم کا حق دینے والے تو ریاستی وسائل پر بلٹ پروف گاڑیوں میں ریٹائر منٹ کی زندگی گزاریں اور تعزیر کا کوڑا صرف مشرف کے لیے ہو ، یہ بات کسی کی انا کی تسکین تو کر سکتی ہے اسے آئین کی عملداری نہیں کہا جا سکتا۔آئین کے آرٹیکل چھ کو جب آرٹیکل بارہ کی ذ یلی دفعہ دو کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہائی ٹریزن کا مقدمہ جب بھی شروع ہونا ہے اس نے 23 مارچ 1956 سے ہونا ہے۔سوال یہ ہے سب کو چھوڑ کر صرف ایک آدمی کا انتخاب کس قانون کے تحت کیا گیا؟ آئین کے آرٹیکل چھ میں صاف لکھا ہے کہ کوئی عدالت آئین شکنی کی توثیق نہیں کر سکتی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ آرٹیکل چھ وہ واحد آرٹیکل ہے جس کا Retrospective effect ہے اور اس میں آپ جب بھی کوئی ترمیم کریں اس ترمیم کا اطلاق 23 مارچ 1956 سے ہو گا۔ یعنی آئین کے مطابق وہ تمام جج حضرات بھی آئین شکنی کے مرتکب ہیں جنہوں نے 23 مارچ 1956سے اب تک کسی آمر کی آئین شکنی کو جواز فراہم کیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ آئین کے اس آرٹیکل پر کب عمل ہو گا؟آرٹیکل چھ کے مطابق ہر وہ شخص مجرم ہے جس نے آئین شکنی کی ہو یا کسی کو اس بات پر اکسایا ہو یا اس کی ترتیب دی ہو یا اس کی مدد کی ہو ۔ سوال یہ ہے کہ اگر پرویز مشرف پر مقدمہ بارہ اکتوبر کی آئین شکنی کی بجائے نومبر کی ایمر جنسی کا ہی بنایا تھا تو اکیلے پرویز مشرف پر کیوں بنایا تھا؟مشرف کی لگائی ایمر جنسی کے جو شخص وزیر قانون تھا ، اس پر بھی تو مقدمہ قائم کیا ہوتا۔ اسے تو مسلم لیگ ن بعد میں اپنا وزیر قانون بنا لیتی ہے ۔یہ کیسا انصاف ہے؟ یہ انصاف تھا یا انتقام تھا؟ یاد رہے کہ جہاں عدالت نے مشرف کو تین سال کے لیے جانائز طور پر حکمرانی کا حق دیا تھا وہیں آئین میں ترمیم کا حق بھی دیا تھااور اس معاملے میں کسی مدت کا تعین بھی نہیں کیا تھا کہ یہ حق کتنے سال کے لیے ہے۔پھر اگر مشرف نے یہی حق استعمال کر لیا تو ایمر جنسی جرم کیسے ہو گئی؟ آخری سوال یہ ہے کہ ایک معزز جج جو یہ فیصلہ سنا رہے تھے کہ پرویز مشرف اگرعدالتی فیصلے کے اطلاق سے پہلے مر جائیں تو ان کی لاش ڈی چوک میں لٹکائی جائے تو یہ فیصلہ وہ آئین اور قانون کی کس دفعہ کے تحت کر رہے تھے؟کیا ایک جج حلف نہیں اٹھاتا کہ وہ آئین ا ور قانون کے مطابق فیصلے کرے گا؟کیا فیصلے افتاد طبع کے تحت ہوتے ہیں یا آئین اور قانون کے تحت؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply