• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ویتنام کا سوشلزم اور سوشلسٹ موقع پرستی۔۔شاداب مرتضٰی

ویتنام کا سوشلزم اور سوشلسٹ موقع پرستی۔۔شاداب مرتضٰی

سوشلزم اور کیپٹلزم ایک دوسرے کی نفی ہیں۔مگر مڈل کلاس (درمیانے طبقے) کے سوشلسٹ مارکیٹ سوشلزم یعنی سرمایہ داروں اور مزدوروں کے درمیان باہمی امداد اور بھائی چارہ قائم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کیپٹلزم اور سوشلزم ایک دوسرے کے لیے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں اور دونوں مل جل کر ایک دوسرے کی ترقی میں کام اسکتے ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال ویتنام کے بارے میں مندرجہ زیل پوسٹ ہے۔ دیکھیے کہ اس میں کس خوبی کے ساتھ کیپٹلزم اور سوشلزم کے درمیان باہمی مدد کے زریعے ترقی کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور مارکسزم-لینن ازم کی روح کو کس خوبی کے ساتھ مسخ کیا گیا ہے:
پوسٹ میں لکھا گیا ہے: “یہ سوشلسٹ ویتنام ھے۔ شرح خواندگی پچانوے فیصد سے زیادہ ھے۔ پاکستان کا جتنا جی ڈی پی ھے، اس سے زیادہ ویتنام ایکسپورٹ کرتا ھے۔ فی کس جی ڈی پی کوئی اٹھائیس سو ڈالر ھے۔ کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں یہ ملک ھر گزرتے دن کے ساتھ آگے سے آگے بڑھتا جا رھا ھے۔۔ ایک مضبوط سوشلسٹ مارکیٹ اکانومی، آگے کی طرف دیکھنے والی۔۔۔ مارکسزم کو معروض سے ھم آہنگ کر کے یہ ثابت کرنے والی نظریاتی کمیونسٹ قیادت جس نے دکھایا کہ سوشلزم غربت اور پسماندگی کا نام نہی ھے۔ اور یہ کہ بورزوا سیاسی جمہوریت کے بجائے کمیونسٹ لیننسٹ سیاسی ماڈل ھی تیز ترین ترقی کا ایک متبادل ماڈل ھے۔۔یہ وہی ویتنام ھے جسکو امریکی اور یورپی سامراجیوں نے کھنڈر بنا ڈالا تھا۔جتنے بم دوسری جنگ عظیم میں استعمال ھوئے۔۔ اس سے زیادہ بم اس چھوٹے سے ملک پر امریکیوں نے استعمال کیے۔۔ یہ کمیونسٹ قیادت کی کامیابی ھے کہ سامراجیوں کی سرمایہ کاری سے یہ ملک کی پیداواری صلاحیتوں کو ترقی دے رھے ھیں۔۔۔دیکھئیے یہ سوشلسٹ ملک آج کیسا جیتا، جاگتا، ترقی کی معراج کو چھو رھا ھے۔۔”
سری لنکا سرمایہ دار ملک ہے مگر اس کی شرح خواندگی 93 فیصد ہے۔ جرمنی میں سب خواندہ ہوتے ہیں۔ خواندگی بزات خود سوشلزم کو جانچنے کا پیمانہ نہیں ہے۔ معیشت کو ترقی دینے کے لیے ابادی کو زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ بنانا سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت ہے اور تمام ترقی یافتہ سرمایہ دار ملک اس پر عمل کرتے ہیں۔
ایکسپورٹ کو لیں۔ ویتنام کی سب سے زیادہ ایکسپورٹ امریکی سامراج کو جاتی ہے اور اسی لیے امریکی سامراج ویتنام میں خوب سرمایہ کاری کرتا ہے اور اسے خوب امداد دیتا ہے۔ یہاں ہر سوشلسٹ کے لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سامراج ایک سوشلسٹ ملک کو ترقی کرنے میں مدد کیوں دے گا؟ امریکی سامراج کی یہ عنایت کیوبا اور شمالی کوریا پر کیوں نہیں ہے؟ مگر ظاہر ہے جو “سوشلسٹ” کیپٹلزم اور سوشلزم میں “مارکیٹ سوشلزم” کے زریعے بھائی چارہ قائم کر سکتے ہیں اور مارکسزم لینن ازم کو جو کہ کیپٹلزم اور سامراج کی ضد ہے اور انہیں ختم کرنے کا آدرش رکھتا ہے اسے کیپٹلزم اور سامراج کا اتحادی بنا سکتے ہیں وہ یقینا اس خام خیالی میں بھی آسانی سے مبتلا ہو سکتے ہیں کہ سامراج سوشلزم کو ترقی کرنے میں مدد دے سکتا ہے! اسی لیے پوسٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ ویتنام کی کمیونسٹ قیادت سامراجیوں کے سرمائے سے سوشلزم کو ترقی دے رہی ہے۔ اور ترقی کا یہ ماڈل “لیننسٹ” ماڈل ہے۔ یعنی لینن ازم جو کہ کیپٹلزم اور سامراجیت کا جانی دشمن ہے وہ کیپٹلزم کے زریعے اور سامراج کی مدد سے سوشلزم قائم کرنے کا درس دیتا ہے!!!
اس سارے قضیے کے ہیچھے جو بنیادی سوچ موجود ہے وہ یہ ہے کہ اگر سوشلزم کیپٹلزم اور سامراج کی مدد نہیں لے گا تو وہ صرف غربت اور پسماندگی پیدا کرے گا کیونکہ کیپٹلزم اور سامراج ہی معاشی و سماجی ترقی فراہم کر سکتے ہیں۔ اس لیے حقیقی معنی میں سوشلزم وہی ہے جو سماجی و معاشی ترقی کرنے کے لیے کیپٹلزم اور سامراج کی مدد لے! ایسا سوشلزم جو معاشی و سماجی ترقی کے لیے کیپٹلزم اور سامراج پر انحصار نہ کرے وہ حقیقی سوشلزم نہیں۔ وہ معاشرے کو غربت اور پسماندگی میں دھکیل دے گا۔
اسی طرح اس نقطہ نظر میں یہ سوچ بھی کارفرما ہے کہ کیپٹلزم اور سامراج استحصال سے پاک ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ اگر کسی ملک میں کیپٹلزم اور سامراج سوشلزم کی ترقی کے لیے مدد فراہم کریں تو وہاں کیپٹلزم اور سامراج کا کردار ظاہر ہے کہ استحصالی نہیں ہو گا۔ وہاں کیپٹلزم اور سامراج مزدور طبقے کا استحصال کرنے کے بجائے الٹا انہیں ترقی کرنے میں مدد دیں گے! اور ویتنام اس کی مثال ہے! وہاں کیپٹلزم اور سامراجی سرمایہ موجود ہے مگر وہ مزدوروں کا استحصال نہیں کرتا اور اسی لیے ویتنام کیپٹلزم اور سامراجی سرمایے کی مدد سے ترقی کر رہا ہے!
کیا یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ سوشلزم، کیپٹلزم اور سامراج کے “بھائی چارے” اور “امداد باہمی” پر مبنی اس نقطہ نظر نے مارکس ازم لینن ازم کو سر کے بل کھڑا کر دیا ہے اور کیپٹلزم، سامراج اور سوشلزم کے درمیان موجود ناقابل مصالحت تصاد کے بارے میں، سرمایہ دار اور مزدور ظبقے کے دائمی تضاد کے بارے میں، طبقاتی جدوجہد کے بارے میں، قدر زائد کے بارے میں، سرمایہ دارانہ طریقہ پیداوار اور استحصال کے بارے میں اور سوشلزم کی سیاسی معیشت کے بارے میں مارکسزم-لینن ازم کے سائنسی اصولوں کو مکمل طور پر فراموش کردیا ہے اور اس کے باوجود یہ مارکسی-لیننی ہونے کا دعویدار بھی ہے۔
مڈل کلاس طبقے کے ایسے ہی “سمجھوتے باز” رویے اور ان کے مارکیٹ سوشلزم کے بارے میں مارکس نے کہا تھا کہ یہ لوگ کیپٹلزم کے فکری ڈبے سے باہر نکلنے اور کیپٹلزم کے بغیر سماجی ترقی کے بارے میں سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔
اگر اس مڈل کلاس “سوشلسٹ” بیانیے سے سوشلزم، مارکسزم، لینن ازم وغیرہ کے الفاظ نکال دیے جائیں تو یہ بیانیہ اپنی اصل شکل میں یعنی کیپٹلزم اور امپریلزم سے مرعوب و متاثر اور ان کے بغیر سماجی و معاشی ترقی کرنے کی سوچ سے عاری ہو کر نمایاں ہو جائے گا۔ لینن نے کہا تھا کہ مارکسزم کی نظریاتی فتح نے اس کے دشمنوں کو مجبور کر دیا کہ وہ مارکسزم کا مقابلہ کرنے کے لیے مارکسزم کا نقاب اوڑھ لیں۔ اندر سے گل سڑ چکے لبرل ازم (کیپٹلزم) نے سوشلسٹ موقع پرستی کی شکل اختیار کی۔
مارکسی لیننی انقلابی سوشلزم کے یوں تو بہت سے دشمن ہیں لیکن جو دشمن سب سے زیادہ خطرناک ہے وہ سوشلسٹ موقع پرستی ہے جو سوشلسٹ لفاظی کے زریعے مارکسزم لینن ازم کی انقلابی روح کو مسخ کرتی ہے اور اس کی آڑ میں کیپٹلزم اور امپریلزم کی طرفداری کرتی ہے اور انہیں فروغ دیتی ہے۔ اگر ڈینگ زیاؤ پنگ جیسے سرمایہ دارانہ موقع پرست “سوشلسٹ” اس کے ہیرو ہیں اور اسٹالن جیسا عظیم انقلابی مارکسی لیننی سوشلسٹ اس کا ولن ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ یہ جدید موقع پرستی کا منطقی انجام ہے۔ اور اسی طرح اگر ویتنام کی کمیونسٹ پارٹی کے نزدیک بھی اسٹالن ایک ولن ہے اور سوویت یونین میں سوشلزم کی عہد افریں کامیابی اس کے نزدیک ایک “غلطی” ہے تو اس میں بھی حیرت کی کوئی بات نہیں۔

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply