مشکل فیصلے۔۔محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ

ملک ایک  بار پھر توانائی کے بدترین  بحران سے گزر رہا ہے۔ سونے پر سہاگہ کہ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ پٹرول 210 روپے فی لٹر ہو گیا ہے اور وزیر خزانہ فرما رہے ہیں کہ ابھی مزید مہنگا ہو گا اور یہ مشکل فیصلہ ہے لیکن کرنا پڑے گا لہذا عوام قربانی دے۔ سوال یہ ہے کہ عوام ہی کیوں ہمیشہ قربانی دے ؟ اور پٹرول مہنگا کرنا مشکل فیصلہ کیسے ہو گیا؟ پٹرول، بجلی، گیس اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھا دینا تو سب سے آسان فیصلہ ہے۔ مشکل فیصلے کیا ہیں، آئیے دیکھتے ہیں۔
سرکار کہتی ہے کہ عوام کو سستا پٹرول دینے کیلئے سبسڈی نہیں دے سکتے، ٹھیک ہے آپ عوام کو سبسڈی نہ دیں لیکن ان خواص کو جن میں سرکار خود شامل ہے، ارکان پارلیمان، وزراء، افسر شاہی، جج، جرنیل، سینکڑوں وفاقی و صوبائی محکموں کے ہزاروں افسران، بیسیوں یونیورسٹیوں کے ہزاروں ریکٹر، وائس چانسلر، ڈین، شعبہ جات کے سربراہان اور انتظامی افسر جو  لاکھوں روپے تنخواہ لیتے ہیں، انہیں مفت پٹرول کیوں دیا جاتا ہے؟ عوام کیلئے سبسڈی نہیں ہے لیکن خواص کیلئے آپ کے پاس سب کچھ ہے۔ یہ جتنے لوگوں کا اوپر ذکر گزرا ہے، یہ سب لاکھوں روپے تنخواہ لیتے ہیں، مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ اگر تو آفشل کام کیلئے وہ پٹرول استعمال کریں اور بعد میں کلیم کریں تو سمجھ میں آتا ہے لیکن دو سو، ڈھائی سو، تین سو لیٹر مفت پٹرول کی سہولت کلیم کرنے سے نہیں ملتی بلکہ جتنے کا پٹرول ہوتا ہے اتنے پیسے انہیں تنخواہ کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ جبکہ ایک عام ملازم کو ایسی کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔ یہ انصاف کا نہیں ظلم کا نظام ہے۔ اگر ان تمام لوگوں  کو مراعات چاہئیں تو ان کی تنخواہ آدھی کر دینی چاہیے۔ ورنہ جتنی وہ تنخواہیں اینٹھتے ہیں اس میں وہ سارے اخراجات اپنے خاندان کے باآسانی برداشت کر سکتے ہیں۔ یہ تو صرف پٹرول کی بات ہے، افسروں کو بجلی کے یونٹ، ٹیلیفون کے بل، گھریلو ملازمین کی تنخواہیں، حتی کہ اخبارات تک کا بل سرکار کی طرف سے ملتا ہے۔ یہ سب غیرضروری مراعات ہیں جن کو قانون بنا کر ختم کر دینا چاہیے اور پارلیمان نے کئی بار ایسے قوانین لانے کی کوشش بھی کی ہے جسے افسر شاہی نے ناکام بنایا ہے۔ یہ بات منطقی طور پر درست نہیں ہے اور پاکستان میں تو تجرباتی طور پر بھی غلط ثابت ہو چکی ہےکہ ان کو اس لیے مراعات دینی چاہئیں کہ یہ کرپشن نہ کریں۔ اتنی مراعات کے باوجود اشرافیہ اور افسر شاہی اس ملک میں سب سے زیادہ کرپٹ ہے۔اور ان میں سے شاید ہی کوئی “غریب ” ہو خاص طور پر ارکان پارلیمان۔ پارلیمان میں تو بیٹھتے ہی سرمایہ دار، جاگیردار اور وڈیرے ہیں۔ ان کی مراعات دیکھیں تو ہوش اڑ جاتے ہیں کہ قوم کے یہ خادم قوم کو کتنے بھاری پڑتے ہیں۔ اس لیے مشکل فیصلہ کیا ہے؟ مشکل فیصلہ یہ ہے کہ ارکان پارلیمان اور کابینہ کے وزراء کے پٹرول، ٹی اے ڈی اے، ائر ٹکٹس، بیرون ملک علاج کی سہولیات، یہ سب ختم کر دی جائیں۔ یہ سارے اخراجات یہ اپنی جیب سے ادا کریں تب بھی ان کی دولتوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔

مشکل فیصلہ یہ ہے کہ سرکاری افسران چاہے وہ جوڈیشل افسران ہوں، عدالت عالیہ و عظمی کے معزز جج ہوں، فوجی جرنیل و  افسران ہوں، افسر شاہی کے ارکان ہوں یا دیگر سرکاری و نیم سرکاری اداروں، محکموں اور جامعات کے افسران ہوں، ان سب کی تنخواہوں کے علاوہ تمام مراعات ختم کر دی جائیں اور اگر انہیں ان مراعات کے مزے لینے ہیں تو ان کی تنخواہوں کی کم از کم حد مقرر کر دی جائے جس میں کوئی اضافہ نہ ہو۔

مشکل فیصلہ یہ ہے کہ بڑی بڑی سرکاری عمارتیں، سرکاری زمینیں،اشرافیہ کے کلب اور جم خانے، ریلوے ،  پاکستان پوسٹ اور دیگر محکموں  کی اربوں مالیت کی زمینیں، فوجیوں کے گالف کلب اور دیگر سامان تعیش اس سب کو مارکیٹ ویلیو کے مطابق نیلام کر کے تمام پیسہ سرکاری خزانے میں جمع کروا دیا جائے۔ مشکل فیصلہ یہ ہے کہ اشرافیہ کے جن طبقات کا اوپر مسلسل ذکر ہو رہا ہے، ان کی بعد از ریٹائرمنٹ پنشن کے علاوہ تمام مراعات ختم اور ایک سے زائد پلاٹ اور گھر جو سرکار کی طرف سے دیے گئے ہیں، واپس لے کر ان کی نیلامی کر دی جائے۔

سرکار نے بجلی کے بحران سے نمٹنے  کیلئے فیصلہ کیا ہے کہ تمام مارکیٹیں اور دکانیں رات ساڑھے آٹھ بجے بند کر دی جائیں گی اور توقع کے عین مطابق کاروباری طبقہ اس کیلئے تیار نہیں ہے۔ایک ابھرتے ہوئے نوجوان دانشور، جو انتہائی ذہین بھی ہیں، کی تحریر نظر سے گزری کہ اس  فیصلےسے معیشت کو  جو نقصان ہو گا، اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ میں آج تک  یہ بات نہیں سمجھ سکا کہ مارکیٹیں جلدی بند کرنے سے معیشت کونقصان کیسے ہوتا ہے؟؟ کووڈ کے دوران یہ مفروضہ بھی غلط ثابت ہو چکا ہے کیونکہ جب مارکیٹیں 5 اور 6 بجے بند کروائی جا رہی تھیں تب اشیاء کی ریکارڈ سیل دیکھنے میں آئی۔ میں تو کووڈ سے پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور کووڈ کے بعد سے مسلسل لکھ رہا ہوں کہ ہماری مارکیٹیں مغرب کی اذان کے ساتھ بند ہو جانی چاہئیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے، یورپ میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور برطانیہ میں تعلیم کے دوران تو میں نے رہ کر دیکھا ہے کہ منہ اندھیرے وہاں کاروبار شروع ہو جاتا ہے، وہ  لوگ “کافر” ہیں، فجر بھی نہیں پڑھتے  لیکن ان کی زندگی سورج نکلنے سے پہلے شروع ہو جاتی ہے ، میں نے خود وہاں بوڑھے بوڑھے کپلز کو صبح سویرے سورج نکلنے سے بھی پہلے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے سودا سلف خریدتے دیکھا ہے۔  لندن شہر  کے علاوہ پورا ملک 5٫6 بجے بند ہو جاتا ہے۔ گرمیوں میں وہاں سورج رات ساڑھے نو بجے غروب ہوتا ہے ،شام 6 بجے وہاں سورج سر پہ ہوتا ہے لیکن کاروبار بازار بند ہو جاتے ہیں۔باقی دنیا میں بھی یہی ہوتا ہے، میں اسی مفہوم کی چند سطریں سوسشل میڈیا پر لکھ رہا تھا تو مجیب الرحمن شامی صاحب ٹی وی پر بتا رہے تھے کہ وہ امریکہ گئے تو آٹھ بجے کے بعد وہاں کھانا تک ملنا مشکل ہو گیا۔ ایک صاحب نے یہی بات ٹویٹ کی کہ آٹھ بجے پورا نیویارک شہر بند ہو جاتا ہے۔ ایک پروفیسر دوست نے بتایا کہ چین میں صبح چار پانچ بجے مالز کھل جاتے ہیں اور سہ پہر تین بجے بند ہو جاتے ہیں۔ پانچ بجے کے بعد کھلی ہوئی کوئی دکان ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے، واحد 24/7 سٹور کھلے ملتے ہیں۔ ساری دنیا میں دن کی روشنی میں کاروبار ہوتا ہے، ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔  اللہ نے دن کامیاب کیلئے اور رات آرام کیلئے بنائی ہے، ہم نے اس کو الٹ کر دیا ہے۔ پرہیزگاروں کے علاوہ اللہ کاچہیتاکوئی نہیں ہے اوراس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ کافر ہوکر الہی اور قدرتی قوانین پر عمل پیرا ہیں لہذا کم ازکم دنیا میں تو آسودہ ہیں، آخرت میں ان کے ساتھ کیامعاملہ ہو گا یہ اللہ جانتا ہے، لیکن ہماری جو عادتیں ہیں وہ ہمیں دنیا میں بھی رسوا کر رہی ہیں اور خدانخواستہ آخرت میں بھی رسوا کروائیں گی۔مشکل فیصلہ یہ ہے کہ  ہمیں اپنی بگڑی ہوئی عادتیں درست کرنا ہوں گی، کاروباری حضرات ساری رات کاروبار کرتے ہیں اور دوپہروں تک اوندھے منہ سوئے رہتے ہیں۔ معیشت کے رونے رونے کی بجائے اپنی عادتیں قدرت کے قوانین کے ساتھ ہم آہنگ کریں، صبح سویرے اٹھیں، اللہ کا نام لیں اور  فجر کے فوری بعد کاروبار ، دکانیں، مارکیٹیں اور مالز کھولیں۔ برکت بھی ہو گی، معیشت بھی ٹھیک ہو جائے گی، بگڑتا ہوا سوشل فیبرک اور فیملی سٹرکچر بھی ٹھیک ہو گا۔ میں اس بات کو بار بار شدت سے لکھ رہا ہوں کہ کاروبار 7 بجے بند ہونے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا، نقصان ہوتا ہے تو ہماری بگڑی ہوئی عادتوں کا ہوتا ہے جو ہماری ہڈیوں تک میں رچ گئی ہیں اور انہیں ہم بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔انتہائی سطحی دلیل جو دکا ندار دیتے ہیں وہ یہ کہ خریدار آتا ہی مغرب کے بعد ہے۔ ارے بھائی  جب لوگوں کو پتہ ہو گا کہ کاروبار اتنے بجے شروع ہو گا اور اتنے بجے بند ہو گا تو لوگ اس کے مطابق اپنی خریداری  کی منصوبہ بندی کریں گے۔ کووڈ کے دوران بھی حکومت کا مارکیٹیں جلدی بند کرنے کا فیصلہ عارضی تھا، اب بھی یہ فیصلہ عارضی ہے لیکن حکومت اپنا فیصلہ کس طرح نافذ کرتی ہے، اس کا مشاہدہ ہم کووڈ کے دوران دیکھ چکے ہیں کہ حکومت اگر چاہے تو کوئی بھی فیصلہ نافذ کروا سکتی ہے،کوئی احتجاج، اپیل، دھمکی حکومت کو فیصلہ نافذ کروانے سے نہیں روک سکتی لہذا اب بھی اسی طرح حکومت کو یہ فیصلہ بزور نافذ کروانا چاہیے اور مارکیٹوں کے یہ اوقات مستقل کر دینے چاہئیں۔

بازار اور دکانیں مغرب کی اذان کے ساتھ بند کرنے سے ہم کئی فائدے سمیٹ سکتے ہیں اور یہ فائدےہم سمیٹنا چاہتے ہیں یا نہیں، یہ بھی ایک مشکل فیصلہ ہے۔ میں نے مکالمہ پر ہی ایک تحریر میں کچھ فوائد گنوائے تھے، دوبارہ عرض کر دیتا ہوں۔

پہلا فائدہ تو یہ ہو گا کہ ہم کاروبا ر صبح سویرے کھولیں گے تو یہ ہمارے کاروبار اور معیشت کیلیے برکت کا باعث ہو گا۔ یہ اس کا روحانی فائدہ ہے۔

دوسرا یہ کہ دن کی روشنی کے استعمال سے رات کو آنکھوں کو خیرہ کرنے والی لاکھوں بتیاں جو ہمارے بازاروں میں جلتی ہیں، ان کا استعمال رک جانے سے بجلی کی بچت ہو گی۔ یہ اس کا مادی فائدہ ہے۔

تیسرا فائدہ یہ بازاروں میں گزرنے والا وقت لوگ اپنے خاندان کے ساتھ گزاریں گے اور بازاروں میں بےفائدہ گھومنے کی بجائے بمع خاندان صحتمند چہل قدمی کو فروغ ملے گا۔ یہ اس کا خانگی   فائدہ ہے۔

چوتھا یہ کہ سماجی رابطوں میں اضافہ ہو گا، لوگ اپنے ہمسائیوں، دوستوں اور عزیز رشتےداروں سے میل جول کیلئے وقت نکال پائیں گے۔ یہ اس کا سماجی فائدہ ہے۔

پانچواں فائدہ یہ کہ کاروبار سر شام بند ہونے سے سڑکوں پر ٹریفک کا رش ختم ہو جائے گا جس سے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ یہ اس کا ماحولیاتی فائدہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور سب سے مشکل فیصلہ عوام کیلئے یہ ہے کہ انہوں نے پٹواری، جیالے، یوتھیے ، متوالے بن کے زندگی گزارنی ہے یا ایک عزت درا شہری بن کر جینا ہے.  مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں جب سے پٹرول قوت خرید سے باہر ہوتا جا رہا ہے تب سے عوام نے سوشل میڈیا پر اشرافیہ کی مراعات پر سوال اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ یہ حقیقی شعور کی طرف اور رعایا سے شہری بننے کی طرف پہلا قدم ہے۔ میں پھر کہہ رہا ہوں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا عالمی منڈی سے اتنا تعلق نہیں ہے جتنا تعلق عالمی مالیاتی اداروں کی غلام معیشت سے ہے۔ یہ اسی غلام معیشت کے ثمرات ہیں جو  یہ عالمی ادارے اس ملک کی “بدمعاشیہ” کو سارا  بوجھ عوام پر ڈالنے کا حکم دیتے ہیں اور یہ بدمعاشیہ کورنش بجا لاتے ہوئے ان۔کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ اس میں عمران خان، نوازشریف، زرداری، فضل الرحمن ہوں یا بالواسطہ یا بلاواسطہ ہم پر حکومت کرنے والے جرنیل ہوں،  کا کوئی استثنی نہیں ہے۔ یہ سب آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور امریکہ کے غلام ہیں، یہ انہی کی مرضی سے آتے اور جاتے ہیں۔ کبھی اسلامی ٹچ اور کبھی امریکہ مخالف ٹچ کے جھوٹے نعروں سے جذباتی اور بےوقوف عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان تمام مراعات یافتہ طبقات کے بارے میں جو سوال اٹھانے کا سلسلہ شروع ہو ا ہے اسے تحریک بنانے اور ان سب کا احتساب کرنے کے ضرورت ہے اور یہ بھی ایک مشکل فیصلہ ہے لیکن اگر ہم نے ہجوم سے ایک قوم بننا ہے تو یہ مشکل فیصلے کرنا ہوں گے ورنہ دائروں کا یہ سفر ہمیشہ جاری رہے گا اور پستا عام آدمی رہے گا۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply