اللہ کی اسٹیبلشمنٹ اور آسیبی دائرہ

تبت سنٹر کے عقب میں اگر دو چار ہزار لوگ بیک وقت جمع ہو جائیں تو حقیقت یہی ہے کہ تل دھرنے کی جگہہ نہین رہتی لہذا سچائی کے پیکر ان مڈیا ہاوسسز سے کوئی گلہ بنتا نہیں جو آج چیخ چیخ کر بتا رہے تھے کہ خیابان سحر میں لگائی گئی منڈی جس کے ہاتھ میں ماورائے قانون و دستور پاکستان کا پرچم پکڑا دیا گیا ہے کراچی میں ایک نئی تاریخ رقم کر رہی ہے اور ” جلسہ گاہ ” میں تل دھرنے کی جگہہ نہیں ۔
نیشنل مڈیا کے ان مخصوص سوچ کے حامل اینکرز کا تو خیر کیا ہی کہنا انکا ” حسن ظن ” اپنی مثال آپ ٹہرا مگر جس نے آج ایم کیو ایم کے منحرف مصطفی کمال کا عظیم عالیشان خطاب نہیں سنا وہ تاریخ کے ایک اہم موڑ پر بہت سی حقیقتوں کا ادراک کرنے سے قاصر ہی رہے گا ۔ خطاب کا اولین نقطہ لاکھوں افراد کا ٹھاٹے مارتا ہوا سمندر ، یاد رہے کہ موصوف تبت سنٹر کے پچھواڑے کی گلی میں کھڑے تھے اور کراچی کے رہنے والے جانتے ہیں کہ چند سو افراد کا رش ہو تو اس جگہہ آفس ٹائم میں ٹھیلے پر کھڑے ہو کر نان چھولے کھاتے ہوئے بھی سینکڑوں دھکے لگتے ہیں ۔
سینکڑوں کو ہزاروں اور لاکھوں میں بدلنے کی خواہش تو ابھی پی آئی بی والوں کی بھی پوری نہیں ہو سکی حالانکہ انھوں نے صرف اپنی قیادت کو اگنور کیا ہے اور تاحال کسی الزام تراشی سے گریز کیا ہے مگر قیادت کو اگنور کرنے کا صلہ انھیں جس عوامی رد عمل کی شکل میں مل رہا ہے اس سے بھلے وہ انکار کریں لیکن انکے دل ضرور گواہی دیتے ہونگے ایک طرف ایم کیو ایم کی قیادت سے والہانہ محبت کا اظہار کرنے والے ایم کیو ایم کے لاکھوں نہیں کروڑوں کارکنوں ہمدردوں اور عوام کا رد عمل اور غصہ ان پر جنھوں نے صرف انکے محبوب قائد کی بیماری کو جواز بنا کر انھیں تنہا کرنے کی کوشش کی اور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننا قبول کر لیا اور دوسری طرف وہ شخص جس نے ایم کیوایم کی قیادت پر سنگین ترین الزامات لگائے اور انکی کردار کشی میں تمام حدود پار کر ڈالیں کیا یہ بات منطق کے کسی خانہ میں فٹ بیٹھتی ہے کہ ایم کیو ایم کے وہی لوگ جو قیادت کے قریبی اور دیرینہ ساتھیوں کو قیادت سے علیحدگی پر مسترد کر دیتے ہیں وہ مصطفی کمال کے گرد دیوانہ وار رقص کرینگے اور موصوف کراچی سمیت پورے جنوبی سندھ کی تاریخ بدل کر رکھ دینگے ۔
یہ تو آج کے اس ناکام ترین شو کا ایک پہلو ہے اب آئیں اس اصل اور حقیقی پہلو کی طرف جس کی طرف توجہ کم ہی کی گئی ہوگی ۔
جن لوگوں نے عمران خان صاحب کی تقریریں سنی ہیں ان کے الفاظ کلمات اور حوالہ جات سنے ہیں انکی باڈی لینگوئج کا مشاھدہ کیا ہے وہ آنکھین بند کر کے بھی بتا دینگے کہ مصطفی کمال اور عمران خان کا اسکرپٹ رائٹر ایک ہی ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ خان صاحب کی زبان پر اھد نصراط المستقیم ہوتا ہے اور کمال صاحب آج فرما رہے تھے کہ میری پشت پر جو اسٹیبلشمنٹ ہے وہ اللہ کی اسٹیبلشمنٹ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ میں اللہ کی اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہوں ۔ اس دائرے کا تیسرا رکن مورخہ 22 اگست کی رات چنا گیا جس نے بول پر بیٹھ کر اسی سوچ اور ایجنڈے کو آگے بڑھایا جس کی پشت پر ” اللہ کی اسٹیبلشمنٹ ” کارفرما تھی جی عامر لیاقت حسین ۔
یہاں تک تو اس کھیل سے یہی تاثر ملتا ہے کہ ایک تیسری قوت مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے مقابلے کے لیئے تیار کی جا رہی ہے اور جہاں تک ہمیں سمجھ آیا ہے پی پی پی کے دوستوں اور اکابرین نے اس ضمن میں اپنا مقدور بھر حصہ بھی شامل کیا ہے ۔
ہو سکتا ہے کہ پی پی کے دوست یہ خیال کرتے ہوں کے ایم کیوایم کو کریش کرنے سے جنوبی سندھ میں جو سیاسی خلا پیدا ہوگا اس کا فائدہ انھیں ملے گا اور وہ کوئی بہت بڑی انتخابی کامیابی حاصل کر لیں گے ۔ ہم آج پہلی بار نہیں ایک تواتر کے ساتھ لکھتے رہے کہ سندھ میں پی پی پی کا اگر کوئی فطری اتحاد بنتا ہے تو وہ صرف اور صرف ایم کیو ایم کے ساتھ سرحد میں یہ فطری اتحاد عوامی نشینل پارٹی کے ساتھ بنتا ہے بلوچستان میں اچکزئی کے ساتھ جبوبی پنجاب میں ان بکھرے ہوئے اور کچلے ہوئے عوامی حلقوں کے ساتھ جنھیں محض سرائیکی صوبہ کا لالی پاپ تھمانے سے کام نہیں چلے گا اور سینٹرل پنجاب میں یہ انتخابی معرکہ پی پی کو صرف اس کی ذاتی فعالیت ہی جتوا سکتی ہے مگر ان تمام تر زمینی حقائق سے بے نیاز پی پی قیادت اپنی فرینڈلی اپوزیشن اور امریکی روابط پر انحصار کرتی نظر آ رہی ہے ۔
ہم نے اسکرپٹ رائٹر کے حوالے سے اوپر دو سیاسی اور ایک نیم سیاسی شخصیت کا ذکر کیا مگر ان سے دائرہ مکمل نہیں ہوتا ۔ اس کیلئے آپ کو ماضی میں بھی جھانکنا ہوگا اور حال کو سامنے رکھتے ہوئے جب ایک غیر جانبدار تجزیہ کرینگے تو اپنے ابتدائی انتخابی معرکوں میں آپ کو جناب میاں نواز شریف کا لب و لہجہ اور انداز بھی خان صاحب اور مصطفی کمال سے کچھ مختلف نظر نہیں آئے گا دفاع پاکستان والوں کا مذہبی عنصر بھی اس میں شامل کر لیں تو یہ ” آسیبی دائرہ ” مکمل ہو جاتا ہے جس میں علاوہ میاں صاحب کے باقی سب تو نمایاں نظر آتے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ اس دائرے کا مرکزی نقطہ میاں صاحب ہی کی ذات اقدس ہے ۔ اور اس دائرے کا تمام تر بینیفٹ صرف اور صرف پی ایم ایل نواز ہی کو ملے گا ۔
ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پی پی پی کی قیادت کو یہ سب کیوں نظر نہٰیں آ رہا کہ کوئی تیسری طاقت نہ تو خان صاحب کو اقتدار دلوانے میں دلچسپی رکھتی ہے نہ کمال ہی کی کوئی اہمیت ہے تو صرف اس بات کی کہ پنجاب سرحد اور بلوچستان سے پی پی کا نام و نشان مٹ جائے اور سندھ میں ایک ایسی کمزور مخلوط حکومت بنے جسے وفاق سے کنٹرول کیا جاسکے ( گو کہ اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے ) ۔
پی پی پی ، ایم کیو ایم اور اے این پی کو دیوار سے لگانے کیلئے اس آسبی دائرے کی تمام کڑیاں جوڑی جا چکی ہیں ۔ یہ روشن خیال اور قدامت پسند سوچوں کا ایسا فیصلہ کن ٹکراو ہے جس کے نتائج یقینی طور پر آنے والے کل کے پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے جا رہے ہیں ۔ مصطی کمال نے سچ کہا ہے وہ اور انکے باقی تمام رفقا اللہ کی اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہیں اور یقین رکھیے کہ اللہ کی اس خود ساختہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس اللہ کے قوانین کی جو تعبیر و تشریح ہے وہ ملا عمر اور ابوبکر بغدادی کی تعبیر و تشریح سے کسی طور مختلف نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ، انسانیت ہی اسلام کا اصل اور روشن چہرہ انسانیت ہی میرا مذہب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply