بدن (38) ۔ دل ۔ علاج کے مسائل/وہاراامباکر

دل کی صحت کے بارے میں میڈیکل سائنس میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ یہ بیسویں صدی کے میڈیکل کی اچھی کامیابیوں میں سے ہے۔ بہت سے ایسے عارضے آج قابلِ علاج ہو چکے ہیں جو پہلے لاعلاج تھے۔ آج ہم دل کو بہت بہتر سمجھتے ہیں۔ بیسویں صدی کے وسط میں پہلی بار دھڑکتے دل کو چھوا گیا جو پہلے ناقابلِ تصور تھا اور اب اوپن ہارٹ سرجری عام ہے۔ پیس میکر، بائی پاس معمول ہیں۔ مرنے کے بعد اعضاء کے عطیے کی نئی شروع ہونے والی روایت کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنے مرنے کے بعد بھی بیماروں کو زندگی جیسا انمول تحفہ دے سکتے ہیں۔ اور اس طریقے سے ہزاروں لوگوں کے دل ہر سال بدلے جاتے ہیں۔ یہ بیسویں صدی کی ابتدا میں ناقابلِ تصور ہوتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ایک سو سال کے پہلے میں آج دل کے ہاتھوں مرنے کا امکان ستر فیصد زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کئی دوسری قاتل بیماریوں پر قابو پا لیا گیا ہے جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ آج سے ایک سو سال پہلے لوگ ٹیلی ویژن سکرین یا موبائل کے آگے بغیر حرکت کئے گھنٹوں نہیں گزارتے تھے۔ مائیکل کنچ لکھتے ہیں، “امریکہ میں کینسر، فلو، نمونیا اور حادثات میں مرنے والوں کی تعداد کو جمع کیا جائے تو یہ دل کی بیماری سے مرنے والوں کی تعداد کے برابر ہے”۔
آج ایک مسئلہ علاج کا میسر نہ ہونا ہے جبکہ ایک اور مسئلہ بغیر ضرورت علاج بھی ہے۔ کئی ماہرین کے مطابق اس کی ایک مثال انجینا (یا سینے کی تکلیف) کے علاج کے لئے ہونے والی بیلون انجیوپلاسٹی ہے۔ اس میں خون کی بند شریان میں ایک غبارہ پھلایا جاتا ہے تا کہ یہ چوڑی ہو سکے۔ اور ایک سٹنٹ ڈال دیا جاتا ہے جس کا کام اسے مستقل طور پر کھلا رکھنا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ آپریشن ایمرجنسی کی صورت میں جان بچا سکتا ہے لیکن اختیاری پروسیجر کے طور پر یہ بہت مقبول ہے۔ سن 2000 میں امریکہ میں ایک سال میں دس لاکھ انجیوپلاسٹی کی گئیں۔ اس وقت معلوم نہیں تھا کہ اس سے کتنا فائدہ ہوتا ہے۔ اس کے کلینکل ٹرائل کئے گئے۔ اس کے نتائج اچھے نہیں تھے۔ ایک جریدے کے مطابق اختیاری انجیوپلاسٹی میں ایک ہزار میں سے دو مریضوں کی آپریشن کے دوران موت واقع ہو جاتی ہے۔ اٹھائیس کو ہارٹ اٹیک ہوتا ہے جس کا سبب آپریشن ہے۔ ساٹھ سے نوے کی صحت میں کچھ دیر بہتری ہوئی ہے۔ جبکہ باقی آٹھ سو لوگوں کی صحت میں نہ ہی فائدہ ہوا اور نہ نقصان (اگر ہم علاج کے خرچ، وقت اور سرجری کی ٹینشن کو نقصان میں شمار نہ کریں 🙁 )۔
اس کے باوجود انجیوپلاسٹی بہت مقبول ہے۔ 2013 میں سابق امریکی صدر جارج بش نے 67 سال کی عمر میں انجیوپلاسٹی کروائی جبکہ انہیں بظاہر کوئی ایسی خاص بیماری نہیں تھی۔
سرجن عام طور پر کھلے عام اس طرح تنقید نہیں کرتے لیکن ڈاکٹر سٹیو نیسن جو کہ کلیولینڈ کلینک میں کارڈیولوجی کے سربراہ ہیں، کہتے ہیں۔ “یہ میڈیکل پر ہونے والے بے کار خرچ کی بدترین مثال ہے”۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply