• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • معاشرہ زہرہ کی چاہت کو کیسے قبول کرے گا ۔۔ڈاکٹر ابرار ماجد

معاشرہ زہرہ کی چاہت کو کیسے قبول کرے گا ۔۔ڈاکٹر ابرار ماجد

ایسی خوشیوں کے موقعوں پر شادیانے بجائے جاتے ہیں۔ سہیلیاں مہندی لگاتی ہیں۔ سکھیاں گیت گاتی ہیں۔ لڑکیاں لڑکے اپنے سارے شوق پورے کرتے ہیں۔ شادی کے بعد تو ہنی مون، رشتہ داروں میں دعوتیں، دلہا دلہن خاص مہمان بنتے ہیں۔ سسرال والے دلہنوں کے نخرے اٹھاتے نہیں تھکتے۔

دعا زہرا نے بھی شادی کی ہے کوئی جرم نہیں کیا۔ شادی صرف دعا زہرا کی نہیں ہوئی ساتھ ایک لڑکے کی بھی ہوئی ہے۔ ہماری معاشرت اور ثقافت کے عزت، غیرت اور قانون کے سارے پیمانے دعا زہرا پر ہی کیوں آزمائے جا رہے ہیں۔ دعا زہرہ ہنی مون کی بجائے تھانے کچہریوں کے چکر لگا رہی ہے۔ اس کی چاہت زمانے سے برداشت نہیں ہو رہی۔ زمانے کا بس نہیں چل رہا کہ وہ اس کی چاہت کو چھین لے۔

اس کی خوشیاں اور مسکراہٹیں چھین لی گئی ہیں۔ اسے مسلسل ذہنی تشدد کا شکار کیا جا رہا ہے۔ اس کی آزادی چھین لی گئی ہے۔ اس کی صنف نے اسے پولیس کی حراست میں پہنچا دیا، انصاف اس پر طبع آزمائی کی کوشش کر رہا ہے۔ اسے قانون کے سبق سکھائے جا رہے ہیں۔ یہ کیسی ثقافت ہے، یہ کیسا معاشرہ ہے جس میں لڑکی اور لڑکے کے لئے الگ الگ پیمانے ہیں۔ لڑکی ہی کیوں بگھوڑی بنتی ہے؟ لڑکی ہی کیوں بری بنتی ہے؟

لڑکی کو ہی کیوں سب کچھ چھوڑنا پڑتا ہے؟ اپنی چاہت کے لئے اس کو ہی کیوں قربانیاں دینی پڑتی ہیں؟ اسے ہی کیوں دارالامان جانا پڑتا ہے؟ لڑکی کے والدین ہی کیوں نشانہ بنتے ہیں؟ کیا ایسی معاشرت انسان کو برابری کی ضمانت دیتی ہے؟ کیا یہ رویہ تہذیب و تمدن کو اعلیٰ بناتا ہے؟ جسے جنس، جسم اور عمل تو نظر آتا ہے مگر جذبے چاہتیں اور احساسات نظر نہیں آتے۔ آنکھوں پر ایسی سیاہ عینکیں لگائی ہوئی ہیں جسے سب سیاہ ہی نظر آتا ہے۔ جسے سفید اور دوسرے حسین رنگ دکھتے ہی نہیں۔

کیا اس سب کچھ کی معاشرت، ثقافت، ذمہ دار نہیں جس نے والدین کی ایسی تربیت کی ہے جن کو بیٹی تو قبول ہے مگر اس کی چاہت قبول نہیں۔ کیا یہ معاشرت اور ثقافت کی تربیت ہی نہیں جو والدین اور اولاد کے درمیاں اعتماد کو قائم نہ کر سکی اور بیٹیوں کی منزل دارلامان بنا دی۔ یہ کیسی معاشرت اور ثقافت ہے جو عمل کو تو اپنے پیمانوں پر رکھ کر پرکھتی ہے مگر اس کی وجوہات کو یکسر نظر انداز کر دیتی ہے۔

کبھی اس معاشرت اور ثقافت نے سوچا ہے کہ دارلامان عورتوں کے لئے ہی کیوں بنائے گئے۔ کیوں کسی کو معاشرت اور ثقافت کی عدم تحفظ اور ظلم و بربریت کی جھلک نظر نہیں آتی؟ جو معاشرت حقوق کے توازن سے نابلد ہو انسانیت کو اپنی خواہشات کے کینوس پر دیکھتی ہو۔ جس معاشرت میں عورت کی آزاد خیالی کے لئے تو محفوظ پناہ نہیں مگر اس کی اطاعت گزاری ہر حال میں قبول ہے۔ کیا یہ سماجی اقتصادی طاقت بگاڑ کا شکار نہیں؟

کوئی ایسا نظریہ یا منطق ہے جو اس سب کا دفاع کر سکے مگر ضد اور جبر اس کو قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ اس معاشرت اور ثقافت نے اپنے پیروکاروں کی ایسی تربیت کی ہے کہ وہ انسان کو آزاد خیال، زندہ جذبوں، احساس، اطمنان اور روشن ضمیری کے ساتھ قبولیت کا حوصلہ نہیں رکھتی مگر مردہ ضمیری، غلامی جہالت کے ساتھ زندہ لعشوں کو قبول کرتی ہے۔

کاش ہم اپنی معاشرت اور ثقافت کو ایسا بنا سکتے جو جسموں کے ساتھ جذبوں، چاہتوں، احساسات اور آزاد خیالی کو بھی خاطر میں لاتے۔ انسان کو اپنے خود ساختہ اصولوں کی نظر سے نہ دیکھتے بلکہ انسان کو خالق کے اصولوں سے دیکھتے جو ظاہر کو نہیں دلوں کی حالت کو اہم سمجھتا ہے۔ یہ کیسی معاشرت اور ثقافت ہے جس کی آنکھیں تو ہیں مگر دل اور ضمیر نہیں ہے۔ دعا زہرا نے جو کچھ کیا اس کی ہمارے ماحول میں قبولیت نہیں۔ والدین کی شفقت ختم نہیں ہو سکی مگر معاشرے کے اصولوں کو توڑنے کی طاقت بھی نہیں رکھتے۔

میرا سوال ہے والدین سے، معاشرے سے، قانون سے، اداروں سے اور ریاست سے کہ زہرہ نے جو کچھ کیا اگر یہ جرم ہی ہے تو کیا اس میں وہ اکیلی ذمہ دار ہے۔ ذرا دل سے پوچھ کر بتائیے گا کہ اس نہتی لڑکی نے ایسا کیوں کیا؟ وہ اپنے گھر سے کیوں بھاگی؟ اس نے اپنے والدیں کو کیوں چھوڑا؟ اس نے ایک لڑکے کی خاطر اتنی صعوبتیں کیوں برداشت کیں؟ کیا وہ عبا میں بھی بری لڑکی ہی ہے اور نیم لباس ڈھولکی کے تھاپ پر رقص کرتی معاشرت، ثقافت اور سیاست سب نیک و درست ہے؟

ایسی معاشرت اور ثقافت جو فطرت کے شاہکار جذبوں، چاہتوں اور احساسات سے ٹکراؤ رکھتی ہو اس کا عقلی جواز تو میری سمجھ سے باہر تھا ہی مگر جس طرح ان کو جرم بنا دیا اس سے قانونی جواز بھی کھو بیٹھی ہے۔ وہ اس معاشرت، ثقافت اور عدالت کو چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور اس پر کوئی دباؤ نہیں مگر ضد، ہٹ دھرمی اور وکالت ہے کہ اس کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں۔

نام نہاد شفقت اس کی چاہت، جذبوں اور احساسات کو شک کی نظر سے دیکھ رہی ہے اور غلام سوچ آزاد خیالی کو قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ آج اسے پولیس کی حراست میں ہائیکورٹ میں ایسے پیش کیا گیا جیسے کوئی بہت بڑی دھشت گرد ہو۔ نام نہاد قانون داں اس کو انسانی سمگلنگ کا رنگ دینے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ کیسی انصاف اور انسانیت کی خدمت ہے جو دعا زہرا کو انسان نہیں کموڈٹی ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔

عدالت کا بھلا ہو کہ اس نے زہرا کو انصاف دیتے ہوئے میاں بیوی تسلیم کر لیا مگر ہماری یہ ثقافت اور معاشرت کے ارادے تو خطرناک تھے۔ ایسی ہی معاشرت کے پیروکار دعا زہرہ کے والدین زہرہ کو واپس گھر لانا چاہتے ہیں مگر اس کی چاہت، جذبوں اور احساسات کے بغیر۔ وہ ایسا کرنے کے لئے اپنے ہم خیالوں کی معاشرت، ثقافت اور عدالت کی ہمدردیاں سمیٹ رہے ہیں اور ان کے شکر گزار ہیں کہ وہ اپنے لختِ جگر کو اپنی معاشرت اور ثقافت کی ایسی قید میں لے جانے کا ساتھ دے رہے ہیں جہاں اس کے جذبوں، چاہتوں اور احساسات کی کوئی گنجائش نہیں۔

ان چاہتوں، جذبوں اور محسوسات پر اعتراضات، تحفظات اور خدشات کا بھی احترام لازم ہے مگر مہذب معاشروں میں ان کی وجوہات کی روشنی میں احسن اقدامات کے سبب سدباب کی کوشش کی اور وقت سے پہلے ان کی اصلاح کی کوشش بھی کی جاتی ہے اور اگر ایسا ہوا ہے تو اپنی ناکامی کو بھی تو تسلیم کرنا ہو گا اور اس طرح کا کوئی چیلنج سامنے آتا ہے تو اس کا اچھے انداز سے حل ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی ہے نہ کہ اپنی معاشرت اور ثقافت کا تماشہ لگا دیا جائے۔

بیٹیوں کو اس طرح بیاہ لانا بھی اچھی مثال نہیں اور یہ بھی اسی معاشرت، ثقافت اور تربیت کا ہی نتیجہ ہے اور پھر اس معاملے کو اس طرح سے طول دینا، تھانے کچہریوں تک پہنچا کر اس کی میڈیا پر تشہیر کرنا سب ہماری معاشرت کا ہی عکاس ہے۔ یہ معاملہ کچھ اس انداز سے بھی حل کیا سکتا تھا کہ کانوں کان خبر نہ ہوتی مگر بات معاشروں کی سوچ کی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کب ہم ایسی معاشرت، ثقافت اور اخلاقیات کو پروان چڑھا پائیں گے جہاں سماج دعا زہرا کو ایسی اہمیت اور اہلیت دے کہ وہ اس کی چاہتوں، جذ بوں اور احساسات سمیت قبول ہو؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply