رودادِ سفر (31) ۔۔شاکر ظہیر

میرے جہاں بہت سے مسلمان دوست تھے وہیں ایک ہوناں ( Hunan ) صوبے سے تعلق رکھنے والے بہت پیارے سے دوست مسٹر ( HE TONG ) . بہت پڑھے لکھے اور یہ دوسرے چائینز ہیں جن سے اتنے عرصے میں میری جان پہچان ہوئی کہ جن کے ساتھ بیٹھ کر آپ بہت اچھی علمی گفتگو کر سکتے ہیں ۔ ان کی بیوی سن ڈونگ ( Shang dong ) صوبے سے تعلق رکھنے والی بہت ہی سادہ سی طبیعت کی تھی ۔ وہ دونوں پہلے ایک ہی فیکڑی میں کام کرتے تھے پھر اپنا ذاتی چھوٹا سا کاروبار شروع کر دیا ۔ ایک دن میں بھی بس فارغ بیٹھا تھا کہ ان کی کال آ گئی کہ بہت دن ہو گئے ہیں آئے نہیں، میں سمجھا پاکستان گئے ہو ۔ میں نے کہا آپ فارغ ہیں تو آپ کے دفتر آ جاتا ہوں ۔ اور ان کی اجازت سے ان کے پاس چلا گیا ۔ امام ابوبکر سے تو میں چائنا میں مسلم تاریخ کے حوالے سے جان چکا تھا جس سے مجھے مختلف علاقے سے مسلمانوں اور ان کے فرقوں اور نفرت کی وجوہات کچھ سمجھ آگئی تھیں لیکن مختلف علاقوں کے غیر مسلموں چائنیز کے آپس کے کھچاؤ کے رویے کو مجھے جاننا تھا ۔ اور یہ کسی تاریخ کے چائنیز طلب علم ہی سے معلوم ہو سکتا تھا ۔ ان کے دفتر پہنچ کر سبز چائے کے بعد بات چیت شروع کی اور اپنی الجھن کا اظہار کیا ۔ اور بتاتا کہ یہ بات مجھے کچھ پیچھے کی تاریخ ہی سے سمجھ آ سکتی ہے اگر آپ مدد کریں ۔ ان کی بیوی بھی پاس آ کر بیٹھ گئیں اور آج دونوں کے پاس بلکہ ہم تینوں کے پاس بس فراغت ہی تھی ۔ انہوں نے بات شروع کی جسے میں کچھ اپنی یاداشت اور کچھ بعد کی ذاتی تحقیق کی بنیاد پر بیان کرتا ہوں ۔
چائنا ایشیا کا بہت بڑا ملک ہے اور ہزاروں سال کی تاریخ رکھتا ہے ۔ ایک تہذیب ہے جس نے دنیا کو بہت کچھ دیا ۔
چائنا کے اندر دو دریا ہیں ایک ییلو دریا ( yellow River ) جسے سارو آف چائنا (sorrow of China ) بھی کہا جاتا ہے کیونکہ جب بھی اس میں سیلاب آتا ہزاروں لوگ ہلاک ہو جاتے تھے ۔ لیکن دوسری طرف چائنا کی سولائزیشن ( civilization ) یہیں سے شروع ہوئی ۔ دوسرا دریا (Yangtze River ) یہ دنیا کا تیسرا سب سے لمبا دریا اور ایشیاء کا پہلے نمبر پر لمبا دریا ہے ۔ اسی دریا کے کنارے نانجنگ ( Nanjing ) شنگھائی ( Shanghai ) کا شہر ہے ۔ اوپر رشیاء کی طرف بیجنگ ( Beijing ) اور نیچے ہانگ کانگ کی طرف گوانزو ( Guangzhou ) شہر ہے ۔ گوانزو ( Guangzhou ) پرل دریا ( pearl River ) کے کنارے آباد ہے ۔ چائنا کی آبادی کا بہت بڑا حصہ درمیان آدھے سے مشرق کی طرف رہتا ہے ۔ یعنی تبت ، سنکیانگ ، منگولیا وغیرہ مغرب کی طرف والے کم ابادی والے حصے ہیں .
چائنا میں دو سے تین ہزار سال تک کسی نہ کسی شاہی خاندان کی حکومت رہی ۔ ایک کے بعد ایک خاندان پورے متحدہ چائنا پر حکومت کرتے رہے ۔ ایسا نہیں تھا کہ حکومت مختلف علاقوں میں مختلف شاہی خاندانوں میں تقسیم رہی ہو ، درمیان کے کچھ عرصے کو چھوڑ کر ۔ اس سلسلے میں سترھویں صدی میں منگ خاندان ( Ming dynasty ) کو ہٹا کر چھن خاندان ( Qing dynasty ) طاقت میں آیا ۔ اور بادشاہی نظام میں یہ آخری شاہی حکومت تھی ۔
انیسویں اور شروع کی بیسویں صدی کے عرصے کو چائنا کے زوال کا دورانیہ کہا جاتا ہے کیونکہ اس سو سال کے عرصے میں چائنا کو کئی بیرونی طاقتوں سے لڑائیوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ ہزاروں سالوں کی شان و شوکت کو یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا ۔ اس سے پہلے تک چائنا کی فوج بہت بڑی فوج اور عالمی طاقت تھی ۔ اس عرصے میں پہلی لڑائی برطانیہ کے خلاف ہاری گئی جسے افیون کی لڑائی کہا جاتا ہے (opium war ) ۔ دوسری لڑائی فرانس سے ہاری گئی ۔ تیسری 1894 میں چائنا جاپان لڑائی ہاری گئی جسے ( first sino Japan war ) کہا جاتا ہے اور چوتھی (boxer Rebellion ) باکسر تحریک ۔ 1895 کی پہلی چائنا جاپان جنگ کے بعد ، باکسر تحریک چائنیز نے غیر ملکی مداخلت ، نو ابادتی نظام ، عیسائی مشنریوں کے خلاف اٹھائی تھی جو ہر شہر میں موجود تھے ۔ اس تحریک کے بہت سے ارکان چائنیز مارشل آرٹس کی مشق کرتے تھے اس لیے اسے باکسر تحریک کہا جاتا ہے ، اس کی ابتداء شن ڈون ( shang dong ) صوبے سے ہوئی تھی ۔ اسے ہم برصغیر کی اس دور کی مولانا مشرقی کی خاکسر تحریک کہہ سکتے ہیں ۔ اس تحریک کے کارکن باکسنگ کی مشق کرتے تھے اور ایک تصور ان لوگوں کے بارے میں عوام میں موجود تھا کہ ان لوگوں پر دیوتاؤں کا خاص کرم ہے کہ کوئی گولی ان پر اثر نہیں کرتی ۔ اس لیے عوام بڑی تعداد میں ان کے ساتھ شامل ہوئی ۔ یہ تحریک بیجنگ تک پہنچی اور اس شہر کے محاصرہ کے دوران بہت سے لوگ ہلاک ہوئے کیونکہ ان کے پاس
اسلحہ کے نام پر بس تلواریں اور نیزے ہی تھے ۔
ان سب لڑائیوں میں ہار کی اہم وجوہات میں ، چائنا کی نیوی بہت کمزور ہو چکی تھی ۔ چھن بادشاہت ( Qing dynasty ) نے نیوی پر اتنا دھیان نہیں دیا جس کی وجہ سے سامراجی قوتوں سے شکست کا سامنے کرنا پڑتا رہا ۔ ان سامراجی قوتوں نے کاروبار کے بہانے چائنا پر اپنی گرفت مضبوط بنائی ۔
اس کے علاؤہ زوال کی وجوہات میں چھن بادشاہت ( Qing dynasty ) اس حد تک کمزور پڑ گئی کہ آخری بادشاہ پوائی ( Puyi ) کو تو صرف چھ سال کی عمر میں بادشاہ بنایا گیا ۔ یعنی وہ صرف نام کا بادشاہ تھا باقی وزیر مشیر اپنی من مانی کر رہے تھے ۔ مرکزی حکومت انتہائی کمزور تھی ۔ اور اس دور میں منگولیا اور تبت نے علیحدگی اختیار کر لی تھی ۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ چائنا نے جدید سائنسی ایجادات پر توجہ نہیں دی اور اپنی فوج کو جدید خطوط پر استوار نہیں کیا ، فوج وہی پرانے ہتھیاروں سے لیس تھی ۔ جاپان اس سے پہلے ( meiji restoration ) کی وجہ سے صنعتی ترقی میں بہت آگے نکل کر ایک طاقت بن گیا تھا ۔ اور یہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا کہ جاپان نے حملہ کر کے چائنا پر فتح حاصل کی ۔ زوال کی ایک اور وجہ حکومتی نظام کو جدید خطوط پر استوار نہ کرنا بھی تھا جس کی وجہ سے ریاست کمزور ہوتی جا رہی تھی ۔
سامراجی طاقتوں نے تجارت کے نام پر چائنا میں اپنے قدم جمانا شروع کیے اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح پہلے تجارتی کوٹھیاں قائم کیں پھر مختلف علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ۔ یہ وہ دور ہے جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں بھی اپنے قدم جما لیے تھے ۔ لیکن سامراجی طاقتوں نے چائنا پر مکمل طور پر قبضہ نہیں کیا تھا بلکہ وہ اکثر ساحلی شہروں پر قبضہ جما کر مرکزی حکومت کو مجبور کرتے کہ ایسے تجارتی معاہدات کیے جائیں جو چائنا کےلیے انتہائی نقصان اور ان کے اپنے فائدے کے ہوں ۔ اسی دور میں برطانیہ نے ہانگ کانگ پر قبضہ کرکے اسے افیون کی تجارت کے گودام کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا ۔ جس کی وجہ سے پہلی چائنا برطانیہ افیون کی جنگ ہوئی جو چائنا ہار گیا . ایسٹ انڈیا کمپنی عام تاجروں کے ذریعے بنگال سے افیون کو چائنا سمگل کرتی اور چائنا سے مصنوعات خرید کر باقی دنیا میں سپلائی کی جاتی ۔ افیون کی تجارت سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس چائنا کو بیچنے کےلیے کچھ نہیں تھا اس لیے اس تجارتی خسارے کو افیون کی تجارت کے ذریعے بیلنس کیا گیا ۔
1911 میں انقلاب برپا ہوا ۔ مانچو ( Manchu ) ( یہ وہ لوگ ہیں جو کسی دور میں سائبیریا سے چائنا ا کر آباد ہوئے ) کے زیر قیادت نے سامراجی بادشاہت کو ختم کر دیا اور یہ انقلاب جمہوریہ چائنا کی بنیاد بنا ۔ اس انقلاب نے 2132 سال شاہی حکومت اور 276 سالہ چھن خاندان ( Qing dynasty ) کا خاتمہ کر دیا ۔ چھن خاندان ( Qing dynasty ) نے طویل عرصے تک حکومتی نظام میں اصطلاحات اور غیر ملکی جارحیت کے خلاف جدوجہد کی ، لیکن 1900 کے بعد اصلاحات کے پروگرام کی شاہی دربار میں قدامت پرستوں نے شدید مخالفت کی جبکہ اصلاح پسندوں نے اس کے سست ہونے کی وجہ سے مخالفت کی ۔ اس طرح کچھ اور گروہ سرگرم عمل تھے جن میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے اصلاح پسند جو جدید اصلاحات کے ذریعے بادشاہت کو بچانا چاہتے تھے ، اور کچھ زیر زمین چھن بادشاہت ( Qing dynasty ) کے مخالف گروہ ۔ اس کے علاؤہ ملک بھر میں موجود سرگرم کارکن جو اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ نظام حکومت یہی بادشاہت ہونی چاہے یا اسے ختم کر کے اور کوئی نظام لایا جائے ۔
بادشاہت کو آخری دھچکا اوہان ( Wuhan) میں فوجی بغاوت سے لگا جو نئی فوج کے ارکان نے کی جسے جاپان سے جنگ کی شکست کے بعد جدید مغربی طرز پر بنایا گیا تھا ۔ یہ ( Beiyang Army ) کے درمیان مسلح بغاوت تھی اور پھر اس طرح کی بغاوتیں سارے ملک میں پھیل گئیں ۔ اور ملک کے تمام صوبوں میں انقلابیوں نے بادشاہت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس مسلح بغاوت کے بعد عدالت نے جنرل یوآن شیکائی ( Yuan Shikai ) جو کہ اس بیانگ آرمی ( Beiyang army ) کے سربراہ تھے کو وزیراعظم مقرر کیا اور انہوں نے انقلابیوں سے بات چیت شروع کر دی ۔ جنرل صاحب کا تعلق ہرنان ( Henan ) صوبے سے تھا ۔
دوسری طرف نانجنگ شہر ( Nanjing ) میں انقلابیوں نے ایک عارضی مخلوط حکومت قائم کی اور ایک جنوری 1912 کو یہاں کی اسمبلی نے رپبلک آف چائنا کا اعلان کر دیا جس نے سین یات سن ( Sun Yat-sen ) جو یونائٹڈ لیگ پارٹی کے سربراہ تھے کو رپبلک آف چائنا کا صدر نامزد کر دیا ۔
ڈاکٹر سن یات سین ( Dr sun yat – Sen ) کا تعلق گوانڈونگ ( Guangdong ).صوبے سے تھا ، میڈیکل ڈاکٹر تھے اور امریکہ سے تعلیم حاصل کی تھی ۔ یہ ایک طرح سے صوبائی حکومت تھی ، اس سے پہلے بھی ڈاکٹر صاحب نے جاپان میں رہتے ہوئے کئی خفیہ انقلابات کی کوششیں کی تھیں اور ان کا مقصد جمہوریت اور چائنا کو جدید دنیا سے ہم آہنگ کرنا تھا ۔ ڈاکٹر سین یات سین کی نیشنلسٹ پارٹی نے اپنے تین اصول دیے نیشنلزم یعنی حکومت چائنیز لوگوں ہی پاس رہنی چاہیے نہ کہ باہر سے آئی طاقتوں کے پاس ، جمہوریت یعنی حکومت کے انتخاب کا حق لوگوں کو ہو گا کوئی بادشاہت قبول نہیں کی جائے گی اور تیسرا سوشلزم ۔
ڈاکٹر صاحب کی صوبائی حکومت اور مرکز میں موجود فوج کے درمیان جس کی سربراہی جنرل یوآن شیکائی ( yuan Shikai ) کر رہے تھے ، جھڑپیں شروع ہو گئی . یہ مختصر خانہ جنگی ایک سمجھوتے پر ختم ہوئی ۔ اس معائدے کے نکات میں یہ تھے ۔
صدر سین یات سن ( sun yet Sen ) جنرل یوآن شیکائی ( yuan Shikai ) کے حق میں مستعفی ہو جائیں گے اور نئی حکومت کے سربراہ جنرل شیکائی ہوں گے ۔ اور بادشاہت کے خاتمے کو یقنی بنایا جائے گا ۔
ان شرائط کو پورا کرنے کےلیے چھ سالہ آخری چینی بادشاہ پوئی (.Puyi ) کو بادشاہت سے ہٹانے کا حکم نامہ جاری کیا گیا ۔ اور جنرل یوآن شیکائی ( Yuan Shikai ) نے 10 مارچ 1912 کو صدر کے عہد کا حلف اٹھا لیا ۔ 1916 میں صدر صاحب اپنی موت تک حکومت مستحکم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ ملک مزید سیاسی تقسیم اور خانہ جنگلی کا شکار ہو گیا ۔ جنرل صاحب صدر بننے کے بعد طاقت کو اپنے قبضے میں لیتے گئے اور 1915 میں انہوں نے خود کو بادشاہ ڈیکلیئر کر دیا ۔ اس کی شدید مخالفت نیشنلسٹ پارٹی نے کی جس کے نتیجے میں جنرل صاحب نے اسمبلی برخاست کر دی ۔ سب ممبران کو چائنا چھوڑنا پڑا ۔ اور ڈاکٹر صاحب نے بھی جاپان جا کر پناہ لی ۔
1916 میں جنرل صاحب کا انتقال ہو گیا جس نے صورتحال کو بہت عجیب کر دیا ۔ کوئی مرکزی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے ہر علاقے میں جو طاقتور تھا اس نے حکومت قائم کر لی ۔ ( 1916- 1928) تک کا دور وار لارڈز کا دور تھا بلکہ کچھ وار لارڈز 1940 تک بھی رہے ۔ اس عرصہ میں چائنا کئی حصوں میں تقسیم تھا ۔ ان میں سے تین بڑے جھتے بنے اور ہر ایک نے اپنے اپنے علاقے الگ کر لیے ۔ یہ گروپ انہی کے زیر قیادت بنے جو پہلے سے ان علاقوں میں فوجی کمانڈر تھے ۔
1917 میں ڈاکٹر سن یات سین ( Dr sun yet Sen ) جلاوطنی سے واپس آئے اور چار سال کی محنت کے بعد گوانزو ( Guangzhou ) صوبے میں دوبار اپنی حکومت قائم کی ۔ جبکہ باقی چائنا مختلف وار لارڈز کے کنٹرول میں تھا ۔
جزل صاحب ( Yuan Shikai ) کی وفات کے بعد وزیر اعظم ( چیف ایگزیکٹو ) کا عہدہ انہی کی آرمی کے (Duan Qirui ) نے سنبھال لیا ۔ ان کا تعلق انگوے ( Anhui) صوبے سے تھا ۔ وزیر اعظم ( چیف ایگزیکٹو ) انتہائی کوششوں میں تھے کہ اپنے ملک کی طاقتوں کو یہ باور کرا سکیں کہ چائنا کو پہلی جنگ عظیم میں شرکت کرنی چاہیے ۔ جنگ عظیم پہلے ہی چائنا میں ستمبر 1914 میں داخل ہو چکی تھی جب جاپان نے جرمن کالونی جو ساحلی شہر چھن داؤ ( Qing Dao ) میں تھی اس کا محاصرہ کیا ۔ چائنا نے ایک لاکھ چالیس ہزار ورکر اس دوران فرانس بھیجیے ، لیکن 1917.تک آفیشلی چائنا نیوٹرل ہی رہا ۔
جنرل صاحب نے اگست 1917 میں جنگ میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا اور فوج تیار کرنا شروع کر دی جو یورپ میں اتحادیوں کا ساتھ دے ۔ چابان نے خفیہ طور آمادگی ظاہر کی کہ وہ اس آرمی کو ٹرینگ آور ہتھیار دے گا ۔ لیکن جنرل صاحب نے یہ آرمی نہیں بھیجی ۔ ان کا منصوبہ اپنی طاقت بڑھنے کےلیے طاقتور فوج کا قیام تھا ۔ اور اس فوج کو انہوں نے پہلی دفعہ ہوناں ( Hunan ) صوبے میں بغاوت کے خلاف استعمال کیا ۔ ڈاکٹر سن یات سین ( sun yat Sen ) نے اس کی شدید مخالفت کی اپنی طاقت کو ساؤتھ یعنی گوانزو میں جمع کر لیا جس نے ریپبلک کو مزید کمزور کر دیا ۔
جنگ عظیم کے خاتمے پر اتحادیوں نے چائنا میں موجود جرمن کالونیوں جاپان کے اختیار میں دے دیں ۔ اور جاپان نے ان جرمن کالونیوں کو اپنے قبضے میں کرنا شروع کر دیا ۔ حالانکہ چائنا کی توقعات یہ تھیں کہ یہ علاقے واپس چائنا حکومت کے حوالے کر دیے جائیں گے ۔ جب چائنا حکومت نے مجبوراً اس اتحادی معائدے کو تسلیم کیا تو مئی 1919 میں ملک کے اندر اس کے معائدے کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے ۔ اسے 4 مئی کی تحریک کہا جاتا ہے ۔ اس تحریک کے سماجی اور سیاسی اثرات بہت زیادہ تھے ۔
جنرل دوان ( Duan Qirui ) نے دوبارہ طاقت حاصل کرنے کےلیے اپنی فوج کو استعمال کیا ۔ اس طرح جنرل صاحب کو علیحدگی والے صوبوں اور اس 4 مئی سٹوڈنٹس تحریک دونوں سے مقابلہ کرنا تھا ۔ جنرل صاحب کی فوج میں بھی مخالفت تھی ۔ جیسے جیسے ملکی حالات بگڑ رہے تھے اور مرکزی گرفت کمزور ہو رہی تھی ویسے ویسے کئی فوجی آفیسرز اور سیاسی لیڈروں نے اپنے اپنے ( Clique ) جھتے بنا لیے ۔ آفیشلی تو یہ سنٹرل حکومت کے تحت تھے لیکن زمینی طور پر یہ اپنے زیر قبضہ علاقوں کی قوت بڑھا رہے تھے اور وہ اس مخصوص صوبے کے گورنر کہلاتے ۔ آسان لفظوں میں وہ فوج جسے جدید خطوط پر تشکیل دیا گیا (.Beiyang army ) جس کے کمانڈر ان چیف نے شہنشاہ کو ہٹا کر چیف ایگزیکٹو کا عہدہ سنبھالا ، ان جنرل صاحب کی وفات کے بعد مختلف علاقوں کے کور کمانڈرز نے علاقے تقسیم کر کے اپنے اپنے جھتے بنا لیے ۔ یہی جھتے وار لارڈز کے جھتے کہلائے ہیں ۔
ان وار لارڈز میں کئی ابھرے اور کئی ڈوبے ۔
ان میں مشہور انگوے ( Anhui clique) ہے جس کی کمانڈ جنرل ڈوان ( Duan Qirui ) کر رہے تھے اور ان کا آبائی تعلق بھی انگوے ( Anhui ) صوبے سے تھا ۔ ان کے زیر قبضہ زیادہ تر ساحلی شہر اور بیجنگ کے اردگرد کے علاقے تھے ۔ لیکن اس کے جھتے کے کچھ زیر قبضہ صوبوں کی رسائی دوسرے گروپ کے علاقوں سے گزر کر ہی ریل کے ذریعے ہو سکتی تھی ۔ اس گروپ کی حمایت بڑے آرمی آفیسر اور جاپانی کر رہے تھے جنہوں نے اسے 120 ملین ڈالر فنڈنگ کی اور اس کی آرمی کی ٹرینگ کےلیے ایڈوائزر بھیجے ۔ اس کی طاقت چار ڈویژن فوج پر مشتمل تھی ۔
دوسرا بڑا ہیلی ( Zhili clique ) گروپ تھا ۔ جس کے زیر قبضہ مشرقی وسطی کئی صوبے تھے ۔ یہ گروہ جنرل یان شکائی (Yuan Shikai ) کی پے یانگ ( Beiyang clique ) جو مرکزی فوج تھی کی وفات کے بعد علیحدہ ہوا ۔ یان شکائی کی ذات ہی تھی جو ان کو مرکز سے جوڑ کے رکھے ہوئی تھی ۔ اس کے زیر قبضہ صوبے جانسو ( Jiangsu ) ، جانگشی ( Jiangxi ) اور ہوہے ( hebei ) صوبے تھے ۔ ان کی طاقت کا مرکز ہوہے ( heibei ) صوبہ تھا جسے اس وقت ہیلی ( zhili ) کہا جاتا تھا ۔ اس گروپ کے لیڈر ( Cao kun ) تھے ۔ ان کا آبائی علاقہ تھن جن ( Tianjin ) تھا ۔ انہیں ماسٹر اور سکالر وار لاڈزر کا لقب بھی دیا گیا ۔ اس گروہ ( Zhili Clique ) کو اٹلی گولہ بارود فراہم کرتا تھا ۔
تیسرا بڑا گروہ ( Fengtian clique ) تھا ۔ اس گروہ کا کنڑرول Fengtian صوبے پر تھا جسے اب ( Liaoning ) کہا جاتا ہے ۔ اس گروہ کے سربراہ ( Zhang Zuolin ) تھے جن کا آبائی علاقہ لیوننگ (Liaoning ) کا صوبہ تھا ۔ اس گروہ کی طاقت 120000 تک تھی ۔ اس گروہ کو بھی چاپان نقد رقم اور اسحلہ فراہم کرتا تھا ۔ اس کے زیر قبضہ (.Manchuria ) کے علاقے تھے جن میں Helongjaing ) , ( Liaoning ) ) اور ( jilin ) کے صوبے شامل تھے ۔ ابتداء میں اس جھتے نے بادشاہت کے خلاف تحریک کی مخالفت کی لیکن بعد میں یہ دوسرے گروہوں کے درمیان طاقت کے توازن کےلیے لڑنے لگے ۔ یہ جھتہ سب سے زیادہ اچھے ہتھیاروں سے لیس تھا ۔ یہ کوئی آئیڈیالوجی کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے جاپانی نے دوسرے دو جھتوں کو بھی پیشکش کی تھی لیکن انہوں نے قبول نہیں کی ۔ لیکن دوسری طرف جاپان یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ یہ جھتہ اتنا طاقتور ہو جائے کہ اسے ہماری سپورٹ کی ضرورت ہی نہ رہے ۔
ان جھتوں کے درمیان لڑائی ہمیشہ مختصر ہوتی اور کمانڈر کی بھی انتہا کی کوشش ہوتی کہ اسے مختصر رکھا جائے کیونکہ فوجیوں کو لمبے مقابلے کےلیے آمادہ کرنے کےلیے رقم موجود نہیں ہوتی تھی ۔ جنگ کے بعد ہارنے والے جیتے والے کے ساتھ مل جاتے اور اکثر یہ لڑائیاں رشین ماہرین کے زیر نگرانی ہوتی تھیں ان میں مشین گن کی کمی کو بہت محسوس کیا جاتا تھا ۔ بھاری ہتھیار جنگ کا پانسہ پلٹتے تھے لیکن صرف اس صورت میں جب فوجی انہیں محاذ پر لے جانے کےلیے آمادہ ہوں ۔ وارز لاڈزر مہنگی جنگ سے بچنے کی کوشش کرتے تھے لیکن یہ صورتحال ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی تھی ۔ آخر کار 1920 میں تینوں بڑے گروپس کے درمیان ایک دوسرے کو ختم کرنے کی جنگ چھڑ گئی ۔ ان ہوئے گروہ ( Anhui clique ) نے ییلی گروہ ( zhili clique ) کے خلاف لڑائی چھیڑ دی ۔ لیکن تیسرے گروہ فنگ تنگ ( Fengtian clique ) نے ( Anhui clique ) کے خلاف ( zhili clique ) کا ساتھ دیا ۔ حالانکہ ( Fengtian clique ) اور ( Anhui clique ) دونوں ہی جاپان سے سپورٹ حاصل کرتے تھے ۔ یہ لڑائی ( zhili clique ) کے بیجنگ پر حملے سے شروع ہوئی دوسری طرف سے ( Fengtian clique ) نے اوپر ( Manchuria ) سے حملہ کر دیا جس کے دفاع کے لیے ( Anhui clique ) سامنے آیا ۔ ( Anhui clique ) جس کی فوج دوسرے علاقوں میں تھی انتہائی ضرورت کے حالات میں بھی ٹرین کے ذریعے لڑائی کےلیے نہیں پہنچ سکتی کیونکہ درمیان کے علاقے دوسرے گروپس کے قبضے میں تھے ۔ دوسرے ( Anhui clique ) کو اپنی موجود فوج کو دو حصوں میں دونوں الگ سمت میں آنے والے گروہوں کی فوجوں کے حوالے سے تقسیم کرنا پڑا ۔ یہ شکست اس وقت سب سے طاقتور فوج کی تھی اور ( Anhui clique ) پر دو طرفہ حملے سے لڑائی چار دنوں میں اس گروہ کی شکست پر اختتام پذیر ہوئی ۔ اور اس گروپ کے سربراہ ( Duan Qirui ) جو اس وقت مرکز کو کنٹرول کر رہے تھے ، کو بھاگ کر جاپان میں پناہ لینی پڑی ۔ اس طرح ( zhili clique ) سارے وسطی چائنا کے صوبوں پر قابض ہو گیا ۔ ایک محدود سے ساحلی علاقے پر ( Anhui clique ) کا قبضہ رہا ۔
لیکن اس فتح نے بھی صورتحال میں تبدیلی نہیں کی اور غیر یقینی صورتحال برقرار رہی ۔ کیونکہ دو باقی بچے گروہ ( zhili clique ) اور ( Fengtian clique ) کے درمیان اشراک صرف ( Anhui clique ) کے خلاف لڑائی تک تھا ۔ پہلے ان دونوں گروہوں کی سرحدیں ایک دوسرے سے دور تھی درمیان میں تیسرے گروہ کا علاقہ تھا لیکن اب دونوں کے بارڈر ساتھ ساتھ ہو گئے تھے اس لیے ( zhili clique ) نے یہ تصور کیا کہ ( Fengtian clique ) نے اس کی فتح سے فائدہ اٹھایا ۔ اس طرح ان دونوں کے درمیان بھی رسہ کشی شروع ہو گئی ۔ ( zhili clique ) نے مرکز میں حکومت قائم کی اور یہ تسلیم کیا کہ مرکز کا کنٹرول آپ ممکن نہیں ہے ۔ علاقائی خودمختاری کے متعلق غور و فکر شروع ہو گیا ۔
اس کے علاؤہ اور بھی بہت سے گروہ تھے جن میں سین یا سن کا گروہ جس کے زیر قبضہ جنوب کے دو صوبے گوانزو اور فیوجیان تھے ۔ ڈاکٹر سین یات سن ( sun yat Sen ) نے سویت یونین کی مدد سے نئی آرمی بنائی ۔ دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ 1921 میں جو کیمونسٹ پارٹی (CPC ) بنی جس کے ممبر کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی اس کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ۔ اس کی وجہ سویت یونین کا کیمونسٹ پارٹی کی حمایت تھی ۔ اس طرح نیشنلسٹ پارٹی ( KMT ) میں لیفٹ اور رائٹ دو ونگ بن گئے ۔ 1925 میں ڈاکٹر صاحب کا کینسر سے انتقال ہو گیا ۔ پھر ان کے وژن کو آگے بڑھانے کےلیے ڈاکٹر صاحب کی آرمی کے ایک جنرل چن کائی شیک ( Chen Kai chik ) سامنے آئے ۔ 1926 میں انہوں نے چائنا کو اکٹھا کرنے کےلیے اپنی آرمی کے ساتھ مل کر ناردرن آپریشن شروع کر دیا ۔ تمام وار لارڈز کو شکست دے کر پورے نارتھ کو بیجنگ تک ( KMT ) کے قبضے میں کر لیا ۔
یونان ( Yunan ) صوبے نے آزادی کا اعلان کر دیا تھا ۔ سچوانی ( Sichuan ) صوبہ بہت سے چھوٹے گروہوں میں تقسیم تھا ۔ کئی وار لارڈز اچھی حکومت بھی کر رہے تھے اور کچھ بالکل مسیحی وار لارڈز کی طرح کے تھے ۔ ان وار لارڈز کے عجیب و غریب لقب رکھے گئے جیسے ” جنرل کتے کا گوشت ” ( Dog meat general ) ، دو سر والا سانپ ( two headed snake ) اور سڑا ہوا سور ( roten pig ) ۔ یہ لقب ایک اپنی اہمیت رکھتے تھے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ان کا طرز حکومت کیسا تھا ۔ وار لارڈز اپنی ذاتی فوج کی بدولت ہی طاقت میں آتے تھے نہ کہ مرکزی حکومت کی طاقت سے ۔ اور یہ اپنے خاص حمایتی ہی اپنے گرد جمع رکھتے تھے ۔ کچھ وار لارڈز نے عوام کی بھلائی کےلیے بھی کام کیے ۔ کچھ وار لاڈزر ایک دوسرے کے خلاف شاعری بھی کرتے تھے ۔ اور وہ انتہائی ذلت آمیز الفاظ ہوتے تھے .
ان تین کے علاؤہ وہ وار لارڈز بھی تھے جن کے کنٹرول میں کانسو ( Gansu ) چھن ہائی ( Qinghai ) اور ننگشا ( Ningxia ) کے مسلم صوبے تھے ۔ یہ ” ما ‘ ( ma ) وار لارڈز کہلاتے تھے ۔ ” ما ” مسلمانوں کا فیملی نام ہے ۔ یہ تینوں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان کے زیر تسلط تین الگ الگ صوبے تھے اور یہ ان کے گورنر کہلاتے تھے ۔ ان کی حکومت 1919 سے لے کر 1928 تک رہی ۔ یہاں تک کہ 1928 ریپبلک آف چائنا نے اپنے مرکزی کنٹرول کو مضبوط بنا لیا ۔ یہ ‘ ما ‘ ( ma ) فیملی ریپبلک آرمی میں فوجی جنرل تھے ۔ اور اس جھتے کی ابتدا اس نے کی جو پہلے چھن بادشاہ کی آرمی میں جنرل تھے کانسو ( Gansu ) کے بہادر کے نام سے جانے جاتے تھے ۔ چھن بادشاہت کے خاتمے کے بعد اس جھتے اپنی حمایت رپبلک حکومت کے ساتھ رکھی ۔ اور جلد ہی تبت اور منگولیا پر اپنا سفارتی اور فوجی دباؤ بڑھایا کہ وہ اس نئی بننے والی ریپبلک حکومت کو تسلیم کریں ۔ اسی آرمی نے ( KMT ) قومی تان جسے نیشنلسٹ حکومت بھی کہتے حکومت کے ساتھ مل کر سنکیانگ میں پہلی ترکستان حکومت کاشغر کی لڑائی کو ختم کیا ۔ اور اسی گروہ نے تبت کی فوج کو شکست دی ۔ یہ لوگ پھر ایک عرصہ تک کمیونسٹ حکومت کے خلاف گوریلا جنگ لڑتے رہے ۔
1912 سے لے کر 1933 تک چائنا کے اندر 700 علیحدگی کے تنازعات ( separate conflict ) اٹھے ۔ جن میں سے 500 سچوان ( Sichuan ) صوبے سے تھے ۔ کچھ لڑائیاں تو اتنی چھوٹی تھی کہ وہ اپنے علاقے تک محدود رہیں اور پریس تک بھی نہیں پہنچ سکیں لیکن وار لاڈزر اپنا زیادہ وقت جنگ ہی میں مصروف رہتے ۔ اس وقت تک کاغذات کی حد تک تو مغربی طاقتوں نے ان کی آرمی کو جدید خطوط پر منظم کرنے کی کوشش کی لیکن زمینی حالات کے مطابق یہ پرانے دور کی آرمی تھی ۔ ان وار لارڈز کا ساتھ دینے والے سپاہی وہ تھے جن کےلیے جنگ ہی روزی روٹی کا ذریعہ تھا ۔ ان سپاہیوں کو تنخواہ دینا ایک مسئلہ تھا اور جنہیں تنخواہ نہ ملتی وہ دوران جنگ ہی چھوڑ کر بھاگ جاتے تھے ۔ اس کے علاؤہ ان جھتوں میں گینگسٹرز بھی شامل رہے ۔ اور جس کی طرف سے وہ شامل ہوتے اسے مجبوراً جنگ کے دوران ان کے غلط عمل کی بھی حمایت کرنی پڑتی ۔ اس علاقے کی مقامی ابادی کو ان وار لاڈزر کو پالنے کےلیے ٹیکس ادا کرنا پڑتا ان وار لاڈزر کی آمدن کے ذرائع افیون کی فروخت بھی تھی جس سے تنخواہیں ادا کی جاتیں اور ہتھیار خریدے جاتے تھے ۔ 1916 میں ان وار لارڈز کی آرمی کی طاقت 5 لاکھ تک تھی جو 1922 میں بارہ لاکھ تک پہنچ گئی ۔ لیکن وار لاڈزر کو یہ معلوم ہوتا کہ اس تعداد میں سے صرف پچیس فیصد ہی حقیقتا لڑائی میں شریک ہوں گے ۔ باقی دوران جنگ ہی ہتھیار سمیت بھاگ جاتے اور یہی لوگ عوام کےلیے مشکلات پیدا کرتے ۔ خاص طور پر نئے فتح کئے گئے گاؤں میں یہ لوٹ مار اور قتل عام کرتے ۔ یہ وار لارڈز اپنے طور پر یورپین ممالک کی کمپنیوں سے اسلحہ خریدتے اور ان کمپنیوں کا کام صرف اپنا اسلحہ بیچنا ہوتا جو بھی قیمت ادا کرتا ۔ اس اسلحہ میں موزر پسٹل نے بہت شہرت حاصل کی ۔ مشین گنز اور آرٹلری بہت ہی کم تھیں ایک ہزار افرادی کی قوت کے ساتھ ایک ۔ اس کا اندازہ ایسے کیا جا سکتا ہے کہ جرمن آرمی کے پاس سولہ گناہ زیادہ مشین گنز تھی اور چھ گناہ زیادہ آرٹلری تھی ۔ برطانوی مارٹر گنز بہت عام تھیں اور اس کی نقل چائنیز فیکٹریاں بھی بنا رہی تھیں ۔ کچھ بکتر بند گاڑیاں ، جہاز اور آرمرڈ ٹرین بھی تھیں لیکن بہت قیمتی ہونے کی وجہ سے جنگ میں استعمال کرنے کی بجائے صرف اپنی طاقت کو شو کرنے کےلیے استعمال کی جاتی تھی ۔
1921 میں نیشلسٹ پارٹی کے سین یات سن ( Shen yat Sen ) نے بیجنگ سے الگ گوانزو میں حکومت کا اعلان کیا ۔ لیکن حقیقتا وہ بھی ان کئی وار لارڈز میں سے تھے جو طاقت حاصل کرنے کےلیے میدان جنگ میں مصروف عمل تھے ۔ لیکن وہ الیکشن کے ذریعے حکومت میں آئے ۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ باقی چائنا کو دوسرے وار لارڈز سے جنگ کر کے ہی متحد کیا جا سکتا ہے ۔ اس لیے انہوں نے 1922 ایک شمالی جنگ کی ابتدا کر دی . لیکن جنوب میں وہ ایک مضبوط حکومت وہاں کے دوسرے مقامی وار لارڈز کی وجہ سے بنا نہیں سکے ۔ کوئی بھی وار لارڈ ہو سکتا ہے کہ سارے چائنا کو متحد کرنے کا ادارہ رکھتا ہو لیکن وہ ایک پھسلتی رہتی زمین پر کھڑا تھا ۔ اس کے اپنا گروہ بھی اس کےلیے اتنا ہی خطرناک تھا جتنا کہ دشمن کیونکہ متحدہ ملک کے اندر وار لارڈز جیسے آزادی نہیں رکھ سکتے تھے ۔ اس کے معنی یہ تھے کہ 1921 کے بعد بھی اس وار لارڈز کے دور کو ختم کرکے ایک متحدہ حکومت تشکیل دینے کےلیے بہت شدید اور لمبی جنگ کی ضرورت تھی ۔
۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply