گالی دینا کیسا ہے ؟۔صاحبزادہ امانت رسول

(دوسال قبل، ایک سوال کے جواب میں لکھی جانے والی تحریر)

سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ عرفِ عام میں گالی اور دشنام کسے کہتے ہیں۔ کسی بری صِفت کا دوسرے کی طرف منسوب کرنا جبکہ وہ حقیقت میں نہ ہو’گالی کہلاتا ہے ۔ایک لحاظ سے گالی جھوٹ پر مبنی بات ہوتی ہے ۔سورة القلم میں اللہ تعالیٰ نے ایک مشرک اور اسلام کے بدترین دشمن کے چند برے خصائل گنوائے ہیں اور آخر میں فرمایا:
عُتُلٍّ بَعدَ ذَالِکَ زَنِیمٍO (سورة القلم: 13)
درشت خو اس سب پر طرّہ یہ کہ اس کی اصل میں خطا (ترجمہ مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمة اللہ علیہ)
مولانا نعیم الدین مرادآبادی رحمة اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :”یعنی بد گوہر تو اُس سے افعالِ خبیثہ کا صدور کیا عجب ۔مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ولید بن مغیرہ نے اپنی ماں سے جا کر کہا کہ محمد(مصطفےٰ ﷺ) نے میرے حق میں  10  باتیں فرمائی ہیں 9 کو تو میں جانتا ہوں کہ مجھ میں موجود ہیں لیکن دسویں بات اصل میں خطا ہونے کی، اُس کا حال مجھے معلوم نہیں یا تو مجھے سچ سچ بتا دے ورنہ میں تیری گردن مار دوں گا۔اس پر اُس کی ماں نے کہا کہ تیرا باپ نامرد تھا مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ مر جائے گا تو اُس کا مال غیر لے جائیں گے تو میں نے ایک چرواہے کو بُلا لیا، تُو اُس سے ہے۔“

اب اللہ نے (نعوذ باللہ) گالی نہیں دی۔ گالی تب ہوتی اگر وہ حرامی نہ ہوتا اور اُسے حرامی کہا جاتا۔ اللہ تعالیٰ عالم الغیب و الشہادة ہے۔ اس نے حقیقت حال کو بیان کیا ہے کیونکہ ولید بن مغیرہ نفس الامر میں حرامی ہے، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں جن الفاظ کا ذکر آتا ہے تو ان سے بھی حقیقت حال کا بیان ہے ناں کہ وہ ”گالی“ ہے۔کیونکہ آپ ﷺ کو وحی کے ذریعے حقیقت حال سے باخبر کر دیا جاتا تھا۔

سورة القلم کے آغاز میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر علیہ السلام سے فرماتا ہے ”مَا انتَ بِنِعمَةِ رَبِّکَ بِمَجنُونٍO وَانّٙ لَکَ لَاجرًا غَیرَ مَمنُونٍO“تو اپنے رب کے فضل سے دیوانہ نہیں اور یقینا تیرے لیے نہ ختم ہونے والا اجر ہے اس سے آگے فرمایا: ”وَانّک لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیمٍO“ اور تو یقینا بلند اخلاق کا مالک ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق عظیمہ کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے دشمنِ اسلام کا ذکر کیا ہے۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ سورة کے آغاز میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی فضیلت و عظمت کو اخلاق عظیم کے حوالے سے بیان فرماتا ہے اور کچھ آیات کے بعد ، ایک کافر و مشرک کو (بقول مولانا)گالیاں دیتا ہے۔
”افَلاَ یَتَدَبَّرُونَ القُرآنَ وَلَو کَانَ مِن عِندِ غَیرِ اللّہِ لَوَجَدُوا فِیہِ اختِلاَفًا کَثِیرًا“ (سورة النساء: 82)
پھر کیا قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے اگر یہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو اس میں وہ بہت اختلاف پاتے۔

رسول اللہ ﷺ کا اخلاق عظیم یہ ہے کہ یہودیوں نے سلام کے بجائے سام بولا تو حضرت عائشہ نے ان کی اس جسارت پر فرمایا السام علیکم ولعنکم اللہ و غضب علیکم (تم پر موت، اللہ کی لعنت اور غضب ہو) مگر آپ ﷺ نے منع فرما دیا جبکہ یہ ایسا موقع تھا کہ جس وقت آپ کچھ نہ کچھ فرما سکتے تھے لیکن آپ نے وعلیکم فرمایا یہ بھی حقیقت حال ہی کا بیان ہے یعنی جو تم مجھ پر بھیج رہے ہو اگر یہ اتنا اچھا اور پسندیدہ ہے تو میں تمہیں واپس لوٹا رہا ہوں۔ اس سے بڑھ کر کچھ نہ فرمایا اور نہ ہی کسی کو کہنے دیا۔؎

دُکھ اس بات کا ہے کہ مولانا یہ دلیل اپنے مخالف مسالک کے علماء، مفتیان کرام اور اُن کی عوام کے خلاف پیش کرتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ ان مشرکوں، کافروں اور گستاخوں (جن کا کفر و عداوت روزِ روشن سے بھی زیادہ واضح تھا) کو دشنام و گالی نہیں دیتے لیکن اِن صاحب کی جسارت اور جرات دیکھیئے کہ وہ قرآن و حدیث کو بنیاد بنا کر اپنے مسلمان بھائی کو گالی دینا جائز سمجھتے ہیں جسے ویسے بھی گالی دینا شدید ممنوع اورحرام ہے جس پر ثقہ اور مستند احادیث موجود ہیں۔اگر یہی ایذا رسانی کا رویہ مخالف مسالک کے علماءو خطباءاختیار کرتے ہیں تو وہ بھی قابلِ مذمت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اِن علماءو خطباءسے پوچھیئے! آپ کے پاس اس کے علاوہ گفتگو کا کوئی اور میڈیم بھی ہے؟ آخر کار، آپ دین کے خادم ٹھہرے، کیا دینِ اسلام میں کوئی ایسی ہدایت و راہنمائی نہیں جس کی روشنی میں آپ ایسا اندازِ گفتگو اختیار کریں جس سے مسلمان بھائیوں میں باہمی نفرت و تفرقہ کے بجائے محبت و اتحاد پیدا ہو جس سے آپ کے باہمی اختلافات کا کوئی حل سامنے آئے۔آپ کا دین بقول اقبالؒ
دینِ ملّا فی سبیل اللہ فساد
نہ کہلائے بلکہ معاشرے میں ،آپ کی تحریر و تقریر سے امن ، سکون اور عافیت کا ماحول پیدا ہو پاکستانی قوم بھی سُکھ کا سانس لے اور آپ کو ڈھیر ساری دُعائیں دے!

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply