عامر لیاقت سے کیا سیکھیں؟۔۔ انعام رانا

بہت برس ہوتے ہیں کہ معروف اداکار دلیپ کمار مرحوم کا ایک وڈیو کلپ دیکھا۔ یوسف خان کہ جسے فن نے دلیپ کمار بنا کر برصغیر میں دلوں کا کمار بنا دیا تھا انتہائی عجز سے ایک بڑا فلسفہ بیان کر گئے۔ کہا کہ “فنکار کیلئے سب سے بڑی آزمائش شہرت کا نشہ ہے۔ کیونکہ اگر یہ سر کو چڑھ جائے تو فنکار کہیں کا نہیں رہتا۔ وہ ہر وقت اس نشے کو مزید اور شدید کرنے کی خواہش میں تنہائیوں کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ بہت سے فنکار ہمارے دور ہی کے تھے کہ جب شہرت کا نشہ ٹوٹنے لگا تو پھر شراب اور دیگر نشوں میں خود کو غرق کر دیا اور ڈوب گئے”۔

پاکستان میں پرائیوٹ میڈیا چینلز کے آنے کے بعد سب سے بڑا انٹرٹینر عامر لیاقت ہی بنا۔ وہ ہنسا تو لوگ ہنسے، وہ رویا تو لوگ روئے۔ اس کی ورسٹیلٹی (ہمہ جہتی) اور آڈینس کنٹرول کا یہ عالم تھا کہ افطار سے لمحوں قبل وہ آڈینس کو مغفرت کی طلب میں رُلا دیتا تو افطار کے فوراً بعد انکو نچا دیتا تھا اور پوچھتا بھی تھا کہ آم کھاؤ گے آم؟

اسکی شہرت کی بلندی کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی افطار ٹرانسمیشن کیلئے چینل خریدتا تھا۔ کون سا بڑا چینل تھا جسے اس نے اپنی شرطوں کے مطابق “ہائر” نہ  کیا اور جو اسکی شرطوں کے مطابق میسر ہونا ایک تمغہ نہ  سمجھتے تھے۔ مگر پھر شہرت کا نشہ سر چڑھنے لگا۔ سیانے کہتے ہیں کہ مسلسل کامیابی بھی بڑی آزمائش ہے کہ کبھی کبھار کی ناکامی آپکو انسان بنائے رکھتی ہے، دیوتا نہیں بننے دیتی۔ مگر مذہب، انٹرٹینمنٹ، سیاست، سوشل میڈیا؛ اس نے جہاں بھی قدم رکھا فقط کامیاب ہوتا چلا گیا۔ اسکے پاس عوام کی سائیکی کو سمجھنے کی صلاحیت تھی، وہ وہی کچھ کرتا گیا جو عوام چاہتی ہے، وہ ویسا ہی تھا جیسی اسکی مداح عوام تھی۔ شہرت و کامیابی کے نشے نے جب دیوتا بنانا شروع کر دیا تو سنگھاسن برقرار رکھنے کیلئے وہ ایسی حرکات کرتا چلا گیا جو شہرت کے محتاجوں کی مجبوری ہوتی ہے۔ شہرت کی دیوی، صاحبو! سر بھی مانگ لیتی ہے اور کم سے کم بھی کردار پہ راضی ہوتی ہے۔
انجام یہ تھا کہ اب جو وہ رویا تو لوگ ہنسنے لگے۔

شہرت، دولت، کامیابی پہلا خناس مرد کے دماغ میں عورت کے حوالے سے بھرتے ہیں۔ اسے دکھوں کی ساتھی، بچوں کی ماں بیوی آؤٹ ڈیٹڈ لگنے لگتی ہے۔ وہ نئی عورت کو تسخیر کرنے کی خواہش کرتا ہے کہ اب اسکے پاس بہتر اور نئے ہتھیار ہیں۔ لیکن اکثر اسکے ہاتھ وہ لومڑی آتی ہے جو موقع ملتے ہی دانت گردن میں اتار دیتی ہے۔ اشفاق احمد کا دیگر ادب تو ہے ہی، انھوں نے ایک بہت کمال کا سفرنامہ لکھا تھا۔ اپنی منڈلی “چھڈ یار” کے زیر اہتمام ہوئے ایک شمال کے سفر کی داستان، “سفر در سفر”۔ ایک جگہ اپنے کسی استاد کا واقعہ لکھا جسے پچھلی عمر میں ایک نوجوان عورت سے عشق ہو گیا۔ وہ استاد اک بار کہنے لگا “یاد رکھ پچھلی عمر کا عشق جان لے کر ہی ٹلتا ہے”۔ ڈاکٹر انور سجاد ، اداکار ننھا، عظیم ہدایت کار گُرو دت اور اب عامر لیاقت؛ کتنی ہی مثالیں ہیں جو نئی عورت کی تسخیر کے چکر میں، پچھلی عمر کے عشق کی تلاش میں رسوائی کا شکار ہوئے۔ انسان دراصل اپنے انجام میں تنہا ہے، مگر “وقتی ابال” کی خاطر رشتوں کی ناقدری کرنے والے بقیہ عمر بے سکونی میں ہی گزارتے ہیں اور عبرت بھری تنہا موت کا شکار ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عامر لیاقت انٹرٹینر اپنے رب کے حضور پہنچے، رب ان کیلئے بہت آسانیاں کرے۔ بطور فنکار ان سے کچھ سیکھنا چاہیے یا نہیں، انکی مختصر سی عمر یہ دو سبق ضرور تازہ کر گئی کہ ہمیشہ عجز اختیار کیجیے اور شہرت (کامیابی و دولت بھی) کی دیوی کو پہلو میں بیٹھنے کی اجازت تو دیں مگر کبھی سر نہ  چڑھنے دیں۔ دوسرا کبھی بھی اپنے رشتوں کی ناقدری کرتے ہوئے انجانی مسرتوں کے فریب میں کسی کھائی میں مت گریں۔ وگرنہ آپ روئیں گے اور زمانہ ہنسے گا۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”عامر لیاقت سے کیا سیکھیں؟۔۔ انعام رانا

Leave a Reply