کہانی ختم ہوئی۔۔۔فاخرہ گُل

ڈاکٹر عامر لیاقت کو میں نے پہلی مرتبہ عالم آن لائن میں دیکھا تھا ، بڑی سنجیدگی سے مذہبی معاملات پر انتہائی با ادب گفتگو ، درود شریف نہ صرف خود پڑھنا بلکہ پروگرام کے اوّل و آخر دیکھنے والوں کو بھی ایک بار محبت سے درود شریف پڑھ لیجیے کی تلقین اور اختتام سے پہلے نعت پڑھنا۔۔
اُنکے بولنے کا شُستہ انداز اور الفاظ میں تاثیر نے دل میں ایسی جگہ بنائی کہ میں کوئی پروگرام مِس نہ کیا کرتی۔اپنی اسی جذباتی وابستگی کے متعلق میں نے ایک مرتبہ فیسبک پر لکھا بھی تھا۔پھر بہرحال ہم سب انسان ہیں اور زندگی میں کچھ نہ کچھ اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے لیکن اس کے باوجود اللہ سے ہمیشہ اُنکی ہدایت اور معافی کیلئے ہی دعا کی۔

ایک انٹرویو میں عامر لیاقت کی زبانی اُنکی زندگی کا یہ واقعہ سُنا جو شاید کم لوگوں کے علم میں ہو گا کہ ظفر اللہ خان جمالی کے دورِ حکومت میں اُنکے وفد میں سے کسی کو بھی خانہ کعبہ کی اندر سے زیارت کرنے کی اجازت نہ ملی لیکن دوسری صبح ناشتے کے وقت سعودی عملے کے ایک فرد نے آ کر بتایا کہ آپ میں سے جس شخص کا نام عامر ہے صرف اُسے خانہ کعبہ کو اندر سے زیارت کرنے کی اجازت دی جائے گی اور وہ بھی ا س لیے کہ اُنکے کسی عہدے دار کو خواب میں عامر لیاقت کا نام لے کر کہا گیا ہے کہ اُسے ضرور زیارت کروائی جائے۔
لیکن پھر عامر لیاقت کی درخواست پر پورے وفد کو بھی اجازت ملی اور سب نے زیارت کی ۔ اس واقعے کے گواہان کے طور پر اُنہوں نے چند افراد کے نام بھی لئے کہ اگر کوئی ان باتوں کی تصدیق کرنا چاہے تو فلاں فلاں سے کی جا سکتی ہے۔

عامر لیاقت کی زبانی یہ واقعہ سُنتے ہوئے حقیقتاً  اُس دن میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھےاور اتنی بڑی سعادت اور اُن پر اللہ کی اس حد تک کرم نوازی پر مجھے اُنکی قسمت پر رشک کیساتھ ساتھ رونا بھی آیا کہ اللہ نے تو اُنہیں اتنا رُتبہ عطا فرما دیا ،اب کاش یہ اس مقام کو سنبھال لیں تو کیا سے کیا بن جائیں۔
لیکن ظاہر ہے ہم سب بطور انسان خطا کے  پُتلے ہیں اور اللہ یقیناً ان خطاؤں کو معاف کرنے پر قادر ہے۔

اللہ نے اُنہیں بے انتہا ذہانت اور کمال یاداشت سے نوازا تھا ، میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ وہ اس ذہانت کو استعمال کر کے کچھ ایسا کام کریں کہ جو اُنکی ذہانت کے شایانِ شان ہو۔اور جب چند ماہ قبل ہم تمام مومنین کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ  عنھا پر اُنکی لکھی گئی ایک ضخیم کتاب سامنے آئی تو بے انتہا خوشی ہوئی تبھی اس بات کا بھی علم ہوا کہ اس کتاب سے پہلے وہ اُم المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ  رضی اللہ  تعالیٰ  عنھا پر بھی کتاب لکھنے کی خوش بختی حاصل کر چکے ہیں۔

2014  میں اُنہیں دنیا کی پانچ سو با اثر ترین مسلمان شخصیات کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا تھا۔اور یہی نہیں بلکہ عامر لیاقت نے مذہبی امور کے وزیر کے طور پر، خود کش حملوں کے خلاف فتویٰ جاری کرنے کے لیے پاکستان اٹھاون مذہبی علما کو اس بات پر قائل کیا کہ مساجد اور عبادت کے دیگر مقامات پر حملے، پلانٹڈ  بم اور خود کش بم دھماکے غیر اسلامی قرار دئیے جائیں اور پھر اس متعلق عامر لیاقت ہی کی کوششوں سے متفقہ فتویٰ  بھی جاری کیا گیا۔

بعد ازاں بطور مذہبی وزیر ایک موقعے پر اُنہوں نے ختمِ نبوت پر کسی بھی قسم کی مصالحت سے کام لینے کے بجائے س ل م آ ن رش د ی کے خلاف بیان دیا جس پر ایم کیو ایم قیادت کی ناراضگی کے باعث مذہبی امور کی وزارت اور پھر قومی اسمبلی کی رکنیت سے بھی استعفی دے دیا ،البتہ بعد میں ان کی رکنیت بحال کر دی گئی تھی۔

ایم کیو ایم کے بعد اُنہوں نے تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی اور قومی اسمبلی کے ممبر بنے مگر قیادت کے رویے کے باعث ہمیشہ دل گرفتگی کا شکار رہتے۔تیسری اہلیہ سے علیحدگی اور پھر اپنی کردارکشی کا ذمہ دار بھی وہ اپنے ٹوئٹس اور انٹرویوز میں عمران خان اور اُنکی جماعت کو ہی ٹھہرایا کرتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عامر لیاقت کا نام ایک برینڈ تھا ، وہ ٹرینڈ سیٹر تھے ، جس طرف بھی جاتے دھوم مچا دیتے ، رمضان ٹرانسمیشن ہو یا گیم شو ، ٹاک شو ہوتے یا نیوز پروگرام اُنکا نام بِکتا تھا ، مٹی کو ہاتھ لگاتے تو سونا کر دینے والی اہلیت سے نوازے گئے ، اللہ نے اُنہیں اتنی شہرت عطا کی تھی جو بے شمار لوگوں کا خواب ہو سکتی ہے اسی شہرت کے ساتھ کچھ تنازعات کا بھی شکار رہے لیکن آج جب وہ اپنی زندگی کا سفر ختم کر کے اللہ کے حُضور حاضر ہو چکے ہیں تو ہماری دعا ہے کہ ابدی زندگی میں اُنکا حوالہ نعت خوان ، اور ایسے مصنف کا ہو جس نے امہات المومنین رضی اللہ  تعالیٰ  عنھما کی حیاتِ اقدس کے متعلق انتہائی خوبصورت ہدیہ عقیدت پیش کرنے کی جسارت کی
بیشک میرا رب بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply