• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سیرت طیبہ کے تناظر میں، اسلامی ریاست کے سربراہ کے دو مختلف فیصلے

سیرت طیبہ کے تناظر میں، اسلامی ریاست کے سربراہ کے دو مختلف فیصلے

مستشرقین کی اکثریت سیرت پیغمبر اسلام کے مطالعے کے دوران ایسی باتوں کی تلاش میں رہتی ہیں جن کی بنا پر اسلام اور پیغمبر اسلام پر اعتراضات کیے  جا سکیں. اسی سلسلے کے واقعات میں رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ فیصلہ بطور خاص زیر بحث لایا جاتا ہے  کہ ایک طرف آپ نے مدینہ میں آباد بنو قریظہ  کے  یہود  کے مردوں کو تہہ تیغ کروا دیا اور دوسری طرف اہل مکہ کو، جو تیرہ سال آپ کو مکہ میں ستاتے رہے اور اس کے بعد مدینہ کے آٹھ سال  آپ ﷺ کو اور آپﷺ  کے خاندان اور تمام مسلمانوں کو اذیت دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، فتح مکہ کے موقع پر نہ صرف معاف کر دیا بلکہ انہیں بعد میں حاصل ہونے والے مال غنیمت سے حصہ دے کر مالا مال کر دیا. اس کی بظاہر اور کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ یہود غیر تھے اور مکہ والے اپنا خاندان اور اس کے پیچھے معاذ اللہ عدل و مساوات کے بجائے خاندانی عصبیت تھی. ان واقعات کا موازنہ مستشرقین اتنی دلسوزی اور غیر جانبداری سے کرتے ہیں کہ بسا اوقات اہل ایمان کو بھی محسوس ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اور کیا یہ اچھا نہیں تھا کہ ایسا نہ ہوتا؟

آئیے ان دو مختلف فیصلوں کے پس پردہ سیاسی دانش کا جائزہ لیتے ہیں.
مدینہ میں یہود کے تین بڑے قبائل آباد تھے، بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ. ان تینوں قبائل کے اسلامی ریاست کے ساتھ معاہدے تھے اور یہ اس ریاست کے شہری تھے. لیکن انہوں نے یکے بعد دیگرے بدعہدی کی جس کے نتیجے میں بنو قینقاع اور بنو نضیر کو جلاوطن کر دیا گیا. ان کی جلاوطنی کے بعد یہود کا ایک قبیلہ بنو قریظہ مدینہ میں رہ گیا تھا. بنو نضیر مدینہ چھوڑ کر خیبر میں آباد ہوگئے، اپنی تمام منقولہ جائیداد  ساتھ لے گئے تھے. وہاں پہنچ کر ان کے رئیس حیی بن اخطب نے مسلمانوں سے انتقام لینے کا بیڑا اٹھایا اور سارے عرب کے غیر مسلم، غیر معاہد قبائل کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے تیار کیا اور تمام جنگی اخراجات اور نقصانات کی تلافی کا معاہدہ کر کے ابوسفیان کی قیادت میں دس ہزار فوج کو لاکر مدینہ کا محاصرہ کروا لیا. مسلمانوں نے مدینہ کے تحفظ کے لئے مدینہ کے گرد کھلے علاقے میں پانچ میل لمبی خندق کھود کر دفاع کا انتظام کیا. حیی بن اخطب کا بنو قریظہ سے مسلسل رابطہ تھا اور شروع میں وہ معاہدے کی خلاف ورزی کے لیے تیار نہیں تھے لیکن اتنی بڑی فوج کو دیکھ کر وہ بھی رسول اللہ سے آمادہ پیکار ہو گئے. رسول اکرم نے چار صحابہ کرام کو بھیج کر معلوم کیا تو رپورٹ ملی کہ وہ معاہدے پر عملدرآمد نہیں کریں گے.

سنگینی کا اندازہ اس سے کیجیے  کہ بنو قریظہ کے قلعے مدینہ سے پیدل پانچ چھ گھنٹے کی مسافت پر تھے اور اس طرف خندق تھی نہ کوئی دفاعی انتظام. اطلاع ملی کہ بنو قریظہ کی طرف سے بیرونی حملہ آوروں کے دو ہزار افراد داخل ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہو جائیں گے جہاں صرف عورتیں، بچے اور معذور افراد تھے. رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانچ سو افراد کا ایک جتھہ رات کو مدینہ کے گشت پر مامور فرما دیا جس کی وجہ سے وہ پلان کامیاب نہ ہوا. بیرونی حملہ آور طویل محاصرے، دوبدو جنگ نہ ہونے، رسد کی کمی سواریوں کی روزبروز واقع ہونے والی قلت اور ایک روز شدید آندھی کے باعث مہم نامکمل چھوڑ کر لوٹ گئے.

جنگ ختم ہو گئی لیکن اللہ نے حکم دیا کہ بنو قریظہ سے جنگ کی جائے. بنو قریظہ قلعہ بند ہو گئے لیکن محاصرے کی شدت کے ساتھ ساتھ مختلف پیش کشیں کرتے رہے. ان کا خیال تھا کہ انہیں بھی بنو نضیر والی رعایت مل جائے گی لیکن جب وہ ہتھیار ڈال کر باہر  آگئے تو ان کے حلیف سعد بن معاذ نے فیصلہ کیا کہ ان کے جوان مرد قتل کر دئیے جائیں اور عورتوں بچوں کو غلام بنا لیا جائے. مسلم مورخین بالعموم بنو قریظہ کے مقتولین کی تعداد 500 بتاتے ہیں. یہودی جو تاریخ نویسی اور قومی وقائع نگاری میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے صدیوں تک اس واقعہ کی تفصیلات اور مقتولین کی تعداد کے بارے میں خاموش رہے. ہمارے عہد کے مسلم اور یہود تاریخ نگاروں نے اسے یہود کے قتل عام سے تعبیر کیا اور کچھ لوگوں نے پیغمبر اسلام کی رحمت للعالمینی پر بھی سوال اٹھایا.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بنو قریظہ کو معاف کیوں نہیں کیا گیا تو سابقہ تجربات سامنے تھے کہ بنونضیر کو معاف کرنے کا نتیجہ غزوہ خندق کی شکل میں ظاہر ہوا. انہیں معاف کر کے اس سے بڑے فتنے کو دعوت دینا ہر گز دانشمندی کا تقاضا نہیں تھا.رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم تو پیغمبرانہ دانش کے ذریعے امور ریاست چلا رہے تھے، ایک معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا سربراہ ریاست بھی ان حالات میں ایسے فتنہ جو افراد کو معاف کر کے مزید کھل کھیلنے اور اپنی ریاست اور شہریوں کی زندگیوں کو معرض خطر میں ڈالنے کی غلطی نہیں کر سکتا. یہودی مورخین بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ یہ کاروائی یہود کے خلاف نہیں تھی کیونکہ اس کے بعد بھی مدینہ منورہ میں درجنوں یہودی خاندان برسوں امن و سکون سے رہے، نہ انہیں کوئی خوف تھا اور نہ کسی نے پریشان کیے. یہ صرف بغاوت کو فرو کرنے کا عمل تھا.

دوسری طرف عرب کے قبائلی معاشرے میں قریش اور مسلمانوں کے اختلاف کو بیشتر عرب قبائلی پس منظر کے تناظر میں دیکھ رہے تھے اور اکثریت کی رائے میں یہ ایک قبیلہ کے اندر سربراہی، اقتدار اور تجارتی مفادات کے حصول کی کشمکش تھی. وہ “انتظار کرو اور دیکھو” کی پالیسی اپنائے ہوئے تھے اور اپنی روایات کے مطابق انہوں نے آخر میں غالب فریق کی حمایت کرنا تھی. 8 ہجری میں جب مکہ کسی مزاحمت کے بغیر سپر انداز ہو گیا تو اس کا فطری نتیجہ یہ تھا کہ اب سارے عرب نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا. اس موقع پر رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے دو راہیں تھیں. مکہ والوں کو ان کے ماضی کی سزا دی جائے یا انہیں معاف کر کے ممنون احسان کیا جائے. پہلا طرز عمل اختیار کرنے سے سارے عرب میں یہ پیغام جاتا کہ مسلمان وحشی اور ظالم ہیں. مزاحمت کے بغیر سپر انداز ہونے پر بھی جان بخشی نہیں کرتے تو کیوں نہ مزاحمت کی جائے، نتیجتاً سارا عرب جنگ کی بھٹی بن جاتا اور کہیں کسی کی بھی جان محفوظ نہ ہوتی. آپ نے دوسری راہ اختیار کر کے نہ صرف مکہ والوں کی دشمنی پر حرف تمت لکھ دیا بلکہ پورے عرب کو بھی یہ پیغام دیا کہ
“جو ہتھیار رکھ دے اسے امان ہے”

Advertisements
julia rana solicitors

اس عام معافی کے پس منظر میں خاندانی عصبیت نہیں بلکہ پیغمبرانہ دانش، داعیانہ اخلاص اور بلند پایہ سیاسی تدبر کارفرما تھا.
یہی وجہ ہے کہ فتح مکہ کے فورا بعد مدینہ میں وفود کا تانتا بندھ گیا اور سارا عرب سرنگوں ہو گیا. عرب اسے ایک قبیلہ کے ایک فریق کی برتری سمجھ کر اسلامی ریاست کے شہری بنے تھے. قرآن نے اسی کو بیان کرتے ہوئے کہا :عرب بدو کہتے ہیں، ہم ایمان لے آئے ہیں، انہیں بتا دیں کہ وہ ایمان نہیں لائے بلکہ انہوں نے صرف بالادستی قبول کی ہے. یہی وجہ ہے کہ آپ کے وصال کے فورا بعد سارا عرب بغاوت کے سیلاب کی نذر ہو گیا.
ایک دوسرا سوال یہ ہے کہ
فتح مکہ کے موقع پر آپ نے چند افراد کو نامزد کیا تھا کہ وہ معافی کے مستحق نہیں ہیں. اس فیصلے سے جو نتائج بالخصوص ہمارے عہد کے ارباب فقہ وقانون نے اخذ کئے ہیں وہ دقت نظر سے تنقیح طلب ہیں. ان کی جذباتی تشریح اسلامی فلسفہ قانون سے مطابقت نہیں رکھتی.

Facebook Comments

ڈاکٹر طفیل ہاشمی
استاد، ماہر علوم اسلامی، محبتوںکا امین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply