جیون رس کی طغیانی اور شادی کی عمر۔۔سیّد محمد زاہد

تمام انواع کی طرح انسان بھی دو صنفوں کی صورت میں پیدا کیا گیا۔ یہ زوجین دوسرے جانداروں کی طرح ایک دوسرے کی جانب طبعی میلان رکھتی ہیں۔ حیوانوں میں یہ میلان صرف بقائے نوع کے لیے ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی جبلت میں اسے ایک ایسی قوت ضابطہ کا طابع بنا دیا گیا ہے جو انہیں صنفی تعلق میں مقرر کردہ حدود سے باہر نکلنے نہیں دیتا۔ اس قوت ضابطہ کی وجہ سے ان میں جنسی رغبت صرف مخصوص موسم اور مخصوص ایام میں ہی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے بر عکس انسان میں یہ میلان تمام دوسری انواع سے زیادہ، لامحدود اور غیر منضبط ہے۔ اس کے لیے وقت، موسم یا عمر کی کوئی قید نہیں۔ جنسی ضروریات کے علاوہ انسانوں میں قلبی لگاؤ، عشق و محبت اور صنفی کشش کے غیر محدود اسباب اور تر غیبات بھی موجود ہیں۔ انسان کا وجود شعور و لمس و لذت کے ان گنت حواس و بد حواسیوں کا مجموعہ ہے۔ اس کے جسم کی بناوٹ، شکل وصورت، رنگ و روپ اور اعضا کا تناسب بلکہ آواز، رفتار، انداز و اطوارغرض ان سے متعلقہ ہر چیز میں جنس مخالف کے لیے کشش ودیعت کر دی گئی ہے۔ ان کے ساتھ موج ہوا ، آب رواں، خس و خاشاک، گل و گلزار، شب ماہ کی نزاکتیں ، سنہری دن کی لطافتیں، غرض دھرتی و آکاش میں موجود جمال فطرت کے مظاہر اور حسن کائنات کے جلوے سب انسان کے اس جذبہ پر بالواسطہ یا بلا واسطہ اثر انداز ہوتے ہیں۔
انسان کے جسمانی نظام کا جائزہ لیا جائے تو اس کے جنسی غدود ہارمون پیدا کرکے اس میں جنس مخالف کی خواہش و کشش پیدا کرتے ہیں۔ وہی ہارمون اس میں جسمانی طاقت اورقوت عمل کو بھی بڑھاوا دیتے ہیں۔ یہی جیون رس صنفی تعلق کی قوت پیدا کرتا ہے اوراس کے سپرد یہ خدمت بھی سونپی گئی ہے کہ انسان کو چستی ، توانائی، ذہانت اورعمل کی طاقت بھی مہیا کرے۔ یہ شہوت کو ابھارتے ہیں اور جذبات کی نشونما کرنے کے لیے حسن و روپ اور پھبن و سج دھج کے گونا گوں آلات مہیا کرتے ہیں۔ یہی ہارمون ان آلات سے متاثر ہونے کی صلاحیت و قابلیت اس کے کانوں اوراس کی شامہ و لامسہ حتیٰ کہ اس کی خرد و فہم میں اجاگر کرتے ہیں۔
قدرت کی سب سے اعلیٰ و ارفع تخلیق میں موجود یہ قوت اس میں دو طرح کی تحریکیں پیدا کرتی ہیں۔ ایک اسے اپنے وجود کی حفاظت اور اپنی ذات کی خدمت کو اہم گردانی ہے اور دوسری اپنے مقابل کی صنف سے تعلق قائم کرنے کو مجبور کرتی ہے۔
دونوں محرکات کا جائزہ لیا جائے تو کچھ اہم سوال سامنے آتے ہیں۔ کیا ہارمونز کا یہ ذخیرہ، جیون رس کا جوش بھرا چشمہ محض نوع انسانی کی بقا کے لیے ہے؟ کیا یہ سب صرف تناسل کی ضروریات پوری کر کے بچے پیدا کرنے کے لیے ہے؟ اس کام کے لیے تو چند قطرے ہی کافی تھے۔
تو کیا اس دریا کو صرف لذت و لطف کشید کرنے کے لیے موجزن کیا گیا ہے؟ اس کے لیے بھی اس رقیق مادے کی چند بوندیں خون میں شامل کر دی جاتیں تو انسان کی عمر بھر کے خواہشات پوری ہو جاتیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ ہارمونز کا یہ دریا چڑھتی عمر میں سب سے تیز بہتا ہے۔ اس کی موجیں آغاز جوانی میں زیادہ زورآور ہوتی ہیں۔ اسی عمر میں یہ پتھروں اور چٹانوں سے ٹکرا کر شور مچاتا ہوا اپنے لیے نئے راستے تلاش کرتا ہے۔ اس عمر میں جیون رس کی طغیانی کے باعث صنفی میلان کی رغبت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن اسی عمر میں یہ جیون رس ہڈیوں کو مضبوطی فراہم کرکے وہ مضبوظ ڈھانچہ مہیا کرتا ہے جس کے اوپر بقیہ ساری زندگی کا خوبصورت محل تعمیر ہوتا ہے۔ پھر اس زندگی میں نرم نکھار، سجل دھج اور سگندھ شامل کرکے اسے روپ کا شاہکار بنا دیتا ہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے جسے عروج حاصل کرنے کے لیے سال ہا سال درکار ہوتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس زندگی کو رونق عقل و فہم بخشتی ہے۔ انہی ہارمونز کی بدولت عقل اور صدیوں سے سیکھا ہوا علم موجودہ انسان میں منتقل ہو کراسے اشرف المخلوقات کی سیج پر بیٹھنے کے قابل بناتا ہے۔ اسی عمر میں قوت مقاومت بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے کہ جسمانی طاقت اورکمال درجہ کی شہوانی قوت کے اس دریا کے سامنے تمدن کا بند باندھ کر نسل انسانی کو مقام محمود پر بٹھا دیتی ہے۔
اور یہی فطرت کا مقصد رہا ہے۔
اسی کے حصول کو ممکن بنانے کے لیے اس کے خون میں چند قطروں کی بجائے پورا دریا انڈیل دیا گیا ہے۔ جنسی ملاپ اور بقائے نو اگر مقصود ہو تو اس کا بہترین موقع وہی ہوگا جب دریا زور و شور سے موجزن ہو لیکن اگر متمدن انسانوں کا ایک معاشرہ تشکیل دینا مطمع نظر ہو تو پہلے انسان کو بہترین شکل وصورت اور عقل و فہم سے لیس کرنا ہو گا پھر اسے اس راہ پر چلنے کا موقع ملنا چاہیے۔ وہ سماج کی اخلاقی اقداراور سوسائٹی کی ضروریات سے مکمل طور پر آگاہ ہو جائے تو اسے معاشرہ میں ایک نیا یونٹ بنانے کو موقع دیا جاسکتا ہے۔ اس کا مکمل جسمانی اور ذہنی ارتقا ہو جائے تو پھر وہ ایک اچھی اور صحت مند نسل پیدا کرکے اسے معاشرے کا ایک مفید شہری بنا سکے گا۔
چھوٹی سی عمر میں جب اسے خود پتا نہیں ہوتا کہ یہ منہ زور دریا اسے کس گھاٹی یا کھوہ میں پٹخ دے گا، اس کی زندگی کو کس گرداب میں الجھا دے گا، کس منجھدار میں ڈبو دے گا اس عمر میں اس کی شادی کی اجازت دے کر اگر یہ معاشرہ اسے تباہی و بربادی کے راستے پر گامزن کرنا چاہتا ہے تو یہ بچے انسان نما جانور پیدا کرتے کرتے چند سالوں میں خود بھی برباد ہو جائیں گے اور وہ انسان نما جانورمتمدن معاشرے کا فرد بننے کی بجائے نئے جنونیوں کو ایندھن فراہم کر کے نسل در نسل تباہی مچاتے رہیں گے۔

Facebook Comments

Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power. He is a practicing medical doctor.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply