پروفیسر بھیم سنگھ: ناکام سیاستدان ، کامیاب قانون دان(2)۔۔افتخار گیلانی

مطلقہ اور بنگلہ دیشی شوہر کے طرف سے گھر چھوڑ کر چلی جانے کے لئے مجبور کردی گئی روبی جعلی دستاویزات کے ذریعہ دہلی سے کراچی جانے کی کوشش کررہی تھی۔26 جولائی 2004 کو نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر اترنے کے بعد اسے جو شخص دہلی لے کر آیا تھا اس نے راجستھان جانے والی ایک ٹرین پر بچوں کے بغیر ہی اسکو سوار کردیا۔ اپنے بچوں کو نہ پاکر وہ گھبرا گئی اور اسی گھبراہٹ اور افراتفری میں پولیس کے ہتھے چڑھ گئی۔اسکے نالے شقی القلب انسان کا کلیجہ بھی چھلنی کردیتے تھے۔ مصنف اور صحافی ظفر چودھری کے مطابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 70کی دہائی میں بھیم سنگھ کو شیخ محمد عبداللہ کے مقابل جموں کی آواز کے بطور متعارف کرنے کی کوشش کی۔ موجودہ حکمران جماعت ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طرح وہ بھی جموں و کشمیر میں کشمیری سیاستدانوں کی برتری ختم کرنے یا ان کو ٹکٹ دینے کی خواہاں تھیںمگر اندرا گاندھی کا بھیم سنگھ پروجیکٹ کام نہیں کر پایا۔1973 میں انہیں اندرا گاندھی نے جموں و کشمیر میں یوتھ کانگریس کا صدر مقرر کیا،پھر 1977 میں انڈین یوتھ کانگریس کے نائب صدر اور آخر میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سیکرٹری کے طور پر مقرر کیا تھا۔ کانگریس سے الگ ہونے کے بعد انہوں نے اپنی ’پینتھرس پارٹی کی بنیادی رکھی۔ اس پارٹی کے قیام کے بعد بقول ظفر چودھری اسمبلی کے فلور پر شیخ عبداللہ نے ان سے پوچھا تھا :’’ آپ تو ایک مہذب انسان ہیں، آپ جانور کے طور پر اپنی پہچان کیوں بنانا چاہتے ہیں۔ــ‘‘ بھیم سنگھ نے جواب دیا کہ ’’انسانو ں کو شیر سے بچانے کیلئے پینتھر یعنی چیتے کو باہر آنا پڑا۔‘‘ شیخ عبداللہ اپنے آپ کو شیر کشمیر کہلوانا پسند کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جموں اور کشمیر میں پنچایت سے لے کر پارلیمنٹ تک ہر الیکشن بھیم سنگھ نے لڑا ہے ۔ مگر ان کو کبھی کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی۔ تقریباً ہر الیکشن کے بعد، بھیم سنگھ نے عدالتوں میں جا کر نتائج کو چیلنج کیااور الزام لگایا کہ انتخابات میں دھاندلی کی گئی۔ 2002 کے جموں اور کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں، بھیم سنگھ کی قیادت میں پینتھرس پارٹی نے اپنے مضبوط علاقے ادھم پور ضلع میں تمام سیٹیں جیت لیں، اور پی ڈی پی اور کانگریس پارٹی کے ساتھ مل کر حکمران اتحاد میں شامل ہوگئے۔ بعدمیں 2009کے بعد بی جے پی نے ان کے سیاسی گڑھ پر قبصہ جما لیا۔ شیخ عبداللہ اور نیشنل کانفرنس کے خلاف لگتا تھا کہ وہ ہمہ وقت بھرے رہتے تھے۔ ان کی کئی کمزور رگیں ان کی فائلوں میں دبی ہوئی تھیں۔ اسی لئے کئی افراد ان کی تشبیہ سبرامنیم سوامی کے ساتھ دیتے تھے، جو کانگریس اور گاندھی خاندان کی مخالفت میں آئے دن کوئی نہ کوئی پٹاخہ لئے حاضر ہوتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد کے پاس رام نگر میں ہزاروں ایکڑ زمین تھی جسے 1951 میں وزیر اعظم شیخ عبداللہ کی حکومت نے بغیر کسی معاوضے کے زبردستی لے لیا تھا، جس سے وہ اور اس کے دیگر گیارہ بہن بھائیوں کو بھوکا رہنا پڑا۔انہیں پہلی بار 1953 میں جیل بھیجا گیا تھا جب وہ ابھی ایک طالب علم تھے جب انہوں شیخ عبداللہ پر کنفیکشنری پھینک دی تھی۔ اس وقت بھیم سنگھ کے والد ٹھاکر بیربل جموں پرجا پریشد پارٹی کے ساتھ جموں میں حکومت کی زمینی اصلاحات کے خلاف ریلی کر رہے تھے ۔ انہوں نے موٹر سائیکل پر 130ممالک کا سفر بھی کیا۔ موریطانیہ کے راستے مراکش سے سینیگال تک موٹر سائیکل پر صحارا کو عبور کرنے والے وہ غالباً پہلے شخص تھے۔ اپنے سفر کے دوران بھیم سنگھ نے یونیورسٹی آف لندن میں ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کی۔ اور 1971 میں یونیورسٹی آف لندن یونین کے سکریٹری بھی منتخب ہوئے۔ وہ بھارت فلسطین فرینڈشپ سوسائٹی کے چیئرمین تھے۔اگست 2000میں یاسر عرفات جب بھارت کے ایک روزہ دورہ پر آئے تھے، جو ان کا آخری دورہ بھی ثابت ہوا۔ ان کے اعزاز میں دی گئی دعوت میں عرفات کو قریب سے دیکھنے اور ہاتھ ملانے کیلئے لوگوں کی ایک لمبی لائن لگی تھی۔ بھیم سنگھ نے دیکھا کہ میں بھی آگے جانے کیلئے تگ و دو کر رہاہوں، انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر عرفات کے پاس لیجاکر ان کو غالباً مذاق میں کہا کہ’’ ایک اور مقبوضہ علاقے (کشمیر) کا باسی آپ سے ملنے کا متمنی ہے۔‘‘ پروفیسر بھیم سنگھ تقریباً ہر ماہ دہلی کے کانسٹیچوشن کلب کے ریسٹورنٹ میں لنچ پر مدعو کرکے ایک پریس بریفنگ کا اہتمام کرتے تھے۔ اس پریس بریفنگ میں پی ٹی آئی سے سمیر کول، یواین آئی سے شیخ منظور، انڈین ایکسپریس سے آشا کھوسہ اور کشمیر ٹائمز کے دہلی بیورو کی نمائندگی کرتے ہوئے میں حاضر ہوتا تھا۔ ان کے دفتر کی کوششوں کے باوجود اس پریس کانفرنس میں چار افراد کے علاوہ اور کوئی نہیں آتا تھا۔ جولائی 2000میں جب سرینگر میں حزب المجاہدین کے آپریشن کمانڈر عبدالمجید ڈار کے سیز فائر کا اعلان کیا، تو اسی دن دہلی میں ان کی پریس کانفرنس بھی تھی۔ جس کی اطلاع کئی روز قبل انہوں نے دی تھی۔ چینلوں کا طوفان آچکا تھا۔ پی ٹی آئی نے صبح ڈائری میں ان کی پریس کانفرنس کا ذکر کیا تھا۔ بس کیا تھا کہ ایک ہجوم کانسٹیچوشن کلب وار د ہوگیا تھا۔ مروت کے طور پر انہوں نے سب کو کھانا کھلایا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس ریسٹورنٹ کی بل ادا کرتے ہوئے ان کو کئی ماہ لگے اور دانتوں پسینہ آگیا۔ اس کے بعد انہوں نے یہ سلسلہ بند کیا اور پھر پریس بریفنگ اپنے دفتر میں دوپہر کی چائے پلاتے ہوئے دیتے تھے۔ عدالت میں کشمیر ی اور پاکستانی قیدیوں کی معاونت کرنے اور عالمی مسلم مسائل و فلسطین کو اجاگر کرنے کی حد تک تو بھیم سنگھ کا ایکٹوزم سمجھ میں آتا تھا، مگر کشمیر کے حوالے لگتا تھا کہ وہ خود بھی کنفیوزتھے۔ کشمیر کی خصوصی پوزیشن کے وہ اولین مخالفین میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین ہند کی دفعہ 370اور35(اے) کی وجہ سے جموں و کشمیر کے عوام آئین ہند میں درج بنیادی حقوق کے حقدار نہیں ہیں۔ ان کو لگتا تھا کہ اس خصوصی پوزیشن کی وجہ سے مقامی انتظامیہ قیدیوں کو بغیر چارج کے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیلوں میں بند رکھتی ہے۔ رائے شماری اور کشمیر ی قوم پرستی کے وہ مخالفین میں تھے، مگر خود ڈوگرہ قوم پرستی کے گرویدہ تھے۔ وہ جموں کو سیاسی طور پر با اختیار بنانے کے نقیب تھے۔ ان کو لگتا تھا کہ وادی کشمیر اپنی عددی بل بوتے پر جموں کے حق کو غصب کئے ہوئے ہے۔ گو کہ وادی کشمیر اور کشمیریوں کو بے اختیار بنانے کے ہر نعرے کی حمایت کرنے کی وجہ سے سیاسی طور پر وہ کشمیر میں غیر مقبول تھے، مگر پاکستانی زیر انتظام یا آزاد کشمیر کے سیاستدانوں میں وہ خاصے مقبول تھے۔ ان کی کاوشوں سے مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عبدالقیوم خان نے 2005 اور 2007میں نئی دہلی کا دورہ کرکے ان کی طرف سے منعقد ہارٹ ٹو ہارٹ کانفرنس میں شرکت کے علاوہ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کی۔ ایسا لگتا تھا کہ سردار صاحب ، کشمیری لیڈروں خاص طور پر حریت کانفرنس کے بجائے ان کوزیادہ فوقیت دیتے تھے اور لائن آف کنٹرول کی دوسری طرف اپنی سیاسی زمیں ان کے ذریعے ہموار کرنا چاہتے تھے۔ د عوتوں اور مروتوں کی طرح ان کی لغزشیں بھی بے شمار تھیں، کشمیر کے سوال پر ان سے خاصا بحث و مباحثہ ہوتا تھا، مگر وہ اسکو کبھی عناد کا ذریعہ نہیں بناتے تھے۔ ہمیشہ جہاں بھی ملاقات ہوتی تھی، گرم جوشی سے ملتے تھے۔ پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں ان کی کاوشیں قابل قدر اور حوصلہ افزا تھیں، جو بھارت پاکستان دوستی کی دکانیں چلانے والوں ، تقریریں کرنے والوں اور موم بتیاں جلانے والوں سے کئی گنا عملی اور بہتر تھیں۔ امید ہے کہ ان کے شاگرد خاص طور پر بی ایس بلوریا ان کے اس احسن نقش قد م پر چلتے رہیں گے اور مظلوموں کی داد رسی کا ذریعہ بنتے رہیں گے۔بشکریہ روزنامہ 92نیوز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply