غالب پر ایک نظر ثانی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

گر بہ معنی نہ رسی جلوہ ٔ صورت چہ کم است
خم ِ زلف و شکن طرف ِ کلاہے دریاب

غالبؔ کی نیک روح سے معذرت کے ساتھ کہ اس نظم میں
اس کمترین شاعر ستیہ پال آنند نے غالبؔ کے بیشتر اشعارمیں
صوری اور معنوی ارتباط کے نہ ہونے پر اعتراض کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہا تھا، حضور، آپ نے بارہا یہ
نہیں گر سر و برگ ادراک ِ معنی
تماشائے نیرنگ صورت سلامت
حقیقت پہ مبنی، کھری بات تھی یہ

یقیناً کوئی شاخ در شاخ پیکر
کوئی با سلیقہ، خوش اسلوب صورت
کوئی وضع ہیئت، کوئی چہرہ مہرہ
اگر استعارہ ہے اس شکل میں، تو
معانی سے بھرپور، بے شکل و صورت
حذاقت کی پھر کیا ضرورت ہے اس میں؟
کہ یہ باصری چہرے مہرے ہیں خود میں

اگر زلف کے خم کی تصویر ِ لفظی
مکمل ہے ، جامع ، بعینہ، مشابہ
اگر کج کلاہی کی تشبیہ، خود میں
مفصل ہے ہر نوع سے، زاویے سے
بلا کسر تصویر ایسی ہے، جس میں
الیٰ آخرش‘‘کچھ بھی خامی نہیں ہے ’’
تو پیچیدہ تدوین کی کیا ضرورت ہے حضرت

بھرےپیٹ کو پھر
معانی سے بھر کر
ذرا سا چھپا کر، ذرا سا دکھا کر
یہ قاری سے امید رکھنا
کہ وہ خود سے ہر بار پوچھے
افاعیل ہے یا تفاعیل ہے یہ؟
غلط ہے یہ ذہنی تحفظ، اسد اللہ خاں جی

کہ تلمیح و تلخیص و توضیح کرنا
ضروری سمجھ کر
مرادف و مادہ، متن کی
معمائی ذو معنویت کی کہانی
وضاحت و تفسیراک چیستاں کی
غلط ہے یہ پوشیدگی کا معمہ!!

Advertisements
julia rana solicitors

کہا ہے حضور آپ نے بارہا ۔۔۔
ایسے اشعار میں( جن کا مفہوم کوئی معّمہ نہیں ہے)

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply