“پاکستان” منتظر ہے۔ راؤ عتیق الرحمن

پاکستان معرض وجود میں آ تے ہی آ ئینی ،سیاسی، اور معاشی طور پر مسائل کا شکار کر دیاگیا اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی ، جوڈیشری، کھوٹے سیاستدانوں ملائیت کا گٹھ جوڑ ، ناخواندہ ، غیر مہذب ، اسلامی تعلیمات سے نابلد زبانی جذباتی اسلامی نعرے لگانے والوں کی معا شرے میں کثرت جبکہ قا ئد اعظم کا جلد رخصت ہو جانا اور امریکہ کی اندرونی گرفت پاکستان کےمسائل کی وجوہات بنیں۔ کچھ عرصے بعددائیں اوربائیں بازو نے ،نا صرف پاکستان بلکہ ایشیاء کو”سبز”اور”سرخ” بنانے کے بے وقوفانہ نعرے لگانےشروع کر دئیے جبکہ کیااسلام پسند کیا ترقی پسنددونوں کے پاس پُرکشش اور جذباتی نعروں کے سوا عملی نفاذکی مہارت اور طاقت نہ تھی ۔ کھوٹے سکّوں نے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اسلام اور پاکستان کو خطرے میں قرار دیکر کافر اور غدار ڈیکلیئر کر نا شروع کر دیے جو آج تک جاری ہیں حقیقی سیاستدانوں کو سیاسی عمل سے بے دخل کرنے کے لئے مختلف طریقے، قوانین، ایبڈو اور پراڈا گھڑ لئے ۔جبکہ من پسند سیاست دان تیارکرنے کی پنیری لگا لی جو آج بھی قائم ہے ۔ جنرل ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑنے پر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ہندوستان کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔ بلوچستان کی جانب سے 1947 میں سردار عمائدین کی نمائندگی کرنے والا نوجوان سردار اکبر بگتی جس نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا ،غدار قرار دیا گیایا بنا دیاگیا اور اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اسٹیبلشمنٹ نے ایک ہوائی حملے میں اسے قتل کر دیا۔ سندھ کو پاکستان میں شامل کرنے کی قرارداد پیش کرنے والا جی ایم سید، بنگال کو پاکستان میں شامل کرنے کی تحریک چلانے والا طالب علم رہنما اور فاطمہ جناح کا مشرقی پاکستان میں چیف سپورٹر شیخ مجیب الرحمن بھی غدار قرار پائے ، نواب صادق خان عباسی امیر ریاست بہاولپور کہ جنہوں نے پاکستان کو ابتدائی بجٹ کے اخراجات پورے کرنے کے لئے کثیر سرمایہ فراہم کیا اور ریاست بہاولپور بھی پاکستان میں شامل کی ۔اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بہاولپور کے محلات اور زمینوں پر قبضے اور توہین آمیز سلوک پر دلبرداشتہ ہو کر غداری کا لیبل لگنے سے قبل پاکستان چھوڑ کر انگلینڈ ہجرت کر گئے، ایک طویل فہرست ہے ۔

اگر قیام پاکستان کی مخالفت کچھ سیاست دانوں ،علمائے کرام اور عبدالغفار خان نے کی تو قیام پاکستان کے بعد کس شخصیت یا ادارے نے کوشش کی کہ انہیں قومی دھارے میں لایا جائے۔ ان میں سے کتنے رہنماء حکومت مخالف یا ریاست مخالف تھے سیاسی، نظریاتی اختلاف بھی جمہوریت کا حصہ ہوتے ہیں مگر جب گھر بن جائے تو اسے آ باد رکھنے کے لئے حکمت ، ظرف اور پیار سے کام لیا جاتاہے۔ کسی بھی کاز کو حاصل کرنے کے لئے ضروری نہیں سو فیصد افراد ایک جیسے طریقہ کار پر کاربند ہوں۔ حقیقت یہ تھی کہ برصغیر کی برٹش ایڈمنسٹریشن نے اپنے مقامی پٹھو سیاست دان اسٹیبلشمنٹ،اور بیوروکریسی کو پاکستان میں پلانٹ کیا، ابتدا ء سے ہی پاکستانی حکومت کے سٹیک ہولڈرز کی خواہشات میں حکمرانی، اختیارات ، دولت, کرپشن ہوس،طمع ، زن، زر، زمین اور شراب شامل تھیں اور آج بھی ہیں۔دنیا،بھر،برصغیراور پاکستان میں مخصوص مسلمانوں نے لالچ کے لئے جو خدمات / غداریاں سر انجام دیں وہ اب تک جاری ہیں ۔ پاکستان میں1947سے لیکر 2022 تک تقریباً 7 وزراء اعظم کو مستعفی کروایا گیا 5 وزراء اعظم برطرف کئے گئے 4 وزراء اعظم کی حکومتوں کا تختہ الٹا کر فوجی آمروں نے حکومت چھینی۔ 1959 میں جنرل ایوب خان نے جبری اور غیر جمہوری طریقے سے اقتدار پر قبضہ کر کے پاکستان کو آئینی اور سیاسی لحاظ سے اندھیروں میں غرق کر دیا۔ 1970 میں مجیب الرحمٰن مشرقی پاکستان اور ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان کی سیاست میں نمودار ہوئے ۔ تاہم اسوقت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی یحییٰ خاں کی قیادت میں حکمرانی کی ضد، ایوب خان کا دورحکومت،مغربی پاکستان کا مشرق پاکستان سے امتیازی سلوک اور حکمرانی، مشرقی پاکستان کے سیا ست دانوں کا ہندوستانی پروپیگنڈہ کے زیر اثر ہونا ان سب کا خمیازہ پاکستان کو مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان جو کہ باقی مکمل پاکستان بن گیا تھا کے وزیراعظم بن گئے۔ بھٹو دور حکومت میں سیاست ڈرائنگ روم سے نکل کر گلیوں میں آ گئی ۔

تاہم 1977 میں آ مر جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ 1985 سے جنرل ضیاء الحق کی غیر جمہوری حکومت کی چھتری تلے لگنے والی پنیری آ ج 2022 تک بھی پاکستان پر حکمرانی اپنا موروثی حق سمجھتی ہے. اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ آ ئی  جے آئی سے شروع ہونے والا نواز شریف صاحب کاحکومتی سفر پاکستان کے لئے کوئی حقیقی خوشحالی یا باوجود میثاق جمہوریت محترمہ بینظیر بھٹو کے اشتراک سے پاکستان میں حقیقی جمہوریت بھی نہ لاسکا اسکی بنیادی وجہ سیاستدانوں کی نالائقیاں اور سازشیں ہیں بے نظیربھٹو شہید بھی اقتدار کی غلام گردشوں میں ایسی الجھیں کہ پیپلز پارٹی کی تنظیم نو اور حقیقی جمہوریت کی طرف توجہ نہ دے سکیں اور 2007 میں شہید کر دی گئیں۔ 1988 سے لیکر 2018 تک سیاست اور حکومت مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے گرد گھومتی رہی۔1999 سے 2008 تک آ مر جنرل مشرف نے بھی ان پارٹیوں کےعلاوہ دینی پارٹیوں کے تعاون سے حکومت کی۔ 1988 سے 2018 تک کی سیاست اور حکومت کا جائزہ لیں تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے حصول اقتدار کے لئے ایسے اوچھے ہتھکنڈے اپنائے کہ اقتدار صرف سیاسی اشرافیہ کی عیاشیوں اور لوٹ مار کا مقصد قرار پایا جبکہ لوٹ مار کرپشن کو پاکستان کے سٹیک ہولڈرز کوئی برائی نہیں سمجھتے ہیں۔

ابتک نعروں یا ملی ترانوں ” ہم زندہ قوم ہیں” یا پھر ” دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے ” کے علاؤہ کسی بھی حکومت کے پاس پاکستان کو فلاحی یا تر قی یافتہ ریاست بنانے کا عملی پروگرام یا پروگریسیو اصلاحات نافذ کرنے کی اہلیت نہ تھی اور نہ ہے۔ سرکاری اداروں کی کارکردگی کامعیار اشتہار بازی،پینا فلیکس اورکاسمیٹکس سرجری قرار پایا نہ کہ مسائل کے درست سمت میں حل پر۔ ایسے حالات میں پاکستان کی روایتی اور موروثی سیاست میں ایک غیر روایتی سیاست دان اور کھلاڑی عمران خان کی انٹری ہوئی جو کہ روایتی سیاستدانوں کی شامت اعمال کا نتیجہ تھا۔ شخصیت میں سحر انگیزی اور بین الاقوامی طور پر کسی تعارف کا محتاج نہ تھا ۔ عمران خان کی پارٹی 2018میں قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سےبڑی پارٹی بن کر ابھری تاہم حکومت بنانے کے لئے سادہ اکثریت بھی نہ ملی یا دلوائی نہ گئی تاہم پی ٹی آئی نے الیکٹیںلز اور دیگر پارٹیوں سےاتحادبناکر مرکز اور پنجاب میں اتحادی حکومت تشکیل دی۔ ساڑھے تین سال کی حکومت کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے پی ٹی آئی کے منحرف ممبرز کو کیش کرواتے ہوئے اتحادی پارٹیوں کو ملا کر اسٹیبلشمنٹ سے پولیٹیکل انجینیرنگ کا تڑکا لگواکر عمران خان حکومت کو چلتا کیا۔ جبکہ عمران خان اسے امریکی خط/ سازش جبکہ اسٹیبلشمنٹ مداخلت کہتی ہے۔

گزشتہ 75 سال سے بیرونی آ قاؤں اور اندرونی غلاموں کے گٹھ جوڑ نے پاکستان کو آ زمائش اور مشکلات میں مبتلا کیا ہوا ہے ۔ حکومتی تبدیلی پر لفاظی پر مبنی پریس کانفرنس بھی ہوئی جس میں اردو لفظ “مداخلت” کا چناؤکیا گیااور نئی حکومت کی آمد پر ڈالر کے ریٹ گرنے کی نوید بھی سنائی تاہم ڈالر پرواز کرتا رہا۔ ہر تھوڑے عرصے بعد پاکستان میں حکومتیں کیوں گرائی  جاتی ہیں ایسے مواقع کیوں میسر رہتے ہیں یا بنا لئے جاتے ہیں۔چند افراد کی ا ناا اور ضد کی خاطر لولی لنگڑی جمہوری حکومت ختم کر کے ملک کو عدم استحکام میں مبتلا کر دیا جاتا ہے اس ضمن میں جوڈیشری ، الیکشن کمیشن،نیب اور بالخصوص اسٹیبلشمنٹ پر نہ صرف عوامی ناپسندیدگی جبکہ الیکٹرانک میڈیا پرہونے والے پروگرام اور سوشل میڈیا مہم پاکستان کی دنیا میں جگ ہنسائی اور خلاف پاکستان گواہی کا باعث بنتے ہیں۔ دنیا کے کسی ملک اور بالخصوص ہندوستان میں آ پ فوج یاکسی ادارے پر تنقید کا تصور بھی نہیں کر سکتے جبکہ ہندوستان میں علحیدگی پسند رجحانات اور تنظیمیں پاکستان سے کہیں زیادہ ہیں لیکن وہاں کی سیاسی قیادت بالغ نظر ہے انہوں نے ایسے مسائل پر سیاسی حکمت اور عسکری تعاون سے قابو کرنا سیکھا ہے اور کر رہی ہے جبکہ فوج جمہوریہ نظام کے تابع ہے پاکستان کے طاقتور اداروں کو حکومت بنانے اور گرانے کا عمل اور اختیارات کا ارتکاز ختم کرنا ہو گا۔ عوامی، سیاسی اور سماجی اختیارات سویلین اداروں بالخصوص حقیقی نچلے درجے یونین کونسل تک عوام کے سپرد کر دینے چاہیے تاکہ نئی سیاسی قیادت جنم لے. لیکن جب کنٹونمنٹ ایریاز شہروں کی میونسپلٹی سےمویشی منڈی بھی چھین لیں جو شہری وسائل ہیں اس صورت میں تو عام شہری بھی تنقید و تبصرہ کریگا ۔پاکستان جہاں ایک آ مر اسلام کا نعرہ لگا کر 11 سال جبکہ دوسرا لبرل ازم کا نعرہ لگا کر 9 سال حکومت کرتا رہا ۔ لیکن نہ اسلام نافذ ہوا نہ لبرل ازم ایک آ مر پاکستان کو دو لخت کر گیا لیکن حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ اور قانون بڑوں کی آ شیر بادکی وجہ سے آ مر کا کچھ نہ بگاڑ سکا ۔ پاکستان کے بیشتراداروں کی کارکردگی کوئی قابل فخر نہ ہے کہیں نہ کہیں متنا زہ کیفیت موجود ہ ہے سیاسی پارٹیوں اور اداروں میں سطحی شخصیت کے گھٹیا اور چاپلوس لوگ براجمان ہیں ۔ سیاست دان موروثی جھوٹے ، منافق اور کرپٹ ہیں ۔ ادارےمافیاز کاروپ دھار کر” سٹیٹس کو” کا تحفظ کر تے ہوئے آ پس میں ساجھے دار ہیں ۔ اور ملکی نظام کو جکڑا ہوا ہے عوام ایک بوسیدہ نظام کے تابع زندگی کاٹ رہی  ہیں پاکستان کے سیاستدان اور مقتدر اداروں کے سربراہ حکمرانی ،افسری اور بھاشن پاکستان میں دیتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کےبعد کرپشن سے حاصل کی گئی دولت کے ساتھ باقی زندگی مغربی ممالک کی شہریت حاصل کرکے عیاشیوں میں گزارتے ہوئے کاروبار بھی وہیں کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان75 سال کا ہو گیا ہے پاکستان تھک گیا ہے ۔ یہ پاکستان اب حکمرانی کرنے والے سٹیک ہولڈرز/ ٹھیکیداروں سے روزی ، روٹی، امن ، سماجی، سیاسی، انتظامی اختیار ، تعلیم، صحت، اورانصاف کی منصفانہ 24 گھنٹے فراہمی کا طلبگار ہے ۔ لیکن کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔عوام انقلاب تو درکنار سیاسی جدوجہد سے مایوس ہی نہیں معذور بھی ہیں سہنرے خواب دیکھتے ہیں لیکن حقیقت نہیں بنتے75 سال سے کولہو والے بیل کی طرح چکر کاٹ رہیں ہیں ظاہرہے سفر طے نہیں ہو گا۔ پڑوسی ملک کی عام آ دمی پارٹی جیسی سیاسی تھیوری عملی طور پر اپنانے کے لئے نہ رہنما میسر ہیں نہ ہی عوام۔ فرسودہ نظام کے سٹیک ہولڈرز سے حقیقی آ زادی حاصل کرنے کی جمہوری جدوجہد کے لئے فیصلہ کن یقینی ہمت کرنا ہوگی نہیں تو آنیوالی نسلیں بھی غلامی اور غربت میں زندگی کاٹتے ہوئے ایندھن ہی بنتی رہیں گی-

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply