بنگالی بابا اور پاکستان۔۔ذیشان محمود

شاہ فیصل کراچی میں ہمارے ایک مالک مکان بنگالی تھے۔  بنگالی بابا عرف ظہور بابا نام تھا۔ عام بنگالیوں کی طرح نہ تھے۔ عمر رسیدہ ضرور تھے ، بوڑھے ، نحیف نہ تھے بلکہ بھاری بھر کم وجود کے مالک تھے۔ پان کی گلوری لگا کر بڑی کرخت اور رعب دار انداز میں بات کرتے تھے۔زبان کی نوک پر گالی براجمان رہتی جو بار بار پھسل جاتی۔ عام بنگالیوں کا اس لئے کہا کہ کراچی میں جو بنگالی مشہور ہیں وہ خاص لہجہ لئے ،    کمزور سے، چھوٹے درمیانے  قد اور درجن بھر بچے لئے گھومتے نظر آتے ہیں۔ اور عموماً مچھلی چاول زیادہ کھاتے ہیں ۔ بنگالیوں کی ایک قسم وہ سمجھی جاتی ہے جو ابراہیم حیدری کی فشری پر نظر آتی ہے۔ کوئی انہیں سندھی تو کوئی مکرانی تو کوئی بنگالی کہہ دیتا ہے۔ کراچی میں   بفر زون کا  علاقہ بنگالی پاڑہ mini بنگلہ دیش بھی  کہلاتا ہے۔ جہاں بنگالی اور بنگلہ دیش کی اشیاء خوردونوش عام دستیاب ہوتی ہیں۔

ہم نے جہاں تک مشاہدہ کیا بنگالیوں کو پاکستان میں خصوصاً کراچی میں نظر استخفاف سے دیکھا جاتا  رہا ہے۔ گو کراچی میں بنگالی بابا کے بڑے مداح اور معتقد ہیں۔معلوم نہیں کالے علم کے لئے بنگال سے تعلق  ہونا کیوں ضروری ہے۔ جنید بنگالی، اسد بنگالی اور اماں بنگالن کے اشتہارات تو ہر علاقے کی  زینت ہیں۔ پاکستان ریلوے کے تعاون سے دھابیجی سے کراچی کینٹ سٹیشن تک دو گھنٹے ان کے مفت  اشتہارات بھی  چلائے جاتے ہیں۔

ہمارے ایک دور کے رشتہ دار چچا بھی ایک بنگالن کو خرید یعنی بیاہ لائے ۔ ہم نے تو ان چچی سے زیادہ بااخلاق کسی اور رشتہ دار کو نہیں دیکھا۔ چچی سے ان کے 11 بچے ہوئے۔ ایک شادی میں وہ سب قسطوں میں پہنچے تو سب نے اکٹھے نہ آنے کی وجہ پوچھی تو وہ اپنا دکھڑا لے کے بیٹھ گئے کہ بس والے اکٹھے چڑھا نہیں رہے تھے۔ اور رکشے ٹیکسی میں ایک ساتھ اتنے آتے نہیں۔ اس لئےالگ الگ بسوں میں ایک گروپ کو وہ، ایک کو چچی اور ایک کو بڑا بیٹا لئے آرہا ہے۔

بات ظہور بابا کی ہو رہی تھی تو ظہور بابا بذات خود حقیقی مہاجر تھے، حقیقی مطلب ہجرت کرنے والے نہ کہ ایم کیو ایم حقیقی گروپ۔ ساتھ ساتھ وہ مہاجروں کے سردار بانی متحدہ کے فین بھی تھے اور انہیں پاکستان کا مسیحا گردانتے تھے۔ گو مہاجر اب ایسے ہی اصطلاح بن کے رہ گئی ہے جیسے پی ٹی آئی کے کھلاڑی یا پیپلز پارٹی کے جیالے یا ن لیگ کے متوالے۔در اصل  کراچی واقعی مہاجروں کا شہر ہے۔غریب الوطن لوگوں کے شہر کراچی میں ایم کیو ایم سے وابستہ مہاجرین صرف سیاسی اصطلاح ہے۔ ورنہ اصل مہاجرین تو روزگار کی تلاش میں ہجرت کر کے کراچی کو مسکن بنانے والے ہیں۔

ایم کیو ایم کے عروج سے زوال کا زمانہ دیکھتے دیکھتے ہم بڑے ہوئے ہیں ۔ اگر فوج کی حکمت عملی کارگر نہ ہوتی اور ایم کیو ایم لندن پاکستان کے دو ٹکڑے نہ ہوتے تو ایم کیو ایم کی شانہ بازی ہر گلی محلہ کی بات تھی۔چور پولیس کا کھیل ہوتا تھا۔ سکول میں میٹرک کے لڑکے سیکٹر انچارج کے بندے ہوا کرتے تھے، جو ایم کیو ایم کے بھرتی آفیسر بھی ہوتے تھے۔ بھرتی ہونے یا نہ ہونے سے بوری سلنے تک کا سفر زیادہ طویل نہ ہوتا تھا۔ کراچی میں اب مسنگ پرسن پر آواز اٹھانے والے لوگ کراچی کی بوری بند لاشوں کو بھول چکے ہیں۔ جس کے متعلق ہر کس و ناکس کو گمان ِغالب ہے کہ یہ ایم کیو ایم کی کارستانی رہی ہوگی۔

بات ہو رہی تھی ظہور بابا کی۔ انکی دو شادیاں تھیں۔ ایک ان کی خاندانی شادی تھی۔ جو محلے بھر میں بڑی اماں کے نام سے مشہور تھیں۔ پان لگاتیں، چباتیں اور روزانہ کسی گھر کے دورے پر روانہ ہوتیں۔ ہر گھر کی بھیدی تھیں لیکن کسی کی بات یہاں وہاں نہ کرتیں۔ بابا کو ان سے کوئی اولاد نہ تھی۔ دوسری کواس مقصد سے وہ خرید لائے تھے۔ جس سے کوئی ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے۔ دونوں بیٹے نہایت نکمے اور کام چور تھے لیکن ایم کیو ایم سے تعلق رکھتے ہوئے نہایت بھرم باز تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک رات فائرنگ کی آواز آئی تو علی الصبح شکور باباان دونوں کو گالیاں نکالتے سنائی دئیے۔ ہم سمجھے کہ انہوں نےشاید کسی کو قتل کر دیا ہے جس پر شور پڑ گیا ہے۔ لیکن پھر عقدہ کھلا کہ رات کو فائرنگ کی آواز سن کے دونوں چارپائیوں کے نیچے چھپ گئے تھے۔ اور ساری رات وہاں سوئے رہے۔ ان کے اس جرأت مندانہ اقدام پر شکور بابا انہیں صلواتیں سنا رہے تھے۔ لیکن محلہ بھر میں اس عزت افزائی کے بعد بھی ان کے بھرم کم نہ ہوئے۔

اس گھر میں اور ظہور بابا کی زندگی میں بڑی اماں کو بڑی کا مقام ہی حاصل تھا۔ گھر کا ایک پتا بھی ان کی مرضی کے بغیر نہ ہلتا تھا۔ وہ بانجھ کے طعنہ کو خود بیان کر کے اپنے صبر اور وسیع الظرف ہونے کا کھلم کھلا اظہار کرتیں کہ میں نے خود بابا کی دوسری شادی کرائی تھی۔اور ایک تائی کی طرح گھر کی بڑی ہونے کا ٹائٹل اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیتیں۔ چھوٹی اماں بیچاری شریف النفس ، کم گو اور مظلوم نظر آتیں۔ بیٹوں کی سگی ماں ہونے کے باوجود اس حق کو نہ جتا سکیں۔ خریدے جانے کے طعنے سہتی ، وہ بڑی اماں کے آگے پیچھے پھرتی رہتیں مبادا وہ ناراض نہ ہو جائیں۔ شاید ظہور بابا نے گھر بسانے کے لئے گھر کا سیاسی ماحول ایسا ہی رکھا تھا کہ حکومت مضبوط اور اپوزیشن کمزور۔یہ عقدہ بھی اب کھلا کہ اپوزیشن مضبوط ہو جائے تو پارلیمنٹ بھی نہیں چلتی اور عمران خان جیسے وزیر اعظم کو بھی واپس گھر جانا پڑتا ہے۔ یہی بات بڑی اماں کو معلوم تھی اس لئے انہوں نے موجودہ حکومت کی طرح اپوزیشن لیڈر کو اپنا ٹکٹ جاری کیا ہوا تھا ۔ بڑی اماں اور چھوٹی اماں کی مثال مریم نواز اور شہباز شریف کی سی بھی ہے۔ دونوں پارٹی کے نور نظر ہیں لیکن مریم بی بی بڑی اماں کی مانند حکمرانی پر براجمان ہیں اور شہباز شریف وزیر اعظم ہونے کے باوجود پارٹی پر حق نہیں جما سکتے حالانکہ طعن و تشنیع بھی سب کی وہی سہتے نظر آتے ہیں ۔

خیر ظہور بابا نے بیٹی کی شادی کے لئےایک رشتہ دار بطور داماد بنگلہ دیش سے امپورٹ کیا تھا۔ وہ شریف النفس پڑھا لکھا نوجوان تھا۔ پاکستان کی اور گھر دونوں کی سیاست سے دلچسپی نہ تھی یعنی نیوٹرل تھا۔ویسے بھی مشرف یعنی موجودہ نیوٹرل کا دور تھا ۔ اس کے بھی دو بیٹے اور ایک بیٹی تھے۔

ظہور بابا نے گھر کے پچھلے حصہ میں بیٹی کو دو کمرے ڈال کر اس کا حصہ اس کو دے دیا۔لیکن نہ کاغذات دیے نہ نام کیا۔ بس سب کو بتا دیا کہ حصہ دے دیا لیکن پھر دل میں نہ جانے کیا آیا اس کے حصہ کی چھت پر دو کمرے ڈال کر کرائے پر دے دئیے۔ جس میں ہم رہے۔ شاید یہ اس حصہ کا سود تھا جس کی وصولی کی گئی۔ داماد شریف کا نام تو یاد نہیں لیکن وہ ظہور بابا کی طرح شکل اور ڈیل ڈول سے بنگالی سے زیادہ ساؤتھ انڈین لگتا تھا۔

جن دنوں قائد اعظم کی تصویر والا ایک روپے کا چھوٹا سکہ نیانیا جاری ہوا۔ ظہور بابا کےچھوٹے سے نواسے نے ایک روپے کا سکہ نگل لیا۔ یہ بچہ ایک شُرلی کی طرح تھا۔ ابے اوئے کے علاوہ کسی لفظ سے بات شروع نہ کرتا۔ جس دن اس کے پیٹ سے سکہ نکلا اس دن سے اس جیسے تمام سکوں کے مالکانہ و پدرانہ حقوق اس نے اپنے نام کر لئے۔ ہر یک سے زبردستی وہ سکہ حاصل کر لیتا کہ یہ میرے پیٹ سے نکلا تھا۔ آج بھی جب اس سکہ پر نظر پڑتی ہے اس سکہ کو پیدا کرنے والا ذہن میں گھومنے لگتا ہے۔

داماد شریف اپنے بچوں کو صرف بنگلہ دیش کے حسین خواب دکھاتا رہتا۔ ظہور بابا کے نواسے نواسیاں بھی روزانہ بس بنگلہ دیش واپس جانے کا راگ الاپتے ۔ کیونکہ آخر تو انہوں نے اپنے دادکے ہی جانا تھا۔ لیکن ہر پاکستانی کی طرح اس کی بیوی کا برتھ سرٹیفکیٹ سے پاسپورٹ تک ہر سرکاری کاغذ نیا بننا تھا۔ جس کے لئے تازہ تازہ بنا نادرا کا دفتر متحمل نہیں تھا۔ اب شاید وہ بنگلہ دیش چلے گئے ہوں اور پاکستان کے ماحول سے چھٹکارا مل گیا ہو۔

بابا ظہور کی ذہنیت تنگی کی طرف مائل تھی۔سکیورٹی کا محکمہ بھی اپنے پاس رکھا تھا۔ رات بعد از عشاء ہی مین گیٹ کو تالا لگا دیتے۔ موٹر سائیکل پارکنگ میں پھر مسئلہ ہی رہتا۔ پانی کی موٹر کو تالا لگوا دیاکہ پانی چوری نہ ہو یعنی استعمال ہی نہ ہو۔ پانی کا نظام اپنے ہاتھ میں رکھا تھا، اور ہمیں اسی طرح ترسنا پڑتا تھا جیسے پنجاب کی وجہ سے سندھ کو۔ گھر نہ ہوتے تو پانی بھرنے میں مسئلہ ہی رہتا۔ کرایہ کے لئے پانچ تاریخ سے اوپر نہ جانے دیتے اور توشکر ہے بجلی گیس کے میٹر علیحدہ تھے ورنہ نجانے اس مد بھی کیا کیا اضافہ وصول کر لیتے۔ تعمیراتی کام کے لئے صفر بجٹ رکھتے تھے اور جو ہم از خود کرواتے تو نئی حکومت کی طرح سارا اچھا اپنے کھاتے اور نقصان دوسروں کے کھاتے ڈال دیتے۔ کیبل کا کنکشن بھی اپنا کٹوا کر ہم سے  تار لے لی کیوں کہ ان کا کنکشن خراب یا پرانا ہو گیا تھا۔

ہاں سب سے فعال شعبہ عدل کا تھا۔ جیسے دونوں بیویو ں کے درمیان عدل تھا۔ محلہ کے بزرگان میں شامل تھے تو لوگ  اپنے مسائل میں  مشورہ کرتے تھے۔ اسی طرح کسی شکایت پر اپنے بچوں کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ اور مقدمہ سن کرجلد فیصلہ کر لیتے اور سزا بھی اسی وقت فوری دے دیتے۔

پھرآخری چیز رہ جاتی ہے دین۔ تو ان کو کبھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا نہ مسجد جاتے۔ روزہ رکھ کر پان کا نشہ ٹوٹنا تھا اس لئے بزرگی سب سے بڑی بیماری تھی۔ ہاں صدر مملکت یا دیگر وزراء کی طرح عید کی نماز کا اہتمام کرتے تھے۔مسجد بڑے شوق اور ٹھاٹھ سے جاتے۔ سب کوعیدی میں دس دس روپے کے کڑک نوٹ دیتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب  معلوم ہوا ہے کہ وہ  دار فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔ لیکن ان کی زندگی کا طائرانہ جائزہ  پاکستان کی سیاست سے قریب تر معلوم ہوتی ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین

Facebook Comments

ذیشان محمود
طالب علم اور ایک عام قاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply