• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تیسری دنیا کے انسان کا کھتارسس/ یورپین قوموں کی دوراندیشی یا ارتقاء کا نتیجہ۔۔اعظم معراج

تیسری دنیا کے انسان کا کھتارسس/ یورپین قوموں کی دوراندیشی یا ارتقاء کا نتیجہ۔۔اعظم معراج

گزرے زمانوں میں یورپین قومیں وسائل اور نئی منڈیوں کی تلاش میں دور دیسوں کو نکلی، ظلم وستم کئے۔ کہیں سے غلام حاصل کئے کہیں ذہنی غلامی نسلوں کی نس نس میں بھری زمانے بدلے، انھی کے ساتھ آئے انسان دوست صوفیوں کی بدولت تعلیم کے سبب آزادی کے بیج بوئے گئے۔تحریکیں چلی کہیں کشت و خون ، کہیں دلیل،کہیں اخلاقی دباؤ کہیں اپنی مجبوریوں سے انھیں یہ سب چھوڑنا پڑا۔لیکن انھوں نے پسپائی میں ایک نئی حکمت عملی اپنائی۔کئی خطوں میں ایسے نظام وضع کئے جس سے پرانا استحصالی نظام نئی شکل میں قائم ودائم رہے۔کئی خطوں میں حکمت عملی سے ایسے دائمی مسائلِ پیدا کئے جن کا نہ حل ہو نہ بھولیں جا سکیں۔ کہیں اپنے فکری وارث ایسے چھوڑے جو ہر وقت اسی تگ و دو میں رہتے ہم کیسے اپنے ہم وطنوں کے آقا بنیں۔ خود انھوں نے اپنے دیسوں میں اپنے سماج و معاشرے ایسے بنائے۔جس میں خلق خدا کے لئے آسانیاں ہوں۔اور تو اور جو کسی بھی طرح ان کے ہاں پہنچ جاتا وہ بھی انسان ہونے کی سند حاصل کرلیتا۔چاہےوہ شاہ ہو یا گدا ہو،یا کوئی محنت کش ہو چاہے ساہو کار چوراچکا یا دین کی خدمت کرنے والا لیکن معاشی دہشت گردوں کے لئے مخصوص قوانین بنائے گئے۔ کیونکہ وہ انکی معشیت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے۔ انھی اقدامات کی بدولت آج انھی ذہنی و جسمانی غلاموں کی اولادیں، اپنے لوگوں کو لوٹ کھسوٹ کر انکے کے لئے وسائل اکھٹے کرتے ہیں۔ اور پھر انھی کی جھولیاں بھرتے ہیں۔ ایک ایک خاندان کروڑوں کے وسائل چھین کر اپنے لئے آسانیاں اور اپنے سابقہ آقاؤں کی قوموں کی معیشت میں حصہ ڈالتے ہیں۔ اب انکا کام اتنا رہ گیا ہے کہ صرف چن چن کر معاشی دہشتگردوں کو تیسری دنیا میں حکومتیں دلواتیں ہیں۔ باقی وہ سارے نتائج جو پچھلی صدیوں میں فوجوں کی مدد سے مار دھاڑ کے زریعے حاصل کئے جاتے تھے۔اب انکے مہرے انجام دیتے ہیں۔یہ بس اپنے جاسوسی اداروں کو مظبوط سے مظبوط تر کرتے ہیں۔جو یہ سب ڈوریں ہلاتے ہیں۔بین الاقوامی مالیاتی ادارے ایسے جو گاؤں کے سود خور مہاجن کے طرز پر تیسری دنیا کو گرفت میں کئے ہوئے ہیں۔انھیں مظبوط کرتے ہیں۔ اور اپنی ساری توجہ اپنے لوگوں کے بنیادی انسانی،شہری حقوق پر اپنے شہریوں کے لئے اپنے معاشروں کو انتہائی آسودہ حال بنایا ہوا ہے۔جس سے۔تیسری دنیا کا ہر معاشی دہشتگرد اور عام آدمی کے لئے ایک کشش جس کی بدولت وہ اپنے لوگوں کا ہر طرح کا استحصال کر کے انکی معیشتوں میں حصّہ ڈالتے ہیں۔ عام آدمیوں میں سے حریت پسند انسان دوست انصاف پر مبنی سماج کے قیام کے لئے کوشاں آدرش واسیوں پر وہ خصوصی نظر رکھتے انھیں انکے نظریات کے پرچار کے لئے سہولیات دینے کی آڑ میں آسانیاں فراہم کرتے۔ جو دام میں نہ آتے انھیں نظام سے تھکا دیتے۔جو پھر قابو نہ آئے ایسوں کو ٹھکوا دیتے۔کچھ تھک ہار کر بجائے اپنے معاشروں کو سدھارنے کے انھی سے مدد کے طلب گار ہوتے ہیں۔اور یوں وہ بھی کہیں جانتے بوجھتے اور کہیں کہیں انجانے میں انھی کے سہولت کار بن جاتے ہیں۔ بظاہر ایسا نظر آتا ہے۔پچھلے چار پانچ سو سال میں دینا بھر میں یہ سب ایک ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔لیکن جس طرح مسلسل نظام ایک ہی سمت میں چل رہا ہے۔ایسے لگتا ہے۔یہ ارتقائی دھارے کو اپنے مرضی کے مطابق ڈھالنے میں بہت عرق ریزی سے منصوبہ بندی کر کے اس پورے نظام کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔ اور اس استحصالی معاشی نظام کو ان خطوط پر استوار کیا گیا ہے۔ کہ یہ سب ارتقائی عمل کا نتیجہ لگتا ہے۔ بے شک جو قومیں پچھلی صدیوں میں باقاعدہ منصوبہ بندی سے وسائل اور منڈیوں کی تلاشِ میں منصوبہ بندی کر کے نکلے تھے۔اج انکی اسی منصوبہ بندی کے تسلسل اور اپنے مقاصد پر مستقل مزاجی سے ڈٹے رہنے اور ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے کے لئے تیار کئے گئے افراد پر مشتمل معاشروں کی بدولت حالات ایسے ہوگئے ہیں۔وہ منڈیاں اور وسائل اب انھیں تلاش کرتے ان کی جھولیوں میں گرتے چلے جاتے ہیں۔یہ ایسی خوش نصیبی لگتی ہے۔ جو وحشیانہ جرائم سے شروع ہوئی تھی اور سفید کالر جرائم سے جاری و ساری ہے۔اورتب تک رہے گی جب تک ہوس زر واقتدار کے پجاری وغلام اس نظام کے آلہ کار اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالتے رہے گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply