انقلاب میمز سے نہیں آیا کرتے۔۔عامر عثمان عادل

تقدیریں جگت بازی سے نہیں بدلتیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کل ایک ہی دن حکومت نے عوام پر بیک وقت دو بم گرائے
پٹرول کی قیمت میں یکمشت 30 روپے اضافہ اور بجلی فی یونٹ 8 روپے تک کر دی گئی۔
آئیں عوام کا فوری رد عمل دیکھتے ہیں
کچھ دن قبل بھی جب حکومت نے رات گئے پٹرول کی قیمت 150 روپے سے بڑھا کر 180 روپے کر دی تو عوام الناس کی بڑی تعداد ہڑبڑا کر اٹھی اور نزدیک ترین پٹرول پمپس کا رخ کر لیا
ایک عجیب سی افراتفری مچی تھی ہر ایک اسی کوشش میں تھا کہ بائیک ہو یا گاڑی بس ایک بار آج ٹینکی فل ہو جائے۔
گمان یوں ہونے لگا جیسے بس آج آخری رات ہے اس کے بعد ملک میں پٹرول نایاب ہو جائے گا۔
میں خود عینی شاہد ہوں الغنی پٹرول پمپ کی دونوں سائیڈز پر لمبی قطاریں لگی تھیں رش اتنا کہ عملہ کم پڑ گیا۔
ایک ہائی  ایس والے کو دیکھا جو ٹینکی فل کروانے کے باوجود بار بار گاڑی کو ہلا ہلا کر گنجائش بنا رہا تھا کہ کسی نہ کسی طرح مزید کچھ لیٹر اس میں اور ٹھونسا جائے۔
خدا کے بندو
چلو اتنا وخت کر کے آپ نے ایک بار تو ٹینکی فل کروا لی اب یہ کتنے دن چلے گا
آج نہیں تو کل مہنگے داموں پھر بھی خریدنا پڑے گا
اب ایک جانب دیکھیں تو سوشل میڈیا پر ایک طوفان بپا ہے کہ دہائی  سی دہائی ہے لوگ مر گئے احتجاج شروع۔
ذرا غیر جانبداری سے دیکھیں تو سہی، فوری ردعمل کے طور پر ملک بھر سے کتنے فیصد افراد بطور احتجاج باہر نکلے۔
اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھ لیں۔
سوشل میڈیا پر میمز کا مقابلہ جاری ہے سیاسی جماعتوں کے کارکن ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خاطر میمز بنا بنا کر شئیر کر رہے ہیں جگت بازی جاری ہے۔
یہ ہماری سنجیدگی ، سوچ کی پختگی ، بالغ نظری اور اجتماعی رویوں کا حال ہے۔
اس قدر شدید بحرانی کیفیت میں بھی ہمیں سستا مذاق سوجھ رہا ہے
اور یہی وہ رویہ ہے جس کی سزا ہمیں حکمران دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لوگ بھول جاتے ہیں۔
اس ملک میں جو بھی بڑے سے بڑا سانحہ رونما ہو جائے ہم چار دن اس کا ماتم کرتے ہیں اور پانچویں دن ایک دوسرے کی چھترول شروع کر دیتے ہیں
اور رہ گیا احتجاج
تو وہ بھی بس اب سوشل میڈیا پر ہی ادا ہو جاتا ہے
ڈی پی تبدیل کر لی
گدھے کتے بندروں کے کارٹون بنا بنا کر اسے مخالف سیاسی رہنماؤں کے ساتھ منسوب کر کے اپنا رانجھا راضی کر لیا
مذمتی بیان کاپی پیسٹ اور شیئر کر لئے
اور گمان کیا کہ ہم بڑے انقلابی ہیں
اور یہ محض اب کی بات نہیں
ماڈل ٹاؤن ہو یا سانحہ ساہیوال
قصور کی زینب پامال ہو یا اسلام آباد کی فرشتہ
ہجوم کے ہاتھوں سری لنکن مینجر کا قتل عام ہو یا کوئی بھی ظلم
ہمیں کچھ بھی یاد نہیں رہتا
چار دن کی ماتمی پوسٹیں اور بس پھر جگت بازی
اب کچھ دانشور کہتے ہیں کہ کہ اجی یہ قوم بڑی زندہ دل ہے
تف ہے ایسی زندہ دلی پہ
سوچیے روز اول سے ہم من حیث القوم ہر ظلم کے خلاف نکلے ہوتے
فرقوں میں بٹے بغیر گروہی تعصب سے ماورا ہو کر
ل ، م ، ن ، ق کی سیاسی عصبیت سے بالاتر ہو کر
ایک آواز ہو کر
تو آج بھلا کسی ظالم کی یہ جرات ہوتی کہ ہمارے بچوں کا نوالہ چھین کر اپنے بچوں کے محل خریدتا
ہم تو وہ قوم ہیں
چینی ڈیڑھ سو کی ہو جائے
مرغی چھ سو پہ جا پہنچے
لیموں 1200 روپے کلو کے بکیں
ہم نے خریدنا بند کئے؟
تو بس پھر انتظار کیجئے پٹرول بھلے 300 کا ہو جائے ہم نے ہر حال میں خریدنا ہے
ہاں بس فیس بک پہ دھمال ہو گی
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply