انگریزی کی دھاک ۔۔ ڈاکٹر شاہ زماں حق

انگریزی کوشایداگرایک لسانی وائرس کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ اِس وائرس کا شکار پندرہ سالہ لڑکا راکیش ہوا تھا جوکہ ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ کے ایک نجی انگریزی میڈیم سکول میں نویں درجے کا طالب علم تھا ۔ ویسے تو راکیش ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا مگر باوجود اس کے، کوئی بھی گھر کا فرد انگریزی زبان نہیں بولتا تھا۔ انگریزی زبان سے بیگانگی کے باوجود انگریزی کا دخل گھر میں ٹی وی اشتہاروں اور مقابلے کے امتحانوں کے رسائل کے ذریعے ہو چُکا تھا۔

راکیش کے والدین کی مادری زبان بھوج پوری تھی اور راکیش کو بھی بھوج پوری میں اچھی مہارت تھی ۔ بہار کے شُمال  میں گوپال گنج نامی چھوٹے سے شہر سے راکیش کے والد طالب علمی کے زمانے یعنی ستر کی دہائی میں پٹنہ آئےاور کچھ سالوں کی کڑی محنت کے بعد وہ بہار پولیس میں بھرتی ہو گئے ۔ اُن کی پوسٹ زندگی بھر ایک تھانے میں سب انسپکٹر کی رہی اور وہ زیادہ ترقی نہیں کر سکے ۔ اُن کو یہی ملال رہا کہ اگر انگریزی آتی ہوتی تو محکمے میں بہتر ترقی ہوسکتی تھی ۔ اُنہوں نے شادی اپنے گاؤں میں کی اور کچھ عرصے کے بعد اپنے دو چھوٹے بھائیوں کو بھی پٹنہ بلا لیا ۔ راکیش کے والد اپنے بھائیوں کو انگریزی پر زیادہ زور دینے کے لیے کہتے تھے ۔ اُن دونوں کا پیشہ تو کچھ خاص نہیں تھا لیکن انگریزی پر اچھی گر فت ہونے کی وجہ سے خاندان میں دونوں کی عزّت ہونے لگی ۔ دونوں کی شادی کے لیے بھی یہ نسخہ استعمال کیا گیا کہ لڑکے فر فر انگریزی بولتے ہیں ۔

اس فرنگی زبان سے لوگوں کو پٹنہ شہر میں یا بہار کےتمام حصّوں میں نہ جانے کیسی کیسی امیدیں بندھ جاتیں ۔ انگریزی بولنے والا کامیابی کی سیڑھی تیزی سے چڑھے گا ۔ ہمیشہ ایک رعب رہے گا ۔ سرکاری نوکری تو بچّوں کا کھیل ہے، نجی کمپنیاں ہاتھوں ہاتھ استقبال کریں گی۔ انگریزی کوئی زبان نہ ہوئی بلکہ ایک شاہی پوشاک ہو گئی ۔ اِسی پوشاک کو پہننے کی اور اپنی اولادوں کو پہنانے کی ایک خواہش چلی ہوئی تھی ۔

راکیش کے والد یوں تو پٹنہ میں نوکری کے دوران ہی انگریزی کی اہمیت سمجھ گئے تھے لیکن پٹنہ آنے سے پہلے جب وہ اپنے گاؤں میں رہتے تھے تو اُنہیں ایک واقعہ یاد تھا ۔ اُن کے گاؤں میں دو گروہوں کے درمیان جھڑپ ہو گئی ۔ پولیس بھی پہنچی لیکن معاملہ سُلجھ نہیں رہا تھا ۔ اچانک ایک شخص نمودار ہوا۔ اُس نے انگریزی میں زور سے سبھی کو ڈانٹ پِلائی اور کہا “کیپ یور ماؤتھ شَٹ”۔

یہ سُنتے ہی سبھی کو سانپ سونگھ گیا ۔ یہ فقرہ کسی کو سمجھ میں تو نہیں آیا لیکن انگریزی کے رعب کا اثر فوری طور پر دکھائی دینے لگا ۔ وہاں پر کھڑے پولیس والوں نے اُس شخص کو زور دار سیلوٹ کیا اور اُنہیں ایسا لگا کہ وہ نوجوان اُن کا افسر ہو ۔

“واٹس دا میٹر ؟ “ (کیا ماجرا ہے ؟)” – نوجوان شخص نے اپنی آواز میں مزید کڑک پیدا کر تے ہو ئے کہا۔

“نو سَر، نہیں سَر، یَس سَر، پِلیج سَر” ۔ ایک پولیس والے نے گھبراتے ہوئے ایک دو لفظ انگریزی میں بَڑبَڑانے کی کوشش کی ۔ اُس نے اپنے ماتحت کو کُرسی منگوانے کا اشارہ کیا ۔ کُرسی پر وہ شخص بیٹھا۔ سبھی اُس کی باتوں کو سُن رہے تھے، وہ بیٹھتے ہی بھوج پوری میں بات کرنے لگا تھا لیکن پھٹکار انگریزی میں لگاتا ۔

راکیش کے والد کو معلوم تھا کہ وہ شخص دس سال پہلے دہلی پڑھائی کرنے گیا تھا ۔ دہلی یونیورسٹی سے فلسفہ میں ماسٹرز کرنے کے بعد وہ بیروزگار تھا۔ اپنا خرچا چلانے کے لیے دہلی کے اوکھلا گاؤں کے مُحلّے میں وہ انگریزی ٹیوشن پڑھاتا تھا۔ گھر میں اُس کے یہاں بدحالی تھی، پیسے وہ باقاعدگی سے بھیجتا نہیں تھا۔ لیکن آج اُس کا رعب دیکھ کر راکیش کے والد کو یقین ہو گیا کہ انگریزی سے معاشرے میں عزت ضرور مل سکتی ہے۔
راکیش کو انگریزی کی اہمیت کی گھُٹّی اُس کے والد نے جم کر پِلائی ۔ اُس کا داخلہ پٹنہ کے ایک نامور انگریزی میڈیم سکول کرائسٹ چرچ میں کروا دیا گیا۔ وہاں ہندی ٹیچر کے علاوہ سارے اساتذہ صرف انگریزی میں طلبا سے گفتگو کرتے۔

راکیش کا قد لمبا، سانولا رنگ، موٹا چشمہ اور اُتنے ہی موٹے ہونٹ اُس کے منحنی سے جسم پر خوب نُمایاں ہوتے تھے۔ راکیش کو اپنے معمولی نقوش کا احساس تھا ۔ اپنی طرف ساتھیوں کو مائل کرنے کے لیے اس نے خود پر ہنس کر دوسروں کو ہنسانے کا کام شروع کر دیا۔ مزاجاً راکیش بہت بڑا گپّی تھا۔ اُس کا دل گپ سے کبھی نہ بھرتا ۔ گپ جیسے اُس کی زندگی کے لیے دوسری آکسیجن تھی ۔ وہ سکول تو گپ لگانے کے لیے ہی آتا تھا ۔

اس کے چند ہم جماعتوں میں اُس کی دوستی عرفان سے پکی ہو گئی جو اُسی کے محلّے میں دو فرلانگ کی دوری پر رہتا تھا۔ عرفان کو بھی انگریزی سے کافی لگاؤ تھا لیکن وہ راکیش کی طرح انگریزی کے نشے میں غرق نہ رہتا تھا ۔

راکیش کی کلاس میں یوں تو انگریزی پر مہارت حاصل کرنے والا ایک سے بڑھ کر ایک طُرّم خان تھا لیکن ایک لڑکا جس کو وہ اپنا گرو تسلیم کر چُکا تھا وہ تھا راجیش ۔ بھاری بھرکم ضخیم بدن کا مالک، گول چہرہ، نیم سانولا رنگ، موٹے موٹے چشمے اور گھنگھریالے بال والا یہ چھ فُٹ کا ساتھی کلاس میں سب سے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھتا تھا۔ راجیش کی اپنی ایک مُتوازی کلاس چلتی تھی جس کا موضوع شیکسپیئر کے بدنام کردار ہوا کرتے تھے۔ راجیش اُن کے بارے میں بہت پُراسرار اور دھیمی آواز میں انگریزی میں لکچر دیتا ۔ بظاہر اُس کا اپنا گروہ تھا اور اُس کے سُننے والے اُسی کے مدّاح تھے۔ درسگاہ کے کسی بھی استاد کی ہمّت نہ ہوتی کہ راجیش کو کلاس کے پیچھے بُدبُداتے دیکھ کر ڈانٹ پلائے۔ راجیش نے اپنے انگریزی کے رعب سے ان کو متاثر کر رکھا تھا۔ وہ انگریزی کے اُن الفاظ کا استعمال کرتا جس سے اُس کے اساتذہ بھی نابلد تھے ۔ راکیش، راجیش اور اساتذہ کے درمیان تکرار کو دیکھ کر خوب لطف اٹھاتا ۔ شروع شروع میں تو راکیش راجیش کے لہجے کی نقّالی کرتا لیکن انگریزی میں رفتہ رفتہ عبور حاصل کرنے کے بعد اُس نے انگریزی میں کلام کرنے کا اپنا الگ ہی انداز اختیار کر لیا۔ ہاتھوں کو اوپر کی طرف لہراتا، لمبی مُسکان کھینچتا اور اوپری جسم میں خمیدگی پیدا کرتا۔

راکیش نے غور کیا کہ سکول کے بعد یا چھُٹیوں کے دوران اُس کے انگریزی بولنے کا دائرہ تقریباً ختم ہو چکا تھا ۔ لے دے کر عرفان تھا یا مُحلّے میں ایک دو اور جماعت کے ساتھی جِن کے ساتھ وہ گفتگو کرتا ۔ لیکن اِس گفتگومیں طمانیت نہ تھی ۔ باتیں چندرسمی انگریزی جملوں یا چند انگریزی الفاظ سے آگے نہ بڑھ پاتیں ۔ یہ دیکھ کر اُسے ایک الگ صدمے کا احساس ہوا ۔ اب وہ انگریزی میں کہاں گفتگو کرے؟

نَوّے کی دہائی میں پٹنہ کے پوش علاقوں میں اچانک سپوکن انگریزی کوچنگ اور کمپیوٹر پروگرام کے کورسز کی بھرمار شروع ہوگئی ۔ راکیش نے ایک دو اشتہار کے بورڈ دیکھے تو اُس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ کیوں نہ ان جگہوں پر اپنی انگریزی آزمائی جائے۔ راکیش نے اُن اداروں میں جانا شروع کیا اور ریسپشن پر ہی ایسی انگریزی ٹھونکتا کہ سبھی سُننے والوں کو کچھ سمجھ میں نہ آتا۔ راکیش ایک ایک کا منہ تکتا کہ اُس نے فارسی تو نہیں بولی ہے۔

راکیش ایک سیدھا سا سوال جڑتا (وھاٹ اِز دا موڈیوُل آف یور کورس ؟) ۔ راکیش کے انگریزی فقرے کوچنگ کے ڈائریکٹروں کے پلےّ نہ پڑتے ۔ وہ اپنا سر کھجاتے اور بہانہ بناتے ہوئے اپنے چیمبر سے باہر نکل جاتے۔ ریسپشن کی کم عمر خواتین داخل ہوتیں اور راکیش کے ہاتھوں کو پکڑ لیتیں اور کہتیں “کیسے ہیں سَر، کچھ چائے ٹھنڈا لیں گے کیا ؟” ۔ راکیش نے جب اپنی آؤ بھگت دیکھی تو بغلیں بجانے لگا۔

دھیرے دھیرے پورے شہر میں راکیش کی رعب دار انگریزی کا ڈنکا بجنے لگا ۔ کوچنگ والوں پر ہیبت طاری ہو گئی۔ راکیش کو دیکھتے ہی کوچنگ کا مالک اپنے خادموں کو بولتا “ارے شٹر گِرا شٹر” ۔ انہوں نے کوچنگ سنٹر کے پھاٹک پر ایک نئے ملازم کو رکھا جس کا محض یہ کام تھا کہ وہ راکیش کی آمد پر سبھی کو آگاہ کرے۔

راکیش پٹنہ کی سڑکوں پر لارڈ میکالے کے لسانی منصوبے کی ایک جیتی جاگتی تصویر تھا۔ راکیش کے خون اور گوشت میں ہندوستانی ثقافت کُوٹ کُوٹ کر بھری تھی لیکن انگریزی زبان سے وہ ایک انگلِش مین یا ملکہ وِکٹوریا کا تابع لگتا تھا۔ زبانِ انگلستان کےعشق کا خمار ایساچڑھا ہوا تھا کہ دیوانگی کے عالم میں انگریزی بولنے کے لیے بے چین رہتا۔

راکیش جب ایک کوچنگ سنٹر سے نکلتا تو جارحانہ انداز میں دوسرے کا رُخ کرتا ۔

راکیش کو جس شام انگریزی بولنے کا موقع نہ ملتا تو وہ دُرشت آواز میں راہ چلتے لوگوں پر طنز کے تیر پھینکتا۔ ایک بار تو اُس نے رات کی تاریکی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک کافی بھاری بھرکم شخص کو پیچھے سے کرخت آواز میں کہا : “ابے او جٹ دھاری، کدھر جا رہا ہے بے ؟ ” اتنا سُننا تھا کہ اُس شخص کی چال لڑکھڑا گئی ۔ راکیش گھوڑے کی مانند ہِنہِنا کر ہنسا ۔ اپنے سینے کو ٹھونک کر بولا کہ” یہ ہمَّت انگریجی کی دین ہے”۔

راکیش کے حجرے میں انگریزی کتابیں، انگریزی رسائل کا ایک پلندہ پڑا رہتا۔ شاید وہ کباڑ کی دکان سے ان رَدِّیوں کو اُٹھا کر لے آتا کیونکہ یہ انگریزی میں تھے۔ جب کوئی دوست اُس کے گھر آتا تو وہ بہت خوش ہو کر اُسے اپنے کمرے میں لے جاتا اور ایک ایک رسالہ کھول کھول کر اُس کو دکھاتا اور تفصیل سے بتاتا کہ فلاں آئی اے ایس کو انگریزی کی وجہ سے کس طرح کامیابی ملی۔

رفتہ رفتہ راکیش کے کوچنگ سنٹروں کے دورے میں کمی آتی گئی کیونکہ شہر میں کوئی ایسا کوچنگ سنٹر نہیں بچا تھا جہاں راکیش نے اپنے انگریزی کے جوہر نہ دکھائے ہوں ۔ اب اُس کا آٹھ پہریہی رونا تھا کہ کوئی نیا کوچنگ سنٹر کھُلے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب راکیش کی عمر پچاسویں برس کی طرف گامزن ہے ۔ وہ تجرّد کی زندگی گزار رہا ہے۔ گھر میں بُوڑھی ماں متمنّی ہے کہ گھر میں بہو آئے مگر راکیش نے انگریزی کو ہی عروسی درجہ دے دیا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply