خالد سعید کا جنت سے میرے نام ایک خط۔۔سیّد علی نقوی

حاجی صاحب آداب!

تم سے آخری ملاقات 23 اپریل کو ہوئی تھی اسکے بعد نقاہت بڑھتی گئی اور کب میں تھکن سے نڈھال ہو گیا معلوم ہی نہیں ہوا، آوازیں آتی رہیں کبھی علی اطہر کی تو کبھی تاری (طارق سعید چھوٹے بھائی) کی تو کبھی کوئی انجانی سی آواز، میں نے یہ تو سٌن لیا تھا کہ میں کومے میں چلا گیا ہوں لیکن موت کی خبر نہ ہوئی، بہرحال میرے جنازے کا احوال مجھے تفصیل سے لکھنا، سنا ہے ملک اسلم نے زور دار تقریر کی ،میری چارپائی ذرا فاصلے پر تھی آواز آ تو رہی تھی لیکن مدہم تھی۔۔ کچھ احوال میرے کانوں میں تب پڑا کہ جب مجھے دفنانے کے بعد عامر سہیل علی اطہر کو میری قبر کے سرہانے بیٹھا چپ کرانے کے بہانے تلاش رہا تھا ،کہنے لگا
“یار اج ملک اسلم کمال کر دتا”

مجھے تو یاد ہی نہیں تھا کہ رمضان چل رہا ہے اور میں 27ویں اور 28 ویں کے بیچ دنیا سے رخصت ہوا، لیکن یہ سوچ کر اچھا لگا کہ چلو میرے شاگردوں میں سے کئی ہیں جو اس وجہ سے تسلی میں آ گئے ہوں گے کہ شاید اِن با برکت لمحات کی موت سے انکا استاد بخشا جائے۔۔

حاجی صاحب بتانا یہ تھا کہ یہ مزے کی دنیا ہے شور ،آلودگی، تعفن، گھٹن کچھ بھی نہیں ہے، لوگوں سے ملاقات ترتیب سے ہوتی ہے جو تازہ تازہ آئے ہیں وہ پہلے ملتے ہیں جن کو یہاں آئے وقت ہوگیا انکی مصروفیات اور نخرے دونوں ہیں، جن کی فرشتوں اور غلمانوں سے دوستیاں اور بے تکلفیاں ہیں وہ ہاتھ نہیں آتے تو خود سمجھ لو کہ جن کو حوریں میسر ہونگی وہ کیا ہونگے۔۔

یار تم لوگوں نے زیادتی کی مجھے کسی نے یہ نہ بتایا کہ عابد عمیق مجھ سے کچھ دن پہلے فوت ہوا، نہ مجھے کسی نے اطہر رحمن کا بتایا اور قاضی عابد کو تو جب میں نے دیکھا تو مجھے لگا کہ شاید میں ابھی زندہ ہی ہوں، لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ حالت جو میری تھی اس میں کوئی افسوس ناک خبر نہیں دینی چاہیے حالانکہ یہ میرے نزدیک ایک بوگس بات ہے، بہر حال یہاں آتے ہی سب سے پہلے اطہر رحمٰن ملے پھر اگلے دن قاضی عابد ملا اور دو دن کے بعد عابد عمیق سے ملاقات ہوئی، میں نے قاضی سے پوچھا کہ یہاں سگریٹ اور چائے کا کیا انتظام ہے؟؟ قاضی نے کہا کہ یہ دو انتظام تو آپ کو ابھی کیے دیتا ہوں، حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ابھی جملہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ چائے اور میرے فیورٹ پرنسٹن سگریٹ کا ایک پیکٹ تپائی پر دھرا تھا، میں نے پرنسٹن دیکھا تو نہال ہوگیا کہ یہ ملاقات بہتر لگی مسیحا و خضر سے، چائے نے بھی وہ لطف دیا کہ کیا کہنے، تم تو جانتے ہو کہ دو سال سے چائے کا لطف نہیں لے پایا تھا یہاں کی چائے میں ایک قباحت ہے کہ وہ ٹھنڈی نہیں ہوتی، چائے پی، خوب سگریٹ پی، لیکن شاید میری آنکھوں میں سوال باقی تھا؟؟ قاضی نے سوال بھانپ لیا آنکھ مار کر کہنے لگا کہ اسکا تو یہاں وعدہ ہے یعنی عین قانونی۔۔

کل ہی مجھے کسی نے بتایا ہے کہ جب سے مسعود اشعر یہاں آئے ہیں تو روز شام میں آصف فرخی صاحب نے محفل جمانی شروع کر دی ہے جس میں آئی اے رحمٰن، سلمان تاثیر، عاصمہ جہانگیر ، حیدر عباس گردیزی وغیرہ تو روز آتے ہی ہیں سنا ہے گیارہ فروری کو فیض صاحب کی سالگرہ پر رحمٰن صاحب فیض صاحب، ایلس اور ایم ڈی تاثیر کو بھی لے کر آئے تھے، طے ہوا کہ کل سہ پہر میں ہم اطہر رحمٰن کے کمرے میں اکھٹے ہونگے ،اطہر رحمٰن کا کمرہ ساتھ ہی ہے وہ ابھی گیسٹ ہاؤس میں ہی مقیم ہیں، امید ہے کہ ہمیں جاڑے سے پہلے اپنے اپنے کوارٹر الاٹ ہو جائیں گے، اگلے دن چار بجے میں اطہر رحمٰن کے کمرے کے لیے نکل ہی رہا تھا کہ سامنے حیدر عباس گردیزی کھڑا تھا وہی کاٹن کا سوٹ، وہی عینک، وہی جپھی حیدر عباس کو میں نے کہا کہ یار تیرا جنازہ بھی ہم نہیں پڑھ سکے تھے میں نے اسے بتایا کہ علی نقوی کے فیسٹول کے دن تمہاری موت نے پورا فیسٹیول سوگوار کر دیا۔ حیدر کہنے لگا مجھے بہت افسوس ہے کہ میں وہ فیسٹیول نہیں دیکھ سکا، خیر میں، حیدر عباس، اطہر رحمن اور قاضی عابد مسعود اشعر کے گھر پہنچے تو وہاں آئی اے رحمن، عاصمہ جہانگیر ، مدیحہ گوہر اور محسن نقوی پہلے سے موجود تھے ۔آج یہاں پر منصور ملنگی کے ساتھ ایک شام رکھی ہوئی تھی جس نے محسن نقوی کا غیر مطبوعہ سرائیکی کلام گا کر سنانا تھا، اب تم خود سوچ لو کہ جہاں منصور ملنگی نے محسن نقوی کو گانا ہو وہاں کیا کیا ہوگا ؟؟

رات گئے میں کمرے میں آیا تو سوچا کہ کیا یہاں پڑھنے کو بھی کچھ ہے یا نہیں؟؟ معلوم ہوا کہ آپکا لاگ اِن تو بن گیا ہے لیکن پاسورڈ ابھی لوحِ محفوظ میں محفوظ ہے ایک دو دن میں جب آپکے اعمال کا آڈٹ ہو جائے تو آپ کو مل جائے گا، آپکے موجودہ اعمال کو دیکھتے ہوئے آپ فی الحال ڈاکٹر اسرار احمد کی ویڈیوز اسیس کر سکتے ہیں جس سے بہتر سونا تھا لہٰذا میں سو گیا۔۔

یہاں پر معززین کے لیے مشقتی اور با عمل پابندِ شریعت معززین کے لیے مشقتی کے ساتھ حور بھی میسر ہوتی ہے تم تو جانتے ہو کہ مجھے با عمل اور معزز دونوں ہونا قبول نہیں ہے لہٰذا اپنے ہر کام کے اہتمام کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے فرشتوں نے جو تھوڑا بہت منہ مجھے شروع شروع میں لگایا اسکی وجہ شاید میری تاریخِ وفات تھی کہ جس کا اثر ماہ رمضان کے ساتھ ختم ہو چکا ہے لہٰذا اب ہر کام کے لیئے مجھے دوستوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔

پہلے پہل جب دوستوں کو معلوم ہوا کہ میں بھی یہاں آ گیا ہوں تو بہت لوگ ملنے آئے ،ایک دن مرشدی محمود نظامی ملنے آئے اور کہا کہ آپکی ویلکم پارٹی رکھنی ہے کب رکھیں؟؟ میں نے کہا کہ لعنت بھیجو میری ویلکم پر لیکن پارٹی ضرور رکھو، لسٹ بننی شروع ہوئی میں نے ایرک سپریئن اور ڈاکٹر اجمل کو ملنے کی فرمائش داغ دی، کافی سوچ بچار کے بعد حل یہ نکالا گیا کہ پہلے ڈاکٹر اختر احسن کو ڈھونڈا جائے کہ وہ ابھی کچھ عرصہ پہلے یہاں آئے ہیں آسانی سے مل بھی جائیں گے اور یہ ممکن نہیں کہ اختر احسن اتنے عرصے سے یہاں ہوں اور وہ ڈاکٹر اجمل کو نہ ملے ہوں، لہٰذا ڈاکٹر اختر احسن کی تلاش شروع ہوئی سائیکالوجی کے لوگوں سے جدید شاعری کے لوگوں سے پوچھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ آج کل اختر احسن جنت کے ماحول سے اکتائے ہوئے ان لوگوں کی کونسلنگ کر رہے ہیں جو دنیا کی طرز پر یہاں بھی ایک فری مارکیٹ اکانومی بنانا چاہتے ہیں اور اختر احسن کی کوشش یہ ہے کہ کسی بھی طرح انکو جدید شاعری کی طرف مائل کیا جائے یا ان سے افسانے لکھوائے جائیں۔ ہمیں چار پانچ دن کی جدوجہد کے بعد اختر احسن میسر آئے تو ان سے دریافت کیا کہ ڈاکٹر اجمل اور ایرک سپرئین کا کوئی پتہ اگر آپکو معلوم ہو تو فرمانے لگے کہ ڈاکٹر اجمل رات انہی کے گھر تھے اور رات کا اہتمام کچھ یوں ہوا کہ وہ وہیں کہ وہیں ہیں جہاں کل آ کر بیٹھے تھے ابھی تک وہاں سے ہل نہیں پائے، خیر میری خواہشیں تھیں کہ بڑھتی جاتی تھیں بھئی اب تو ہم جنت میں ہیں یہ تو خواہشات کے پورا ہونے کی جگہ ہے یہاں کیسی شرم، اب میں نے کہا کہ تقریب کی صدارت فیض صاحب سے اگر نہ کرائی تو کیا مزہ آیا ؟

طے ہوا کہ کل آئی اے رحمٰن سے کہیں کہ ہمیں فیض صاحب کے گھر لے چلیں اگلے دن معلوم ہوا کہ آج رات مرزا غالب نے اپنے بنگلے پر کہ جو ہمارے گیسٹ ہاؤس سے آٹھ نوری منٹ کے فاصلے پر ہے ایک شام قراۃ العین حیدر کی یاد میں رکھی ہے اندھا کیا مانگے دو آنکھیں مجھے تو سمجھیے کہ چار چار مل گئیں ۔پہلا خیال یہ آیا کہ کاش میں کسی بھی طرح انوار احمد یا نجیب جمال سے رابطہ کر کے یہ پوچھ سکوں کہ قراۃ العین حیدر کی جھاڑ سے بچنے کا مجرب نسخہ کیا ہے؟؟ لیکن پھر خیال آیا کہ اس دنیا میں تو کسی کو غصہ آتا ہی نہیں، اسی لیے آج تک یہاں کسی تحریک نے جنم نہیں لیا، یہاں کبھی احتجاج نہیں ہوا، ہڑتال، مورچہ، دھرنا، بلوہ یہاں کے معاملات نہیں ہیں، مختصر یہ کہ فرشتے بک کروائے گئے اور ہم قریباً دس لوگ مرزا غالب کے گھر پہنچے قراۃ العین حیدر تشریف لا چکیں تھیں شاعروں، ادیبوں اور دادیوں کا ایک جم غفیر جمع تھا میں نے اصغر علی شاہ صاحب کو کہا کہ ہم اتنے مہنگے فرشتے کرا کے یہاں آ تو گئے کیا ہم یہاں فیض صاحب سے مل بھی پائیں گے شاہ صاحب نے کہا ہاں مل ہی لیں گے کہ یہ کونسی کوئی لاہور کی الحمرہ ہے اور یہاں کونسا کوئی فیض فیسٹیول ہو رہا ہے اور اس تقریب کی انتظام کونسا کسی منیزہ اور سلیمہ ہاشمی کے ہاتھ میں ہے، تقریب شروع ہوئی بیک ڈراپ پر مرزا کا مصرعہ

” تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے”

لکھا تھا اور اس پر قراہ العین حیدر کی تصویر تھی جو شاید علامہ اقبال کو کہہ کر آئیں تھیں کہ
کارِ عدن دراز ہے
اب میرا انتظار کر

تقریب پہروں چلی لیکن صبح نہ ہوئی اس رات میں ہم فیض صاحب سے مل لیے ،پارٹی کی صدارت کی درخواست دی، جو ہمیشہ کی طرح فوراً قبول ہو گئی مرزا غالب اور قراۃ العین حیدر تو ہاتھ نہ آئے لیکن لگے ہاتھ کئی شاعروں اور ادیبوں کو ہم نے مدعو کر لیا واپسی پر میں وہی سوچ رہا تھا جو اپنے زمانہ طالبعلمی میں سوچا کرتا تھا کہ اگر کوئی بھی نہ آیا تو کوئی بات نہیں فیض صاحب تو لازمی آئیں گے یہی کافی ہے۔

خیر اگلے دو تین دنوں میں مرزا ابنِ حنیف کے گھر عرش صدیقی صاحب سے انکے علاوہ ارشد ملتانی، اقبال ارشد، شاہیا صاحب، زوار حسین صاحب، عبد الروف شیخ، فرتاش سید، عاصی کرنالی اور حسین سحر سے ملاقات ہوئی طے یہ ہوا کہ تقریب کی میزبانی حسین سحر کریں گے ظاہر ہے کہ مغرب کے بعد کی تقریب تھی ، یہ طے تھا کہ مشروب کیا ہو گا لیکن کھانے میں باربی کیو ہی ہو یہ نعیم چوہدری سربراہ انتظامی امور کی ضد تھی اب مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ کس جگہ پر تقریب ہو ؟؟ بھئی جو لوگ یہاں بہت پہلے آ گئے جیسے مرزا غالب ،علامہ اقبال، داغ دہلوی انکے تو اپنے وی آئی پی بنگلے ہیں فیض صاحب کو مزاحمتی شاعری کی وجہ سے ایک مناسب سا گھر ملا ہے باقی عام لوگوں کے کواٹر ہوتے ہیں سب سے بڑی جگہ میدانِ حشر ہے کہ جہاں قیامت برپا ہونی ہے اور چونکہ وہ اب قریب ہے تو وہ مینٹیننس کی وجہ سے تقاریب کے لیے بند ہے، ایک چڑیا کی خبر ہے کہ آغا حشر اس انتظار میں ہیں کہ کب ملک ریاض مرے اور کب وہ اسکے ساتھ مل کر اس میدانِ حشر پر قبضہ کر کے یہاں بحریہ ٹاؤن کا سنگِ بنیاد رکھیں، اس نا جائز قبضے کے لیے انہوں نے جنت پار جہنم میں مقیم ضیاء الحق سے بھی کئی بار رابطہ کیا ہے، میں نے مخبر سے پوچھا کہ کیا خداوند آغا صاحب کے اس منصوبے سے آگاہ نہیں ہے تو کہنے لگا کہ ہے تو سہی لیکن پروردگار فیض صاحب کو اپنے حوصلے دکھا رہا ہے۔

آخر کار ہمیں قسور گردیزی کی سفارش پر دودھ اور شہد کی نہر کنارے رعائیتی نرخوں پر ایک کینال ویو لوکیشن میسر آ ہی گئی تقریب میں ملتانیوں نے زیادہ شرکت کی ایرک سپریئن اور ڈاکٹر اجمل سے ملاقاتیں ہوئیں تقریریں ہوئیں، شاعریاں پڑھیں گئیں میرے دیناوی کارنامے گنوائے گئے تو مجھے معلوم ہوا کہ
“مرنا ایک بار بھی بُرا ہی ہے”
اور کچھ لوگ مرنے کے باوجود سچ نہیں بول پاتے اچھا ہوا کہ ہم مرزا غالب اور قراۃ  العین حیدر کو نہیں بلا لائے کہ جو جو تقاریر وہاں ہوئیں وہ فیض صاحب جیسا ٹھنڈے دماغ کا آدمی تو برداشت کر سکتا تھا مرزا اور قراۃ العین حیدر کے بس کی بات نہیں تھی۔

لیکن جو بھی ہے مزے دار ہے کم از کم میرے اندر ایک تحریک موجود ہے جو دنیا میں ختم ہوتی جا رہی تھی کہ میں اب کسی دن فرائیڈ کو ملوں گا اسی طرح ارسطو، افلاطون، سقراط، ارسٹوفینیز، سوفوکلیز، بورخیز، مارکیز، شیکسپیئر، لیونارڈو ڈی ونچی، بلھے شاہ، شاہ حسین، کارل مارکس، بینظیر بھٹو اور نہ جانے کس کس کو ملوں گا جب دل کرے گا چونسا کھاؤں گا اور حسین شامیں اور روشن صبحیں دیکھوں گا کہ جو دنیا میں صرف فیض صاحب کی شاعری میں نظر آتی تھیں

Advertisements
julia rana solicitors

میں ایک بات پر اداس ہوں کہ کوپی اور چوچو کا کوئی نشان اب تک میں نہیں ڈھونڈ پایا میں اپنے ان تمام دوستوں اور بچوں سے ملنا چاہتا ہوں کہ جو میری نوع سے نہیں تھے لیکن سب سے زیادہ میرے تھے دعا کرو کہ جلد میں ان سے مل لوں تو تمہیں اس ملاقات کا تفصیلی احوال لکھوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply