اے مرے سپہ سالار۔۔عامر عثمان عادل

سوال ایک بیٹی کا ہے جو خطا کر بیٹھی ہے،اور بیٹیاں بہنیں تھانے کچہری جاتی اچھی نہیں لگتیں۔
ایک پڑھی لکھی باشعور روشن خیال لڑکی،جس کی ماں کو دن دیہاڑے اٹھا لے جایا گیا اور اس انداز میں کہ خون کے رشتوں تک کو خبر نہ ہوئی   کہ اسے کہاں لے جایا گیا ہے۔
اس نے عدالت کا دروازہ جا کھٹکھٹایا
احاطہ عدالت میں میڈیا کے اکسانے پر اس نے آپ کا نام لیا اور ایک انتہائی  نامناسب لفظ بول دیا۔۔
جس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے
اس کا ایک پس منظر تھا اس لڑکی کا شمار بھی بہت سے ان پاکستانیوں میں سے تھا جو آپ کے ادارے کے متعلق مخصوص نظریات رکھتے ہیں۔
اب جب اس کی ماں کو جس انداز میں گھسیٹتے ہوئے لے جایا گیا اس کا غم و غصہ تھا اور پھر ایک بد گمانی نے اس غصے کو اور بھی ہوا دی
اب آپ کی ناموس اور ادارے کی توقیر کا سوال تھا سو قانونی چارہ جوئی  کے لئے اس لڑکی کے خلاف تھانے میں ایف آئی آر درج کرائی گئی اور کہا جاتا ہے کہ ایسا پہلی بار ہوا۔
اس نے عبوری ضمانت کرا رکھی ہے اور آج یہ شامل تفتیش ہونے کے لئے تھانے میں پیش ہوئی ۔
مان لیا کہ اس کا یہ عمل باعث مذمت ہے جس کے دفاع میں کوئی  دلیل پیش نہیں کی جا سکتی۔
حضور ! جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں ؟
مجھ جیسا ہر پاکستانی یہ سوال کرنے کی جسارت ضرور کرے گا کہ آخر یہ بیٹی ہی کیوں
بالکل یہی لفظ کیمروں کے سامنے حامد میر بھی کہہ چکا،فرق صرف اتنا کہ اس نے نام نہ لیا
اس کے خلاف کوئی مقدمہ؟
اس سے سخت الفاظ متعدد بار وکلاء حضرات کورس کی شکل دہرا چکے ہیں۔
کوئی ایف آئی آر ان کے خلاف کسی تھانے میں؟
دو بار وزیر اعظم رہنے والے بڑے میاں صاحب لندن بیٹھے کئی بار آپ کا نام لے لے کر بہت سے الزام آپ پر لگا چکے
کسی عدالت میں کوئی چارہ جوئی ؟
دختر نواز شریف مریم نواز صاحبہ یہی عمل متعدد بار دہرا چکی ہیں بس الفاظ کا ہیر پھیر ہو سکتا ہے
کوئی کیس آج تک ان کے خلاف
تو پھر یہ ایک لڑکی ہی زیر عتاب کیوں ؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کی ماں نے کچھ سخت سوال اٹھائے تھے ؟
کیا شیریں مزاری کی بیٹی ہونا بھی اس کے نامہ اعمال میں سیاہی سے لکھا جائے گا
عالی جاہ !
اگر آپ نے حامد میر سے لے کر مریم نواز تک درگذر سے کام لیا ہے تو اس لڑکی کو بھی معاف کر دیں
شیریں مزاری کی بیٹی سمجھ کر نہیں
اپنی بیٹی سمجھ کر
گھروں میں اولادیں کیا کچھ نہیں کہہ جاتیں ماں باپ کو
اونچی آواز میں بول دیتی ہیں کبھی سخت الفاظ بھی ان کے منہ سے نکل جاتے ہیں اور خاص طور پر بیٹیاں اگر ایسا کریں تو کیا ان کو تھانے کا منہ دکھایا جاتا ہے ؟
آپ کا اس کا مقابلہ بھی کیا
کہاں آپ اور کہاں یہ ناسمجھ ill informed لڑکی
غصہ جانے دیجئے
بہتر نہ ہوگا آپ اس کو تھانے سے جیل یاترا کرانے کی بجائے بڑے پن کا مظاہرہ کریں
اس کے سر پہ دست شفقت رکھیں
پاس بلائیں اور کہیں بیٹی آؤ اور کہہ ڈالو جو دل میں ہے ؟
کیوں ہم سے ناراض رہتی ہو
آپ کی یہ شفقت پدرانہ اس کی کایا پلٹ سکتی ہے
ایک لمحے کو فرض کریں اسے جیل ہو جاتی ہے تو یقیناً کچھ عرصے بعد ضمانت بھی ہو جائے گی
مگر اس کے اندر اس گھڑی جو غصے کا الاو ہے کیا وہ سرد ہو جائے گا؟
اور اگر ایسا ہوتا ہے تو وطن عزیز کی بہت سی بیٹیاں اس راہ پر چل نکلیں گی
آپ کا حسن عمل ففتھ جنریشن وار کے ڈسے ان نوجوان لڑکے لڑکیوں کو راہ راست پر لا سکتا ہے
اے میرے سپہ سالار !
اگر داوڑوں پشتینوں اور ٹی ٹی پی والوں سے بات چیت کا دروازہ کھل سکتا ہے تو قوم کی ایک بیٹی کے لئے کیوں نہیں
تو پھر اپنی انا غصے اور توہین کے احساس کو ایک جانب رکھ کر
اپنی اس بیٹی کے سر پہ چادر رکھ دیں
شفقت کی محبت کی تحفظ کی
کیوں کہ آپ ہمارے محافظ بھی ہیں اور باپ بھی
سوال ایک بیٹی کا ہے
جو خطا کر بیٹھی ہے
اور بیٹیاں تھانے جاتی اچھی نہیں لگتیں!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply