1970 میں بھارت کی جنوبی ریاست تمل ناڈو میں میری کیتھرین نامی خاتون ’بلیو ماؤنٹین‘ نامی چلڈرن ہوم چلاتی تھیں۔ جہاں دو بہن بھائی وجیا اور راج کمار بھی رہتے تھے۔
1979 میں راج کمار کو ڈنمارک اور وجیا کو امریکہ کے ایک جوڑے نے گود لیا اور ان کے نام کیسپر اینڈرسن اور ڈاین وجیا رکھ دئیے، اور ایسے دونوں بہن بھائی الگ الگ ملکوں میں جا بسے۔
اب 42 سال بعد ڈی این اے ٹیسٹنگ ٹیکنالوجی نے دونوں بہن بھائیوں کو پھر سے ملا دیا۔
وجیا کو یاد ہے کہ ان کا ایک چھوٹا بھائی تھا لیکن جب کیسپر کو گود لیا جا رہا تھا وہ اس وقت بہت چھوٹے تھے۔ انھیں یاد نہیں تھا کہ ان کی کوئی بہن بھی ہے۔ وجیا کا کہنا ہے کہ انہیں یاد ہے کہ جب وہ تین سال کی تھیں تو ان کی ماں نے انھیں یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ وہ کھانا لینے باہر جا رہی ہیں، اور اس کے بعد انہوں نے اپنی ماں کو کبھی نہیں دیکھا۔
راج کمارکا کہنا ہے کہ وہ دو بار بھارت آئے لیکن چلڈرن ہوم بند ہونے کی وجہ سے انہیں کوئی بھی معلومات حاصل نہیں ہوسکیں، تاہم پھر ان کے دوست نے انہیں ڈی این اے ٹیسٹ کا مشورہ دیا، اور کہا کہ بہت سی کمپنیاں ایسی ہیں جو ڈی این اے کے نمونوں کی جانچ کر کے اپنے سٹورز میں رکھے ہوئے نمونوں سے میچ کرتی ہیں۔
جس کے چند ماہ بعد ہی انہیں امریکا سے کال موصول ہوئی، جس میں بتایا گیا کہ ان کے ڈی این اے کا نمونہ کسی حد تک کیسپر کے نمونے سے ملتا جلتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں