نہ نوحہ نہ تحسین۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

وہ “بوکو حرام” والے تین سو سے زیادہ عیسائی بچیوں کو اٹھا کر لے گئے۔ نائیجیریا کی پوری سرکاری مشینری کو بچیوں کی منتقلی کے سلسلے میں کی جانے والی “نقل و حرکت” کا پتہ ہی نہ چلا۔ مستزاد یہ کہ اس مبیّنہ اسلامی انتہاپسند گروہ کے سربراہ نے ایک ؤڈیو میں بار بار ران کھجاتے ہوئے، قہقہہ لگانے کے سے انداز میں اعلان کیا کہ اب یہ لڑکیاں “میری ذاتی ملک” ہیں، میں ان سے جو چاہے سلوک کروں۔ ان میں سے بیشتر کو منڈی میں بیچ دوں گا اور باقیوں کو اپنے تصرّف میں رکھوں گا۔ سکول کی بچیاں اس “مسلمان گروہ” کے خلاف صف آراء نہیں تھیں کہ انہیں “مال غنیمت” تصور کیا جا سکے لیکن کوئی ہے جو ابوبکر شیکاؤ کو یہ سمجھا سکے کیونکہ اس کا تویہ بھی کہنا ہے کہ میں ہر اس شخص کو قتل کرنے سے مسرت حاصل کرتا ہوں جس کے قتل کا مجھے اللہ حکم دیتا ہے ویسے ہی جیسے مرغیوں اور مینڈھوں کو ذبح کرنے سے۔
ایسے گروہ جو اپنے طور پر لوگوں کو “کافر” قرار دے کر مارتے ہوں اور اپنے مذہب کی اپنے طور پر توجیہہ کرتے ہوں ہمیشہ پیدا ہوتے رہے ہیں اور پیدا ہوتے رہیں گے۔ ایسے گروہوں کی سرگرمی کو حد سے نہ بڑھنے دینے کی ذمہ دار ریاست ہوا کرتی ہے۔ جہاں ریاست بے دست و پاء ہو جائے، وہاں ایسے گروہوں کے لیے میدان اگر ہموار نہ بھی ہو تو پرخطر نہیں ہوا کرتا۔ کافر قرار دینا بھلا کونسا مشکل کام ہے، آپ کسی بھی بات پر کسی کو بھی کافر قرار دے سکتے ہیں جب کہ مذہب کی روح کے مطابق اگر کوئی بھی شخص اپنی زبان سے مسلمان ہونے کا اقرار کرتا ہے تو اس کے مومن یا کافر ہونے کی اگر کوئی تصدیق کر سکتا ہے تو اللہ جل شانہ کر سکتا ہے۔ منٰی کے ایک خیمہ میں میں نے معلومات کی غرض سے سوال کر دیا کہ “کعبہ کا طواف کیوں کیا جاتا ہے؟” ہمارے ساتھ جو تاتار مولانا تھا، بولے “اس لیے کہ حکم ہے”۔ میں نے عرض کی کہ بادشاہوں اور آمروں کے بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن ناقص جمہوری حکومتیں اور حکام تک اگر کوئی حکم جاری کریں تو اس کی بنیاد ہوتی ہے، عقلی،استدلالی اور منطقی دلیل ہوا کرتی ہے چہ جائیکہ اللہ سا رحمان و رحیم اور پیغمبر جیسی رحمت کائنات شخصیت اگر حکم کرے تو وہ منطق اور دلیل سے عاری ہو، ایسا کیونکر ہو سکتا ہے؟ مولوی صاحب بولے،” ایسی باتیں نہ کرو “کیافیر” ہو جاؤ گے”۔ غور کیجیے کہ اس میں بھلا کافر ہونے کی کونسی بات ہے۔ وہ تو شکر ہے کہ میں روسیوں کے گروہ میں تھا، پاکستانیوں کے گروہ میں ہوتا اور بات اسی طرح ہوئی ہوتی تو بات کا کیا بتنگڑ نہ بنتا۔
تو ملتان کے وکیل اور انسانی حقوق کے محافظ راشد رحمان کے قتل پہ مجھے نہ تو کوئی نوحہ کرنا ہے اور نہ ہی کوئی تحسین۔ راشد رحمان پروفیسر جنید حفیظ کے خلاف توہین رسالت کے مقدمے میں جنید حفیظ کی جانب سے پیش ہو رہے تھے کیونکہ کوئی اور وکیل ایسے مقدمے میں وکالت کرنے کی ذمہ داری لینے کے حق میں نہیں تھا۔ وکیل صاحب کو گذشتہ پیشی میں ہی دھمکی مل گئی تھی کہ آپ جناب اگلی پیشی تک، اگر آپ اس مقدمے سے دستبردار نہ ہوئے تو زندہ نہیں رہ پائیں گے۔ جن ریاستوں میں قوانین مبہم ہوں اور جو ریاست اور تو اور وکیلوں کے تحفظ کی ذمہ داری پوری نہ کر سکے، وہاں ان ریاستوں کی حالت پہ نوحے پڑھنے چاہییں۔ تحسین اگر کسی کی کی جا سکتی ہے تو قاتلوں کی کہ کم ازکم وہ قول کے تو پکّے ہیں، قاتلوں کے مد مقابل دھن کا پکا وکیل اور انسانی حقوق کا محافظ تھا جو سمجھتا تھا، الزام چاہے کوئی بھی کیوں نہ ہو ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے اور وکیل صفائی مقرر کرنے کا حق ملنا چاہیے۔ قاتلوں کے پاس خودکار اسلحہ تھا اور راشد رحمان کے پاس قانون کی کتابیں، قلم اور دماغ تھا۔ ایک دماغ ماؤف کر دیا گیا، کتابیں اور قلم دھرے کے دھرے رہ گئے۔ جنید حفیظ کے ہی مقدمے میں اس کے ایک مخالف وکیل کو یہ کہتے بھی سنا گیا تھا کہ کوئی اس ملزم کو چھرا ہی گھونپ دے اور قصہ تمام ہو۔
ریاست لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں یکسر ناکام ہو چکی ہے۔ اب ایک ہی راستہ ہے کہ جن لوگوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے جا رہے ہیں وہ بھی ہتھیار اٹھانے والوں کے خلاف ہتھیار اٹھا لیں؟ لیکن کیا واقعی یہی راہ باقی ہے؟ بظاہر ہاں لیکن ایک دوسرا راستہ بھی ہے جس کو فیض احمد فیض صاحب نے یوں بیان کیا تھا کہ “کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو”۔
یہ درست ہے کہ ملتان میں ایک راشد رحمان ہی تھا مگر یہ بھی درست ہے کہ مر جانے والے کی جگہ لینے کی کوئی نہ کوئی ہمت ضرور کر لیا کرتا ہے۔ معاملہ جنید حفیظ کی صفائی پیش کرنے کا نہیں بلکہ صفائی پیش کرنے اور وکیل صفائی رکھنے کے حق کو یقینی بنائے جانے کا ہے تاکہ حکومت خود ہی قاتل نہ ثابت ہو۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply