سیاسی سرکس۔۔حنا سرور

دنیا بھر میں پاکستان واحد ایسا ملک ہے جہاں ہر ساڑھے تین سال بعد سیاسی سرکس لگتا ہے۔ہر تین سال بعد انقلاب کے نام پر چورن بیچا جاتا ہے۔لیڈر اپنی اپنی عوام کی وفاداری کی بولیاں لگاتے ہیں
ایک دوسرے کے کارکنوں پر غداری اور کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں۔

لیڈر چاہے کوئی  بھی ہو مقصد سب کا صرف اور صرف  اپنے حریف کے سامنے اپنی عوامی طاقت  دکھانا ہوتا ہے یہ جلسوں میں   دو دو  ہزار دے کر بندوں کو جمع کرتے ہیں ۔اپنی عوامی طاقت دکھانے کے لیے اداروں  کے  خلاف اپنے کارکنوں سے بڑھکیں بھی مروا لیتے ہیں۔۔اور وقت پڑنے پر اپنے حاکم وقت اپنے حریف کے منع کرنے کے باوجود وہی کام کر کے  بھی دکھا دیتے ہیں ،چاہے اس کام میں ان کے چار چھ ورکر جان کی بازی ہار جائیں ۔چاہے کسی ماں کا لخت جگر مارا جائے چاہے کسی سہاگن کا سہاگ  لُٹ  چاہے، کسی باپ کا اکلوتا سہارا ان کی سیاست کی نذر  ہو جائے ۔ان کو فرق نہیں پڑتا ۔

ہاں ان کو اتنا فرق پڑتا ہے کہ اسی لاش پر سیاست کر کے  یہ اپنے حریف کو بدنام کر دیتے ہیں، ذلیل کرتے ہیں،کہ دیکھو اس ظالم نے پُرامن لوگوں پر تشدد کیا،یا پھر اس سیاسی لیڈر کے ظالم کارکنوں کے ہاتھوں اتنے سکیورٹی اہلکار مارے گئے۔

مزے کی بات   یہ ہے کہ   جب اقتدار میں آتے ہیں کہتے ہیں معیشت خراب ہورہی ہے ہم سے ملک نہیں سنبھالا جارہا ۔بہت مشکل ہے ہم مہنگائی  نہ کریں تو کیا کریں ۔ان کے پاس عوام کو  خواب  دکھانے کے ہزاروں دلائل ہوتے ہیں ۔پھر اسی اقتدار سے جب ان کی جان چھوٹ جاتی ہے تو پھر سے یہ اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں  اور ہر کسی کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے کہ یہ کرسی صرف میری ہے اس پر صرف میرا حق ہے ۔

ان کے نعرے ان کی باتیں بڑھکیں بھاشن صرف ان کے ہی ذاتی مفاد میں ہوتی ہیں نہ کہ بھولی عوام کے لیے   ۔عوام کو آخر وہی دال روٹی ہی ملنی ہوتی ہے  جو وہ کما کر اپنی جیب سے کھاتی ہے ۔

جب اقتدار میں ہوتے ہیں یہ آپ کے سامنے دودھ شہد کی نہریں بہانے کے دعوے بھی کرتے ہیں آپ کے سامنے سنہرے خوابوں کے محل بھی بناتے ہیں ۔آپ کو بتاتے ہیں کہ اب ہم آگئے ہیں آپکی زندگیاں سنو ر جائیں گی ۔لیکن ہوتا وہی ہے کہ اپنے اپنے علاقوں شہروں قصبوں میں یہ آپ کے لیے پانی کا ایک ٹیوب ویل تک نہیں لگا سکتے۔ دریا کا ٹوٹا پل نہیں بنوا سکتے ۔  لیکن اگر ان کا مخالف وہاں جانے کا سوچ بھی لے تو پھر فوراً ان کے اند ر کا سوشل ورکر جاگ جاتا ہے۔

ان کی اس سیاسی جنگ میں ہمیشہ عوام ہی غربت کی چکی میں پسی ہے ۔
یہ انبیاء اولیا کی مثالیں آپکو دیتے ہیں غریبی کی مثالیں آپکو دیتے ہیں دو کی بجائے ایک روٹی کھانے کا مشورہ دیتےہیں ۔  ان سے آپ امید رکھتے ہو کہ یہ آپکی زندگیاں بدل دیں گے؟ ان منافقوں کے لیے آپ اپنے خون کے رشتوں سے دوستوں سے لڑتے ہیں کہ یہی ہمارے لیڈر یہی نعوذ باللہ ہمارے  داتا  ہیں ، ہم تو بس اسی کو پوجتے ہیں ۔
آپ ان کو محفلوں میں ایک دوسرے سے ملتے دیکھتے ہیں  اور اسی محفل سے باہر آکر دست و گریبان ہوتا بھی دیکھتے ہیں ، پھر بھی آپ کہتے ہیں کہ بس یہی آپ کے مخلص ترین لیڈر ہے آپ کا سب کچھ یہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ اتنا کبھی اپنے والدین اور بہن بھائیوں کا احترام کر لیں ان سے دل لگائیں،ان سے نفرتیں دشمنیاں چھوڑ دیں ۔وہی آپکا سب کچھ ہے یقین جانیں زندگیاں بدل جائیں گی آپکی۔سیاسی سرکس میں کھڑے ان سیاسی لیڈروں نے آپکو کچھ بھی نہیں دینا،سوائے نفرت کے ۔کبھی بھی کسی سیاسی لیڈر نے آپکو  یہ کہا  کہ آپ اپنے حریف کو گالی نہ دو، اس کے چاہنے والوں کو گالی نہ دو، تنقید کرو مگر بنا گالی گلوچ کے ۔احترام سے بات کرو ،کبھی بھی نہیں کیونکہ ان سب کا مقصد ایک ہی ہے وہ ہے اقتدار  اور کرسی، بس ۔سیاسی جنگ میں سیاسی سرکس کے یہ لوگ آپ کو ہر حد تک استعمال کرتے ہیں۔
جانے کیوں؟
یہ میرے بھولے لوگ استعمال ہوتے رہتے ہیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply