حقیقت اور افسانہ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

حقیقت کیا ہے اور کیا افسانہ ہے؟ اس سوال پہ لمبی بحثیں ہو سکتی ہیں اور ہوتی آئی ہیں، کسی محقق کا کہنا ہے کہ حقیقت کی ایسی کوئی شکل نہیں جو عقل سے پرے ہو، سائنس کے مطابق حقیقت یا ریئیلیٹی کا تعلق ہمارے ادراک سے ہرگز نہیں، ادراک کے ساتھ یا اس کے بغیر حقیقت اپنی اصل شکل میں موجود ہے اور رہے گی، سائنس کی اس تعریف کا منفی پہلو یہ ہے کہ اس کا کوئی ثبوت کسی کے پاس نہیں، کیونکہ مشاہدہ کرنے والا بھی اسی کامل حقیقت کا حصہ ہے جس کا وہ مشاہدہ کر رہا ہے، اس اعتبار سے اس مشاہدہ کرنے والا کیلئے ایک اور مشاہدہ کرنے والا چاہئے جو اس مشاہدہ کرنے والے کے مشاہدے کو بھی شامل تحقیق کر سکے اور یوں یہ سلسلہ لامتناہی بنتا جائے گا
دل کا ضامن تو، تیرا کیا اعتبار
پہلے اک ضامن ہو ضامن کیلئے
آپ کی میز پر ایک کتاب رکھی ہے، آپ کا ذہن آپ کو بتا رہا ہے کہ یہ کتاب ہے، یہ دراصل فوٹانز کی مدد سے آپ نے مشاہدہ کیا اور نیورولاجیکل امپلسز کے ذریعے آپ کے ذہن نے اس کتاب کا نقشہ بنایا اور تصدیق کی کہ یہ کتاب ہے، ایسی ہی کتاب آپ اسکرین پر دیکھتے ہیں اور ذہن تصویر دیکھ کر تصدیق کرتا ہے کہ یہ کتاب ہے۔ کتاب کی یہ تصویر ممکن ہے کہ کسی کیمرے سے لی گئی ہو اور اس بات کے امکانات بھی ہیں کہ کمپیوٹر سسٹم نے 3D کی شکل میں جینیریٹ کی ہو، اگر ایسا ہی کوئی سسٹم ہماری موجودہ دنیا جیسی 3D کی تصویری دنیا تشکیل دے تو ہمارے حواس خمسہ کے اعصابی متخرج بعینہ ذہن کو وہی پیغام دیں گے جو فی الواقع دنیا کے حوالے سے دیتے ہیں، کسی مصنوعی سسٹم کے تشکیل کردہ اور مادی دنیا کے روپ کے درمیان ذہن فرق نہیں کر سکے گا، ایسی صورت میں reality اور virtuality میں تمیز کرنا ناممکن ہے، ہاتھ میں پکڑے اخروٹ اور سکرین پر موجود اخروٹ کی تصویر ذہن کیلئے ایک جیسی ہے، حالانکہ ایک طرف چھونے کی حس اور دوسری طرف قوت بصارت معلومات کا ذریعہ ہیں، ذریعہ معلومات کوئی بھی ہو ، حتمی نتیجے میں ذہن میں ایک ہی تصویر بنے گی جو بطور حقیقت تسلیم کی جائے گی، اگر سو سال قبل کے آدمی کو ورچول ہیلمٹ پہنا کر کمپیوٹر گیم پر لگا دیا جائے تو وہ اس ورچوئیلٹی کو ریئیلٹی ہی مانے گا،کیونکہ وہ آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور ہاتھوں سے محسوس کر رہا ہے، اس سے بڑا ثبوت ممکن ہی نہیں، ایسے ہی ہم اپنی موجودہ مادی دنیا کی بابت پریقین ہیں کہ یہ ریئیلٹی ہے، اور اس یقین کی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ اور ہاتھوں سے محسوس کر رہے ہیں، ایسی صورت میں اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ جسے ہم حقیقت سمجھ رہے ہیں اصل میں وہ فریب ہو ۔
انسان کے حواس خمسہ، اس کی عقل اور تخیل جو کچھ تصور کر سکتے ہیں، وہ حقیقت میں موجود ہے، صرف اس چیز کے نہ ہونے کے امکانات ہیں جس کا تصور ممکن نہیں ، باقی سب کچھ کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہے، اگر کوئی وجود کہیں موجود نہ ہوتو تصور میں نہیں سما سکتا، اس میں آلہ معلومات کی کوئی اہمیت نہیں، اہمیت اس حتمی نقشے کی ہے جو ذہن بناتا ہے،
مادہ پرست کا مسئلہ یہ رہا کہ وہ صرف اسی چیز کو حقیقت مانتا ہے جو احساسات کی حدود میں آ سکے، گویا کہ آلہ معلومات کو انتہا مانتا ہے اور تخیل سے ابھرتے نقوش کی نفی کرتا ہے، بالکل اس مچھلی کی طرح جو پانی کے ایک ٹب میں زندگی گزار رہی ہے، مچھلی کو یقین ہے کہ حقیقت اسی ٹب تک محدود ہے کیونکہ اس کے تمام حواس خمسہ اس بات کی گواہی دے رہے ہیں، اس ٹب کے باہر کچھ نہیں، اس کے پاس اپنے یقین کی باقاعدہ بنیاد موجود ہے اور وہ ہے تجربہ، ہزار بار وہ اس ٹب کی اندرونی دیواروں سے ٹکرا چکی لیکن اس کی حدود سے باہر نہ جا سکی، عقل اشارے دیتی رہی کہ ٹب کے باہر ایک وسیع دنیا ہے لیکن شعور چونکہ حواس خمسہ کا غلام ہو چکا، لہذا وہ عقل کے اشاروں کو فریب گردانتی رہی۔
کل تک ہم ایک دوسرے کو خطوط لکھا کرتے، پھر ٹیلیفون کی مدد سے آواز سننے لگے، اب ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکتے ہیں، ٹیکنالوجی کی رفتار کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ افراد ایک دوسرے کے ساتھ بالکل حقیقی دنیا جیسی ملاقات بھی کر سکیں گے، بوس و کنار اور قربت کے دیگر لوازمات کو سو فیصد محسوس کیا جا سکے گا، ریئیلٹی اور ورچوئیلٹی اس حد تک قریب آ چکے کہ فرق کرنا ناممکن ہو رہا، بلکہ یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ ورچوئیلٹی آنے والے وقت میں ریئیلٹی سے زیادہ رنگ برنگی اور پرکشش ہوگی کہ اس میں نہ صرف تمام احساسات ” مسلح” ہوں گے بلکہ فرد اپنی مرضی کے مطابق بھدے یا بدصورت جسم کی کانٹ چھانٹ بھی کر سکے گا بالکل ویسے ہی جیسے انسٹاگرام پر حسیناؤں نے ہیجان برپا کر رکھا ہے، اور یہ فرد کی مافوق الانا کی حقیقی تسکین کا سبب بنے گا جبکہ ریئیلیٹی میں اس کے امکانات کم ہیں۔
شعور کی حدود کو وسیع تر کرنے سے فرد نئی دنیائیں دریافت کر سکتا ہے، اور ٹیکنالوجی میں فرد یہ حاصل کر چکا،نئے سگنلز کے آنے سے اسکرین پر نئی تصاویر سامنے آرہی ہیں اور یہ معاملہ دن دگنی رات چگنی ترقی کرتا جا رہا ہے۔
بو ، رنگ یا ذائقہ وغیرہ اپنی اصل میں کچھ بھی نہیں، یہ انسانی ذہن ہے جو خوشبو بدبو، نیلا یا سفید رنگ، ترش و میٹھے کی درجہ بندی کرتا ہے، بو، رنگ ذائقے اور تصویر کے مالیکیولز ایسی کسی چیز سے واقف نہیں، ذہن ان مالیکیولز کی اشکال و ساخت کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے کہ یہ خوشبو ہے اور یہ بدبو، یہ خوبصورت ہے اور یہ بدصورت، ایسا اس لئے ہے کہ انسانی ذہن ایک مخصوص پروگرام کے تحت کام کر رہا ہے، اس کی مثال ایسے دی جا سکتی ہے کہ اگر کمپیوٹر میں ایک پروگرام فیڈ کر دیا جائے کہ جفت اعداد خوبصورت اور مفید ہیں جبکہ طاق اعداد بدصورت اور نقصان دہ ہیں تو یہاں اعداد کا کوئی قصور یا کردار نہیں، اعداد کو یہ مرتبہ کمپیوٹر میں فیڈ اس پروگرام نے دے رکھا ہے اور پروگرام کے بدلنے سے اعداد کے مراتب بدلے جا سکتے ہیں.
انسان کے لاشعور میں بھی پروگرامز فیڈ ہیں، اور انہی کی بنیاد پر وہ پسند ناپسند کا فیصلہ کرتا ہے، مثلا آج کے انسان کیلئے خرگوش خوبصورت جانور ہے جبکہ چوہے سے ہم کراہت محسوس کرتے ہیں، پروگرام بدلنے سے پسندیدگی ایک سو اسی ڈگری پر بدل سکتی ہے اور چوہا معصوم اور نازک ترین جاندار مانا جا سکتا ہے۔
سقراط نے آزادی کی تعریف میں شروعات ایسے کی کہ جانور اپنی جبلتوں کے غلام ہیں جبکہ انسان جبلت کو قابو رکھ سکتا ہے، گویا کہ انسان کے پاس انتخاب ہے کہ وہ جبلت کو صحیح سمت دے یا جانوروں کی طرح اس کا غلام بن جائے، لیکن اس انتخاب کیلئے کسی حوالے کسی بنیاد کا ہونا ضروری ہے، لیکن اگر یہ بنیاد یا حوالہ پہلے ہی سے پروگرام کی صورت میں ہمارے لاشعور میں ڈاؤنلوڈ کیا جا چکا تو ایسا انتخاب سرے سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا، اسی طرح خوبصورتی کی تعریف کا بیڑا بھی سقراط نے اٹھایا, گلدان، گھوڑا اور عورت اگر خوبصورت ہیں تو کیوں خوبصورت ہیں، یا کیوں وہ فرد کو خوبصورت معلوم ہوتے ہیں، ہمہ قسمی خوبصورتی کو سقراط نے اس کے فوائد سے جوڑا کہ جو اپنے وجود میں جتنا فائدہ مند ہے اتنا ہی خوبصورت ہے، لہذا گلدان کی نسبت گھوڑا زیادہ خوبصورت ہے اور عورت گھوڑے سے زیادہ حسین ہے، آزادی کی طرح حسن کی تعریف بھی سقراط کے ہاتھ سے پھسل گئی، آج ہم ان سے پوچھنے کی جسارت کرتے کہ کورونا وائرس اپنی ظاہری خوبصورتی کے باوجود فائدہ مند نہیں بلکہ جان لیوا ہے، گویا کہ خوبصورتی لازم نہیں کہ فائدہ مند بھی ہو، اور مفید چیز بد صورت بھی ہو سکتی ہے، بالآخر سقراط یہ کہتے پائے گئے کہ حسن وہ ہے جو دشوار ہے۔
معاملہ یہ ہے کہ خوبصورتی و آزادی کی بنیاد ہمارے اندر موجود پروگرامز ہیں، جن کے بدلنے سے معیارات بدل سکتے ہیں، انسان سماج کے ساتھ جڑا ہے، جانور اگر ساری زندگی کسی قید میں تنہا رہا اور ایک سٹیج پر اپنی نسل کے دوسرے جانوروں سے آن ملا تو قلیل وقت میں وہ انہی جیسا ہو جائے گا، لیکن ایک انسان اگر بلوغت کی عمر تک کسی جنگل میں اکیلا رہے اور پچیس تیس سال کی عمر میں پہلی دفعہ انسانی معاشرے سے جا ملے تو اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ وہ سماج کے دوسرے انسانوں جیسا بن پائے گا، کیونکہ انسان اس کمپیوٹر کی طرح ہے جس میں ونڈو انسٹال نہیں کی گئی، جیسی ونڈو، اپلیکیشنز اور پروگرامز آپ اس میں انسٹال کرتے جائیں گے، یہ انہی دائروں میں اپنی پسند ناپسند، انتخاب، آزادی اور معیارات قائم کرے گا، کیا حقیقت ہے اور کیا فریب، اس کا دارومدار انہی پروگرامز پر ہے جو فرد جینیاتی، پیدائشی اور سماجی مراحل میں اپنے اندر ڈالتا آیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply