• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • عدالت کا کوئی ایجنڈا نہیں:چیف جسٹس،عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواستیں مسترد

عدالت کا کوئی ایجنڈا نہیں:چیف جسٹس،عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواستیں مسترد

سپریم کورٹ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواستیں مسترد کر دیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عدالت کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے، حکومت اور پی ٹی آئی کو عدالت کی اخلاقی سپورٹ چاہیے تو باہمی اعتماد قائم کریں۔

توہین عدالت کی درخواست پر چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کی، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے گزشتہ روز کی سماعت کا عدالتی حکمنامہ پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز 3 رکنی بینچ نے ایک آرڈر کیا تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب ہم آپ کو سننا چاہ رہے ہیں۔

جس کے بعد کمرہ عدالت میں عمران خان کے آڈیو اور ویڈیو کلپس چلائے گئے۔ جس میں عمران خان نے کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم عدالت میں کسی پر الزام لگانے کےلیے نہیں بیٹھے، سپریم کورٹ آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے ہے، اٹارنی جنرل آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عدالت کے احکامات پرعمل نہیں کیا گیا، آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ کچھ لوگ زخمی ہوئے، اسکے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایکشن لیا، ہم آئین کے محافظ اوربنیادی حقوق کا تحفظ کرنے والے ہیں، آئین کے آرٹیکل 16 اور 17 کے تحت حقوق حاصل ہیں لیکن وہ لامحدود نہیں ہیں، گزشتہ روز عدالت نے جو آڈر جاری کیا تھا وہ بیلنس میں تھا۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم کےبعد عمران خان نے کارکنوں کوپیغام جاری کیا، عمران خان نے کہا سپریم کورٹ نے اجازت دے دی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ممکن ہے عمران خان کوپیغام درست نہ پہنچا ہو، ڈی چوک پر جو لوگ آئے وہ بغیر قیادت کے تھے۔ سیاسی طاقت کے مظاہرے کو سیاسی قیادت ہی روک سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ گزشتہ روز جوکچھ ہوا اس میں تحریک انصاف کی قیادت موجود نہیں تھی، عدالتی حکم کے مطابق سیاسی لیڈرشپ سے رابطے کا کہا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس معاملے پر مزید سماعت کرینگے، اس ساری صورتحال میں اصل معاملہ اختلافات ہے، ہم اس سارے معاملے پر فیصلہ کرینگے، ہم سماعت کو دوسروں کےلیے مثال بنائیں گے۔

عدالتی کارروائی مفروضوں کی بنیاد پر نہیں ہوسکتی، عدالت نے گزشتہ روز کے فیصلے میں فریقین کے درمیان اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کی، کل عدالت نے شہریوں کے تحفظ کی کوشش احتجاج سے پہلے کی، عمومی طور پر عدالتی کارروائی واقعہ ہونے کے بعد ہوتی ہے، عدالت نے خود ثالت بننے کی ذمہ داری لی، پی ٹی آئی کو بھی حکومت پر کئی تحفظات ہوں گے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو کرائی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی ہوئی ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جو کچھ کل ہوا ہے وہ آج ختم ہوچکا ہے، عدالت انتظامیہ کے اختیارات استعمال نہیں کرسکتی، عوام کے تحفظ کے لیے عدالت ہر وقت دستیاب ہے، عدالت نے عوام کے مفاد کے لیے چھاپے مارنے سے روکا تھا، عدالت چھاپے مارنے کے خلاف اپنا حکم برقرار رکھے گی۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ یہ عدالت عوام کے قانونی تحفظ کے لیے ہے، اگر قانون اور عوامی حقوق کی کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو یہ عدالت ہروقت موجود ہے، کسی کو بھی بغیر جرم کے گرفتار نہ کیا جائے،یہ عدالتی حکم برقرار رکھتے ہیں، تحریک انصاف کی قیادت پرامن رہنے کے لیے ہدایات جاری کرے، املاک کو نقصان نہ پہنچایا جائے،عدالتی احکامات پرعوام خود عمل کرے گی، اس معاملے میں عدالتی احکامات نیک نیتی پرمبنی ہیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آج صبح ڈی چوک پرکیا ہوا تھا؟ یہ بتائیں، ایسے حالات سے ملک کو نقصان پہنچتا ہے، تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتیں پارلیمانی جمہوریت کےلیے پرعزم ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹآرنی جنرل صاحب حکومت قانون کے مطابق اپنا کام کرے، کل ہمارے ٹی وی بند کردیے گئے، عدالتی حکم پر عوام خود عمل کرتی ہے۔

سپریم کورٹ نے عمران خان کیخلاف کارروائی کی اجازت دینے کی حکومتی استدعا مسترد کر دی، کہا کہ حکومت گزشتہ روز والے عدالتی حکم کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا کام خود کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ کارکنوں کا اپنا کوئی ایجنڈا نہیں ہوتا، وہ قیادت کے سر پر چلتے ہیں، عدالت کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے، حکومت اور پی ٹی آئی کو عدالت کی اخلاقی سپورٹ چاہیے تو باہمی اعتماد قائم کریں، سیاسی کشیدگی سے ہمیشہ ملک کا نقصان ہوتا ہے، عدالت ٹھوس وجہ ہونے پر ہی کسی سیاسی نوعیت کے معاملہ میں مداخلت کرے گی۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply