والد کی برسی کے موقع پر چند بے ربط یادیں ۔سیمیں کرن

وہ شخص مجھ سے انہی دنوں میں ،انہی رُتوں میں بچھڑا تھا۔۔۔ہر برس میں ان ہی دنوں خود کو کہیں رکھ کر بھولنے کی کوشش کرتی ہوں ۔جیسے نظریں چُراتی ہوں ،جیسے میرے بھولنے سے بُھلانے کی اداکاری سے یہ دن شاید کلنڈر سے کہیں دور جا گری نگے،ہٹ جائیں گے۔

مگر جُوں جُوں عمر کا پیڑ بوسیدہ ہُوا جاتا ہے زخم بھرنے کی بجائے گہرا ہوجاتا ہے۔

وہ شخص تھا ہی ایسا!

تمام عمر میں نے اس کی شعوری ،لاشعوری نقالی ہی تو کی ہے۔کیا آپ نے  حسنِ سادگی  و وقار کو مجسم دیکھا ہے،یوں جیسے کوئی یونانی دیوتا کھڑا ہو؟

میں نے دیکھا ہے۔۔۔

حسنِ سیرت و حسنِ صورت سے مالا مال یہ تصویر دکھانے،بنانے کی کوشش کروں تو یہ میرے باپ کی تصویر بنتی ہے۔مگر میں اس ہشت پہلو شخص کی،اس ست رنگے شخص کی تصویر آپ کو دکھاؤں کیسے؟

میرے پاس بیان کرنے کوبتانے کو اس کی شخصیت کے اتنے رنگ ہیں کہ میرے ہاتھوں میں بکھر جاتے ہیں ، میرے پاس   جگمگاتی یادیں ہیں ، جو میرے دل کے زخم کو ہرآن ہرا کرتی ہیں ۔ سو سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنے دکھ  و اذیت کو بیان کروں یا پھر اس کی شخصیت کے رنگوں کو!

کیا آپ نے حدِ کمال تک کسی کو دیکھا ہے؟کمال جب اوج پر پہنچے تو پھر جمال میں ڈھلتا ہے۔ ۔۔وہ حدِ کمال سے جمال کو پہنچا  شخص میرا باپ تھا۔ میرا فخر  تھا!

بیٹیاں تو سب اپنے باپ سے یونہی پیار کرتی ہیں، مگر میری محبت ان کے ساتھ فطری بائیولوجیکل محبت سے بڑھ کر عقیدت میں ڈھل چکی تھی۔ اس شخص کا  تہہ خاک چلے جانا میرے لیے تخریک زندگی کے ادارے کا انہدام تھا۔اس دن  مجھے یوں لگا جیسے ایک لائبریری زیر زمین چلی گئی ہے۔ میں کیا بتاؤں وہ کیا تھا۔

وہ ایک بہت قابل ،بین الاقوامی سطح کاانجینئر تھاادیب تھا،شاعر تھا،مزاح نگار تھا، مشہور رسالہ “چاند”میں اکثر ان کے فکاہیہ مضامین اور غالب کی پیروڈیز چھپا کرتی تھیں ۔ان کے قارئین کے خط آتے تو میں پاس بیٹھ کر فرطِ عقیدت سے سنا کرتی۔۔۔ایسے اتراتی جیسے یہ کسی نے میرے لیے لکھے ہوں ۔ان کو دیکھ کر فخر کے ساتھ ایک احساسِ کمتری بھی ابھر آتا ،اتنی روشنی پھوٹتی تھی کہ میری آنکھیں چندھیا جایا کرتی تھیں ، اور اپنے وجود کا اندھیرا کم مائیگی میں مبتلا کردیتا تھا۔

ادب اور شاعری کے بعد طب و حکمت سے خصوصی شغف تھا۔وہ ایک اعلیٰ پائے کے حکیم تھے۔ ایک ایک جڑی بوٹی کو شکل و خواص سےپہچانتے تھے ،گھر میں دوائیاں  بن رہی ہیں ،پِس رہی ہیں ،عرق کشید ہورہے ہیں ،ہماری ماں کی شامت آئی ہوئی ہے۔وہ اوپر اوپر سے جھنجھلاتی ہے،مگر اس کی ہی مہم میں جی جان سے شریک ہے۔اولاد نرینہ کا علاج فی سبیل اللہ کسی سنیاسی سے ودیعیت ہوا تھا، جس جس کا علاج کا کیا اس کے بے حد اصرار کے باوجود یہ کہہ کر علاج کے پیسے لینے سے منع کردیا کہ مجھے اس کی اجازت نہیں ہے۔

یہاں میں اس برٹینڈ رسل کے مکتب ِ فکر کے طالب کو حیرت سے دیکھتی تھی، کہ یہ اس کی ذات کا کون سا خفیہ پراسرار گوشہ ہے۔جس جانب دُھن  و لگن لگائی اس کو کمال تک پہنچایا۔ایک طرف  ایک شفیق لائق فائق الیکٹریکل انجینئر ہے اور دوسری طرف طب ،حکمت،ہومیوپیتھی کو تفصیل سے پڑھا۔ایلوپیتھی میڈیسن کو اتنا پڑھا کہ ہمارا فیملی ڈاکٹر پین روک کر پوچھنے لگا،”کیوں عالی صاحب!دوا ٹھیک لکھی ہے نا میں نے؟”

ریڈیو سازی ،فوٹو گرافی۔پرنٹنگ ،ڈویلپنگ،سب گھر بیٹھے کورسز کرلیے،اور میں جو پہلا  لاڈلا بچہ تھی،میرے ہر اٹھتے قدم پر تصویر کھنچتی تھی۔مختلف زبانوں پر عبور حاصل تھا،عربی،ابگلش،پشتو، جرمن اور فارسی کو اس حد تک جانتے تھے کہ اس کے لٹریچر سے لطف اندوز ہوسکیں ،پنجابی مادری زبان تھی،اردو کو  اظہارِ خیال کا ذریعہ بنایا۔ ہندی کو بھی سمجھتے تھے۔ مقرر ایسا کہ بڑی بڑی ملکی سطح پر غیر ملکی وفود کے سامنے بھی جب بولتے تو سناٹا چھا جاتا۔

فیصل آباد گورنمنٹ کالج میں آسٹرالوجی میں اپنے دیپارٹمنٹ  میں تاپ کیا۔،بعد کی دہائیوں میں یہ ڈیپارٹمنٹ بند کردیا گیا۔جغرافیہ کی دلچسپی محبت تھی یا پاؤں میں چکر،دنیا کے کئی ملک گھومے۔برٹینڈرسل کو پڑھ کر لاء کی تفسیر بنے تو اعلیٰ الاعلان ،چھپانا، منافقت،لبادے اوڑھنا ،اس شخص کا مزاج ہی نہیں تھا۔رشتے داروں نے دہریا کہا مگر اپنی دُھن کا پکا شخص تھا وہ۔

پھر مختلف تفاسیر ،تقابل ادیان ،تاریخ کو کنگھالا،یہ شاید واپسی کا سفر تھا۔۔۔۔تھا یا نہیں ۔۔!

ہم بات کرتے ۔۔گھنٹوں مکالمہ ہوتا۔مذۃب،سیاست۔ادب،فلسفہ،ہر موضوع پر بات ہوتی،سوال ہی سوال۔۔امکانات اور دور بینی کی یہ تربیت میرے باپ نے میری گھٹی میں ڈال دی،ان کے جانے کے بعد  میرے لیے یہی امکانات کی وسیع دنیا باقی تھی،جہاں ہر آئینہ مسخ ہوگیا،تو پناہ پھر  تصوف میں ملی۔   اور سچ تو یہ ہے کہ میں اپنے باپ سے ہنس کر کہا کرتی تھی کہ  “ڈیڈی سوال تو آپ کے سارے وہ ہیں جو اپنے وقت کے صوفیوں کے تھے۔بس ان میں گستاخی و بغاوت زیادہ ہے”۔

اور کبھی کہتی “نور تو آپ کے چہرے پر اتنا ہے ڈیڈی کہ آپ ولائیت کا دعویٰ کردیں تو  دکان خؤب چمک جائے”۔اس کے چہرے کو پہروں تکنا بھی تو میری عبادت تھی۔آج جو دل اس کے غم میں پھر اتنا ہی بوجھل ہے تو سوچتی ہوں کہ “اس کی یادیں  ،گلاب سی مہکتی یادیں لکھوں یا  پھر اس کی داستان  ِ حیات”۔۔۔اس کی داستانِ حیات لکھنے کو ایک کتاب چاہیے۔۔۔ ایک سیلف میڈ انسان ،جو اپنی بیوی کی محبت، عزت و وقار کی کاطر ہر آسائش  کو چھوڑ کر تربیلا ڈیم پروجیکٹ  پہ جابیٹھا،جہاں زندگی کا آغاز صفر سے شروع ہواتھا۔

عبادت گزار نہ ہو کر بھی میرا باپ ایسا مومن تھا جس کے پسینے سے گلاب کی خوشبو آتی تھی۔یہ خؤشبو اس کے چلے جانے کے بعد بہت عرصہ شام کے وقت میرے  گرد مہکتی رہی۔۔۔ میں یا تو پاگلوں کی طرح  اس کا سراغ لگاتی ،شور مچاتی،اور پھر وہ خوشبو بھی روٹھ گئی۔۔۔خوشبوئیں بھید کھولنے والوں سے روٹھ جاتی ہیں ۔

یہ خوشبو شاید اس کے کسب حلال  ،محتاط رویے ،سچائی ،پاکیزہ اطوار، اصول پسندی، حد سے بڑھی ہوئی ایمانداری کا انعام تھی،رب کی جانب سے!

جب ماں مجھے چھوڑ گئی تو ایک سائرن تھا،الارم تھا،جو میرے اندر بجتا تھا،شاید یہ میرا لاشعور  جدائی کی آہٹ سن چکا تھا، اس الارم نے مجھے ان کی موت تک  چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ رات کو’د یر رات کو جب اوپر کمرے میں آتی تو ان  کے کمرے کے باہر ان کی سانسوں اور خراٹوں کی آواز سن کر بستر پر آجاتی،اور جس دن یہ آوا ز نہ آتی، ان کے دروازے سے چپکی سسکیاں لیتی رہتی۔کئی بار وہ آواز  دے لیتے تو ان کے ہاتھ پاؤں  ،ماتھا چوم کر بستر پہ دعائیں پڑھتی آکر سونے کی کوشش کرتی۔مگر وہ اندر خطرے کی گھنٹی بجتی رہی۔۔آخر اس دن خاموش ہوگئی ۔گہرا سناٹا ۔۔۔جس دن وہ چلے گئے!
وہ آخری فون کال جس پہ اس کے کراہنے کی آواز تھی۔۔ میں پھر بھی بے خبر تھی،بہت دور تھی،بیٹیاں بیاہ کر ایسے دور دیسوں میں جا بسیں تو کیا باپ ایسے کوئی بات کیے بغیر چھوڑ جاتے ہیں ۔۔

میرے بار بار کہنے پہ ان کے مضامین جو “چاند” میں چھپے تھے۔جو میں نے ہی یکجا کیے تھے،اور بار بار اصرار کرتی رہی کہ انہیں کتاب کی صورت دیں ۔درویش آدمی تھے،کہہ دیتے تھے بیٹے آپ لے آئیے گا میری کتاب۔افسوس وہ سرمایہ حالات لے زلزلے کی نذر ہوا۔آج شرمندگی سے یہی کہتی ہوں آپ سے کہ آپ کی ایک ٹوٹی پھوٹی ہی سہی ،کتاب،میں ہوں نا!

ڈیڈی آپ سے ایک بات اور کہوں ،ماں جب گئی تھی نا تو آپ نے ایک روز کہاتھا”ہم بھی چلے جائیں گے،پھر آپ ہمیں بھی یاد کریں گی”۔۔۔

اس روز سے میں نے لاشعوری ،شعوری کوشش شروع کردی تھی، زندگی کی طررف لوٹنے کی ،مگر آپ کے بچھڑنے کا غم ایسا تھا کہ آپ نے میری ماں مجھے بُھلا دی۔ سوچا تھا آپ کی برسی پر آپ کی داستان حیات ،آپ کا  خاکہ لکھوں گی،مگر میرے پاس صرف آنسو،بے ربط یادیں اور بچھڑنے کی اذیت ہے!

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا میں آپ کا خاکہ کبھی لکھ سکوں گی؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply