خواجہ آصف سے تعزیت کے بعد

گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کے اندر خواجہ آصف خوب گرج برس رہے تھے ۔ اور ان کے انداز سے جہاں ان کے حامی پارٹی والے خوش تھے وہاں میں بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خواجہ صاحب پارلیمنٹ کے اندر اپنے ذاتی مسائل کا رونا رو رہے تھے۔ پہلے تحریک انصاف والوں سے شکوہ کیا کہ ان کے قریبی عزیز کی وفات پر انصافی حضرات بہت خوش ہوئے ۔ یہ بات سن کر مجھے بھی بہت دکھ ہوا۔ سیاسی اختلافات میں لوگ اس قدر بھی اندھے ہو جاتے ہیں کہ مخالف کی موت پر بھی خوشیاں مناتے ہیں۔ حالانکہ اگر ہمیں کسی سے اگر ایک نقطے پر اختلاف ہو بھی جائے تو باقی تمام راستے کھلے ہوتے ہیں، جہاں ہمارا اتفاق بھی ممکن ہو سکتا ہے ورنہ ہم پتھر تراش تراش کر ہیرے بھی گنوا دیں گے۔ موت برحق ہے کوئی بستر پر مرتا ہے تو کوئی وطن سے محبت کے جرم میں سولی پر لٹک کر۔ بہرحال ہم خواجہ آصف صاحب کے ساتھ دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا گو بھی ہیں ،اللہ مرحوم عزیز کی بخشش فرما ئے اور خواجہ صاحب سمیت باقی اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
خواجہ صاحب نے جماعت اسلامی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور بڑے دعوے کے ساتھ یہ الزام لگایا کہ جماعت اسلامی نےقیام پاکستان کی مخالفت کی اور آج تک رونگ وے پر جا رہی ہے۔ خواجہ صاحب کے اس الزام کے ساتھ ہی مجھے بنگلہ دیش کے اندر سولی پر جھولنے والے مطیع الرحمان نظامی، دلاور حسین سعدی، پروفیسر غلام اعظم، عبدالقادر ملا اور دیگر شہداء کی روحیں یاد آگئیں کہ پاکستان کی مخالف جماعت اسلامی کے ان ارکان کو شاید کرپشن ، پانامہ کیس اور آف شور کمپنیوں کے کیس کی وجہ سے سولی پر چڑھائے گئے۔ کیا ہی پاگل لوگ تھے وہ جو وطن کی مٹی سے محبت کو مقتل گاہ اور سولی گھاٹ کی اذیت پر بھی فوقیت دی، لیکن جس طرح خواجہ آصف کے عزیز کی وفات پر مخالفیں خوشیاں مناتے ہیں یہاں بھی جماعت اسلامی کے مخالفیں ان پھانسیوں پر خوش تھے۔ لیکن جماعت اسلامی کے ارکان پارلیمنٹ نے کبھی پارلیمنٹ کے اندر اس کا رونا نہیں رویا حالانکہ ان کا رونا بنتا بھی تھا۔
جہاں تک جماعت اسلامی کی طرف سے قیام پاکستان کی مخالفت کی بات ہے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ جماعت اسلامی نے قیام پاکستان سے پہلے مسلم لیگ کی پالیسیوں کی ضرور مخالفت کی ہے کیونکہ جماعت اسلامی کے مطابق مسلم لیگ اس قابل نہیں تھی جو ایک اسلامی ریاست قائم کر سکےکیونکہ قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد مسلم لیگ کی قیادت اور پالیسیاں وہ نہیں رہی جو قائداعظم چاہ رہے تھے۔ یہی وجہ ہے ملک آزاد تو ہو گیا لیکن ایک اسلامی ملک نہیں بن پایا جس کی بنیاد پر جماعت اسلا می نے مسلم لیگ کی پالیسیوں کی مخالفت کی تھی۔ اور مسلم لیگ کی ان غلط پالیسیوں کی سزا آج تک ہم بھگت رہے ہیں کہ لاکھوں شہداء کی قربانیوں کے باوجود ایک اسلامی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ مولانا مودودیؒ کی شہرہ آفاق کتاب “اسلامی ریاست”میں ان پالیسیوں کی وضاحت کی گئی ہے جن کی بنیاد پر ایک اسلامی ریاست قائم ہو سکتی ہے۔
خواجہ آصف صاحب سے گزارش ہے کہ کبھی فرصت کے لمحوں میں اس کتاب کا مطالعہ ضرور کیجئے تاکہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ جماعت اسلامی نے مسلم لیگ کی مخالفت کیوں کی جس کا آپ پاکستان کی مخالفت سمجھ رہے ہیں۔ پاکستان ایک حقیقت ہے لیکن اسے ایک اسلامی ریاست بننا ابھی بھی ایک خواب ہے۔ جماعت اسلامی نے مسلم لیگ سے اختلاف ضرور کیا لیکن مطالبہ پاکستان کی حمایت سب سے بڑھ کر کی ہے ۔ خواجہ آصف صاحب کوئی ایک ثبوت پیش کریں جس کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکیں کہ جماعت اسلامی نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ کوئی تقریر، کوئی جلسہ جلوس، کوئی پریس کانفرنس، کوئی مذاکرہ، کوئی معاہدہ ، کوئی کتاب،یا کسی جماعت یا حکومت کے ساتھ مفاہمت، جس سے معلوم ہو سکے کہ جماعت اسلامی یا مولانا مودودیؒ نے پاکستان کی مخالفت کی یا اختلاف کیا ہو۔۔بلکہ جو لوگ قیام پاکستان کے مخالف تھے ان کی بھی جماعت اسلامی کی طرف سے مخالفت کی گئی۔ قیام پاکستان کے بعد موجودہ صوبہ خیبرپختونخواہ کا جب پاکستان کے ساتھ الحاق کی خان عبدالغفار خان کی طرف سے مخالفت کی گئی تو اس وقت مولانا مودودی ؒ کے وہ تاریخی الفاظ آج بھی موجود ہیں کہ اگر میں سرحد میں ہوتا تو سب سے پہلے پاکستان کے ساتھ الحاق کرتا۔ اگر جماعت اسلامی قیام پاکستان کی مخالف ہوتی تو علامہ اقبال مولانا مودودی کو پٹھان کوٹ دارالسلام آکر مسلمانوں کی فکری اور علمی تربیت کی دعوت نہ دیتے اور نہ مولانا مودودی قائداعظم کی خواہش پر ان کی زندگی میں ریڈیو پاکستان پر خطاب کرتے۔
خواجہ آصف صاحب اس بات پر بھی جماعت اسلامی کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ ایک جگہ ہمارے ساتھ اتحاد کرتی تو دوسری جگہ ہمارے مخالف میں آجاتی ہے۔ تو جناب عالی اگر کسی ایک سیٹ پر آپ کے ساتھ اتحاد کر لیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب زندگی بھر آپ کا غلام رہا جائے ۔ یہ جماعت کا حسن ہے کہ وہ اتحادی ہونے کے باوجود اتحادی کی غلط پالیسیوں کی بلا خوف و خطر مخالفت کرتی ہے۔ جماعت کا اپنا شورائی نظام اور دستور ہے جہاں فرد واحد کی نہیں بلکہ ارکان مل کر فیصلہ کرتے ہیں۔ کے پی کے میں تحریک انصاف کے ساتھ اتحادی ہے لیکن پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ مخالفت بھی جماعت اسلامی کی طرف ملتی ہے کیونکہ جماعت جس چیز کو آئین اور قانون کے خلاف سمجھتی ہے وہ اس کی مخالفت ضرور کرتی ہے چاہے وہ حکومت میں ہو، اتحاد میں یا خود جماعت کے اندر ہو۔ چاہے وہ قیام پاکستان کے وقت ہو یا آج۔ اگر آپ یہی چاہتے ہیں کہ اتحاد ہونا ہی نہیں چاہئے تھاتو پھر مخالفت اس قدر بڑھ جائے گی کہ مخالف کی موت پر بھی خوشیاں منائی جائیں گی۔ اور پارلیمنٹ کا تقدس بھی ایک دوسرے کے گریباں پھاڑتے ہوئے پامال ہو جائے گا ۔

Facebook Comments

عبدالحلیم شرر
اک سنگ بدنما ہے بظاہر میرا تعارف ۔۔ کوئی تراش لے تو بڑے کام کا ہوں میں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply