چولستان میں زندگی کی آمد۔۔انجینئر ظفر اقبال وٹو

“چولستان میں تیز بارش ژالہ باری، روہیلوں کا جشن “کل رات Aslam Malik صاحب کی وال پر یہ خبر پڑھی تو اللہ کا بے حد شکر بھی ادا کیا، لیکن ساتھ یہ خیال بھی آیا کہ اے کاش جشن منانےکے ساتھ ساتھ ہم اس پانی کو ذخیرہ کرنے کا بھی کوئی راستہ سوچتے۔ حتیٰ کہ بڑے شہروں میں بارش کے دوران بھی ہم پڑھے لکھے لوگ پکوڑے تلتے رہتے ہیں۔

چولستان میں جاری خشک سالی سے پیدا ہونے والے انسانی المیہ میں اپنی مدد آپ کے تحت بہت سی فلاحی تنظیمیں میدان عمل میں موجود ہیں، اور اپنے تئیں مقامی لوگوں کی مشکلات کم کرنے کے لئے فوری اقدامات کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ کام اپنی جگہ بہت اہم ہیں، لیکن کسی کو ایک وقت کے کھانے کے لئے اپنی جیب سے مچھلی خرید کر دینے کی بجائے اسے مچھلی والا کانٹا خرید کر دینے کی ہوتی ہے، تاکہ وہ تا عمر اپنے کھانے کا بندوبست خود کر سکے۔

مون سون کی بارشوں کا موسم شروع ہونے کو ہے، اور فوری مدد کے بعد آنے والی متوقع بارشوں سے پہلے اب درمیانی مدت کے کام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ چولستان میں پینے کے صاف پانی کا سارا دارومدار ہی ان بے اعتبار بارشوں پر ہوتا ہے جو کہ صرف جولائی سے ستمبر تک کے تین مہینوں میں ہو سکتی ہیں۔

چولستانیوں کو بھیک مانگنے پر لگانے کی بجائے اگر ہم ان کی شمولیت سے ان کو بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے ذخائر بنا دیں اور ایسے کاموں کے لئے ان کی تربیت کر دیں تو بارش کا یہ پانی سارا سال تمام چولستانیوں اور ان کے جانوروں کی پیاس بجھانے کے بعد بھی بچ جائے گا۔ وسط مدتی کاموں میں میں سب سے اہم کام پہلے سے موجود ٹوبوں کا پختہ کروانے اور جہاں ضرورت ہو ان کا سائز بڑا کرنے کا ہے۔

دوسرے نمبر پر تمام مناسب نشیبی جگہوں پر مزید پختہ ٹوبے بنانے کی ضرورت ہے جن میں بارش کا پانی تھوڑی سی محنت کر کے ارد گرد سے اکٹھا کر کے لایا جا سکے جو کہ اس وقت ریت پر چلتے چلتے مٹی میں ہی جذب ہو جاتا ہے۔ جہاں ایسی نشیبی جگہیں نہیں وہاں پر زمین کو کھود کر مصنوعی تالاب اور پختہ ٹوبے (کنڈ) بنائے جا سکتے ہیں۔ زیر زمین ٹوبوں کے حوالے سے بھی ایک تفصیلی مضمون تحریر کر چکا ہوں۔

ٹیلوں پر فارغ پھرنے والے پانی کو قابو کرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے بندات بنائے جا سکتے ہیں۔ جن کا رخ پانی کے بہاؤ کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ یہ بندات چلتے پانی میں سے کچھ پانی کو عارضی طور پر روک لیتے ہیں۔ جس سے وہ پانی زمین میں جذب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس گیلی مٹی میں صحرا میں اگنے والے پودوں اور جھاڑیوں کے بیج ڈال دیے جائیں تو مون سون کی بارشوں کے بعد اس جذب شدہ پانی سے پیدا ہونے والی جھاڑیاں اگلے کئی ماہ تک جانوروں کے چارے اور سائے کے لئے استعمال ہو سکتی ہیں۔

سوڈان کے دارفور ریاستوں کے صحرائی علاقوں میں راقم نے مشاہدہ کیا کہ لوگ بارش کے موسم میں بہت سے تربوز اور اسے سے ملتے جلتے پانی ذخیرہ کرنے والے پھلوں کے بندات کے پاس ڈال دیتے اور فصل آنے پر پھر ان پھلوں کو اپنے گپوں میں ذخیرہ کرکے اگلے کئی مہینوں تک اپنی اور جانوروں کی پیاس بجھانے اور بطور خوراک استعمال کرتے۔

بندات کے پانی جمع ہونے والی سائیڈ پر زمین میں مٹکے یا گھڑے وغیرہ دبا کر جذب ہونے والے پانی کو مزیذ نیچے جانے سے روکا جا سکتا ہے اور پانی کی مقدار بڑھائی جا سکتی ہے۔ پانی کی مقدار زیادہ ہو تو اوپر والی جگہ پر تھوڑی سی ریت بجری ڈال کر نیچے پانی چوس کنوئیں بنائے جا سکتے ہیں۔ بارش سے پہلے ریت کی سطح پر ان بندات کے اردگرد مٹی کی لپائی کرکے مزید  پانی کو بندات کی طرف لایا جا سکتا ہے۔

صحرا میں بارش کے پانی کو مٹی میں جذب ہونے سے پہلے پہلے قابو کرنا ہوتا ہے یا پھر ایسے طریقے سے جذب کروانا ہوتا ہے جہاں سے اسے واپس نکالا جا سکے یا پھر یہ پودوں کی اگنے والی جگہوں پر جذب ہو سکے۔ بہت سی فلاحی تنظیمیں مہم چلا کر ملک کے دوسرے حصوں سے پلاسٹک کے استعمال شدہ ڈرم اور ٹب، فائبر گلاس کے کنٹینر، بڑی اور چھوٹی بوتلیں، مٹی کے مٹکے اور گھڑے جو کہ دوسرے لوگوں کے لئے کباڑ ہوتے ہیں۔اس مقصد کے لئے اکٹھا کر کے چولستان پہنچا سکتے ہیں، جہاں پر انہیں بندات کے ساتھ ساتھ پانی ذخیرہ کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ عید قربان پر کچھ رفاہی تنظیمیں ایسی منصوبہ بندی کر لیں کہ کھالوں کو اکٹھا کر کے چمڑے کے بڑے بڑے مشکیزے بنوا لیں جن میں مقامی لوگ بارش کے دوران شیٹ وغیرہ لگا کر بارش کا پانی زمین پر پہنچنے سے پہلے ہی بھر لیں۔ کیونکہ قطرہ قطرہ مل کر ہی دریا بنتا ہے۔

بارش کا ہر قطرہ اہم ہے اور کسی کی زندگی بچا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیسبک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply