بلوچستان میں آگ لگی ہے۔چلغوزے کے قیمتی جنگلات جل کر راکھ ہو رہے ہیں۔اطلاعات ہیں کہ یہ آگ کیٹیگری کراؤن میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ جنگل میں لگنے والی آگ میں یہ سب سے خطرناک قسم ہوتی ہے کیوں کہ یہ جنگل کی زمین پر نہیں پھیلتی بلکہ اس کے شعلوں کاپھیلاؤ اتنا مہیب ہوتا ہے کہ یہ درختوں کے تنوں کی بجائے درختوں کی چھتری کو اپنی لپٹ میں لے لیتی ہے۔26 ہزار ایکڑکے رقبے میں چلغوزے کے یہ قیمتی باغات جل چکے ہیں۔ ان باغات کی اہمیت بھی سمجھ لیجیے۔ بلوچستان میں واقع یہ باغات دنیا بھر میں چلغوزے کے سب سے بڑے باغات میں شمار ہوتے ہیں۔چلغوزے کی قیمت کا تو آپ سب کو معلوم ہی ہو گا کہ یہ کتنا مہنگا ڈرائی فروٹ ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ان با غات سے ہر سیزن میں سات سو میٹر ک ٹن چلغوزہ حاصل کیا جاتا ہے۔ اب ذرا اس کے کلوگرام نکالیے اور پھر اس کی کُل قیمت کا تخمینہ لگائیے۔اس کے بعد جمع تقسیم کر کے دیکھیے کہ یہ باغات بلوچستان کے لوگوں کے روزگار اور ملکی معیشت کے لیے کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔اس دوران البتہ یہ یاد رکھا جائے کہ آپ باغات کی قیمت کا تعین نہیں کر رہے بلکہ ان سے حاصل ہونے والی ایک سال کی پیداوار کی مالیت نکال رہے ہیں۔اس آگ سے ماحولیات اور وائلڈ لائف پر کتنے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے یہ ایک الگ بحث ہے اور اس کی جزئیات کی سنگینی جنگل کے معاشی نقصانات سے کم نہیں ہے۔
آپ فیصلہ ساز طبقات کی سنجیدگی دیکھیے کہ جو آگ 30 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیل چکی ہے اس کو بجھانے کے لیے صرف 2ہیلی کاپٹر میدان عمل میں مصروف ہیں۔ کوئی بے نیازی سی بے نیازی ہے کہ ہمارا ڈرائی فروٹ کا سب سے بڑا جنگل جل کر راکھ ہو گیا ہے اور ہمارے پاس یہاں بھیجنے کو تیسرا ہیلی کاپٹر نہیں ہے۔ ایک ہیلی کاپٹر کیمیکل چھڑک رہا ہوتا ہے اور دوسرا پانی پھینک رہا ہوتا ہے۔ پانی پھینکنے والا ہیلی کاپٹر آگ پر پانی ڈال کر جب تک نیا پانی لے کر واپس آتا ہے تب تک بجھائی جانے والی آگ دوبارہ بھڑک اٹھتی ہے۔ یہاں اگر بیس پچیس ہیلی کاپٹر بیک وقت استعمال ہوں تو ایک دن میں آگ بجھائی جا سکتی ہے ۔وسائل سے زیادہ نیت اور ترجیحات کا مسئلہ ہے۔ ایک جہاز تو خبر ہے کہ ایران نے بھی فراہم کر دیا ہے۔ جن کے اپنے گھر کو آگ لگی ہے وہ صرف دو ہیلی کاپٹر دے سکے۔ سنجیدگی اسی تناسب سے واضح ہے۔ ہمارے باقی کے ہیلی کاپٹر اشرافیہ کی آنیوں جانیوں کے لیے مصروف ہیں۔
حیرت ہوتی ہے بلوچستان میں پولیس اہلکار شہید ہو جائیں تو ان کے جسد خاکی گھروں کو بھیجنے کے لیے ایمبولینس نہیں ہوتیں اور وہ بسوں کی چھت پر رکھ کر بھیجے جاتے ہیں اور وہاں کے جنگلات جل کر راکھ ہو رہے ہوں توآگ بجھانے کو صرف دو ہیلی کاپٹر بھیجے جاتے ہیں۔یہ سوتیلا پن کس کے فکری افلاس کا تاوان ہے؟
چنانچہ سوشل میڈیا پربلوچستان کا نوجوان صرف یہ شکوہ نہیں کر رہا کہ اس کے مسائل حل نہیں کیے جا رہے، وہ یہ گلہ بھی کر رہا ہے کہ ہمارا قومی بیانیہ اس کے دکھوں سے لاتعلق ہے ۔ اہل سیاست ہوں یا ہمارا میڈیا ، سب کا رویہ یکساں افسوسناک ہے۔ شیرانی کے جنگلات جل اٹھیں یا پیر کوہ کے علاقے میں ہیضے کی وبا پھیل جائے، سیاست اورمیڈیا کے لیے یہ سرے سے کوئی موضوع ہی نہیں۔
اسلام آباد میں ایک نیم پاگل شخص بندوق لے کر سڑک پر آ جائے تو میڈیا چوبیس گھنٹے براہ راست کوریج کرتا ہے، حتی کہ اس کے رفع حاجت کے مناظر بھی براہ راست دکھائے جاتے ہیں اور ساتھ نیوز کاسٹرز کا رواں تبصرہ کانوں میں رس گھول رہا ہوتا ہے کہ یہ دیکھیے ناظرین ہمارا نیوز چینل یہ مناظر آ پ کے لیے خصوصی طور پر دکھا رہا ہے ۔یہ بات میں تفنن طبع کے لیے نہیں کہہ رہا ، آپ اس روز کی کوریج نکال کر دیکھ لیجیے ، سکرینوں پر Exclusive کی سٹرپ بھی چل رہی تھی تا کہ سند رہے کہ یہ قوت مشاہدہ ہمارے کیمرہ مین کی ہے۔
چند سیاسی جماعتوں کے جلسے ہوں تومیڈیا شرکاء کی تعداد سے لے کر جلسے میں رکھی کرسیوں کے رنگوں تک کو زیر بحث لاتا ہے، چند بڑے شہروں میں کوئی گدھا گاڑی کسی کھمبے سے ٹکرا جائے تو یہ بریکنگ نیوز ہوتی ہے اور نیوز کاسٹر اور نمائندے کی سانس پھولی ہوتی ہے،آپ کو گدھے کا شجرہ نسب بھی بتاتے ہیں اور ساتھ ساتھ فخر سے اعلان ہوتا رہتا ہے کہ ناظرین کرام یہ مت بھولیے کہ گدھے کے آباو اجداد کے بارے میں اندر کی یہ خبر سب سے پہلے ہم نے آپ کے سامنے رکھی ہے۔ ہماری سیاست اور ہمارا میڈیا ( اب اس کے ساتھ سوشل میڈیا کا اضافہ کر لیں)،یہ قومی بیانیے کے ابلاغ کے بنیادی ذرائع ہیں۔لیکن ان کی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔ ان کی ساری بحث نصف درجن سیاسی خانوادوں اور چند بڑے شہروں تک محدود ہے۔روز بیسیوں ٹی وی چینلز پر سینکڑوں ٹاک شوز ہوتے ہیں لیکن بلوچستان، اس کے مسائل اور اس کا بیانیہ ان میں کہیں جگہ نہیں پا سکتا ۔ قومی ایشوز پر بلوچستان کے اہل سیاست کو مدعو نہیں کیا جاتا اور بلوچستا ن کے مقامی ایشوز کبھی زیر بحث نہیں لائے جاتے۔
چنانچہ بلوچستان کے سیاستدان ہمارے میڈیا کو صرف اس وقت یاد آتے ہیں جب وہاں کوئی حادثہ ہو جاتا ہے۔کوئی ایک ٹاک شو بلوچستان سے نہیں ہو رہا۔ سوشل میڈیا کے موضوعات بھی دیکھ لیجیے ، احباب موضوعات باندھتے باندھتے ایران توران تک چلے جائیں گے لیکن بلوچستان کا راستہ بھول جائیں گے۔ سیاسی گہما گہمی میں بھی بلوچستان لاتعلق ایک طرف کھڑا ہے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر نے اگلے روز دلچسپ تبصرہ کیا کہ پاکستان کے ہرسیاسی ہیجان کا تعلق جی ٹی روڈ کے اطراف کی اشرافیہ سے رہاہے۔ اس کی قیمت البتہ پورے ملک کو چکانا پڑتی ہے۔
سوال اب یہ ہے کہ کیا پاکستان صرف جی ٹی روڈ کا نام ہے؟ خوشی بھی اسی کی ، غم بھی اسی کے ، میڈیا بھی اسی کا ، سیاست بھی اسی کی۔؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں