ماسی(خاکہ)۔۔ جاوید خان

ہم نے انھیں ایسے ہی دیکھا ۔جیسے وہ ہمارے بچپن میں تھیں ۔بچپن ،لڑکپن میں اور پھر جوانی میں تبدیل ہوا۔اور جوانی نے ترائی پکڑ رکھی ہے۔مگر ماسی کی زندگی جیسے تالاب میں ٹھہرا ہوا پانی ہو۔چہرے پر جھریاں ،ہاتھوں پر جھریاں ،ان ہاتھوں میں سو دانوں کی سفید تسبیح جسے وہ دانہ دانہ گھمایا کرتی تھیں۔اگرچہ ماسی کی زمین اور ہماری زمین باہم جڑی ہوئی ہیں۔جیسے دو سگی سہیلیاں ہمیشہ کے لیے مل بیٹھی ہوں۔مگر اس زمین پر چلنے والے ماسی کے وارث ،ناخدا اَور ہمارے کنبے کے درمیان ایک سرحد ہمیشہ سے چلی آرہی تھی۔دیہاتیوں کے درمیان ایسی سرحدیں اور سرحدی جھڑپیں ریت رواج ہوتاہے۔ماضی اور پھر ماضی بعید ،ہردوزمانوں میں جب دیہاتیوں کے ہاں سماجی رابطے کے تمام ذرائع بالکل بھی نہ تھے ۔اَور اگر ہوتے بھی تو ہمارے دیہاتیوں کو ایسے بے شرم کھلونے اَورکھیل ایک آنکھ نہ بھاتے ۔یہا ں تک کہ بے رنگ ٹی ۔وی نام کاآلہ بھی ابھی بہت دور تھا۔تب کی بات ہے۔نیشنل جیوگرافک کے تمام وسائل ہمارے ہاں عام تھے ۔اس وقت ہمارے دیہاتیوں کے پاس زمین ،زمین داری ،دوستیاں،دشمنیاں ،کتے ،بیل ،بھینسے پالنے اَور لڑانے جیسے کام وافر ہواکرتے تھے۔سو ایسی سرحدوں پر اَور سرحدی جھڑپوں کے دوران اقوام متحدہ کے کسی عملے کے پہنچنے کارواج بالکل نہ تھا۔سوکمی پیشی کسی اگلے موقعے پر پوری کرنے کے بھرپور روادار ہوتے تھے۔

سو،اس سرحد کو مَیں نے اپنے بچپن میں پاٹ لیاتھا۔ماسی کی زمین پر سدابہار بیاڑوں کاجنگل تھا۔ایک بڑا رقبہ ،جس کے اُوپری حصے میں بہت بڑا کچاگھر تھا۔جسے دیکھ کر لگتا تھا۔جیسے بنوانے اَور بنانے والوں نے اپنے وقت کے مروج فن اَور فن تعمیر سے بھرپور استفادہ کیا ہو۔مکان کے دواطراف سیبوں کے درخت ہواکرتے تھے۔پھر اطراف میں پھیلا ایک بڑا وسیع گول کھیت ،نشیب میں جنگل ،دائیں جنگل اَور بائیں جنگل۔اس جنگل کے درمیان کبھی کھیت ہوتے ہوے ہوں گے۔مگر اب بنجر ہو چکے تھے۔

گھر کے ساتھ اطراف میں بڑے کھیت کو چھوڑ کر یہ ساری زمین ایک بڑی چراگاہ میں بدل چکی تھی۔جس پر ماسی کے ڈور ڈنگر اَور بکریاں چرا کرتی تھیں۔بچپن میں ہم نے ماسی کو دُور دُور سے ہی دیکھا ۔ان کاسب سے چھوٹا بیٹا ارشاد ایک بار ہمارا ہم جماعت ہواتھا۔اگرچہ ارشاد مجھ سے کافی بڑے بتائے جاتے ہیں۔مگران کادماغ پڑھائی کے معاملے میں جماعت چہارم میں ہی رک گیاتھا۔یوں جب میں پنجم میں پہنچا تو ارشاد میرے ہم جماعت نہ رہے۔سکول سے آکر کپڑے بدلتا ،کھانا کھاتا اَور جب دُھوپ کی تمازت کمزور پڑ جاتی توماسی اَور اُن کے دونوں بیٹے اَپنا مال مویشی لے کر اپنی چراگاہ میں آ جاتے ۔تب مَیں بھی سرحد پار کر کے ماسی کے پاس جابیٹھتا۔ماسی کے پاس کہانیاں ہوتی تھیں،راز ہوتے ،پرانے وقتوں کی باتیں ہوتی اَور مذاق ہوتا۔جب کہ مجھے جنگل، جنگل کی دُنیا ،چراگا اَور کہانیوں سے لگاؤہے۔

ماسی کابڑابیٹاایک حادثے میں جیل چلاگیاتھا۔ وہ ایک بڑی سفید دانوں والی تسبیح پر ختم شریف پڑھا کرتی تھی۔یہ ختم شریف ایک لاکھ کلمہ پاک تھا۔ جسے انھوں نے پورا کرنا تھا۔ماسی کو یقین تھا کہ اس ختم شریف کی برکت سے اِن کابیٹا مشکل سے نکل آئے گا۔ماسی ورد کے دَوران باوضو رہتی تھیں۔مَیں ماسی کے پاس بیٹھ جاتا ۔ماسی کاتسبیح پر ذکر،اردگرد سبزہ ،اَطراف میں پرندوں کی چہچہاہٹ اَور دُور تک سرسبز پہاڑوں کاسلسلہ ،صحت بخش ٹھنڈے ماحول میں ہم دیر تک چرتے مویشیوں کودیکھتے رہتے۔ماسی کے بیٹے مویشیوں کی نگرانی کرتے رہتے۔اَگر کوئی مویشی سرحد پار کرنے کی کوشش کرتاتو ماسی ہاتھ کے اشارے سے متوجہ کرتی۔تسبیح روز غالباً ایک ہزار دانہ ہوتی تھی۔تسبیح کے بعد ماسی سے ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی۔اَور زبانی تاریخ بھی جوسینہ بہ سینہ ماسی سے ہوتے ہوئے اب مجھ تک پہنچ رہی تھی۔

چراگا سبزے سے بھری ہوتی تھی۔ماسی کے ڈور ڈنگروں کے لیے گھاس وافر تھی۔گرداگرد پگ ڈنڈیوں پر خوش بودار جھاڑیوں کااک جنگل ساپھیلاتھا۔بکریاں ان جھاڑیوں کے پتے چنتی رہتی اَور گائیں سبزہ چرتی رہتی۔ہمارے اردگرد پنچھی ،پکھیرو پھرتے اَور بولتے رہتے تھے۔یہاں تک کہ سورج ہماری پُشت سے ڈھل جاتا۔صرف پار برفانی چوٹیوں پر لالی رہ جاتی۔تب ماسی کے بکریاں اَور مویشی اَز خود گھر کارخ کرلیتے۔ اَور مَیں بھی سرحد پار کے اَپنے آبائی قبرستان میں ایک پتھر کی جاے نماز پر ،نماز مغرب کی نیت باندھ لیتا۔
اب یاد نہیں کہ کب ماسی نے ڈور ڈنگر چرانا چھوڑے اَور مَیں نے کب باقاعدہ چراگا ہ میں جانا چھوڑا۔

ماسی کے چار بھائی تھے اَور یہ اُن کی اَکلوتی بہن تھی۔صرف تیرہ سال کی عمر میں ماسی کی شادی سردار یوسف خان صاحب سے ہوئی ۔جو اُن سے عمر میں برسوں بڑے تھے۔خاوند یوسف خان کی پہلے دوشادیاں ناکام ہو چکیں تھیں۔بہ قول ماسی کے جب اُن کی شادی یوسف خان صاحب سے ہوئی تھی۔تو وہ بلوغت تک نہ پہنچی تھی۔سردار یوسف خان ہمارے بچپن میں لاٹھی ٹیک کر چلاکرتے تھے۔سر پر قراقلی ٹوپی پہنتے تھے۔سنتے تھے کہ مزاجاً سخت طبع واقع ہوے تھے۔

ماسی کی نو اَولادیں ہوئیں ۔چھ بیٹیاں اَور تین بیٹے ۔ایک شادی شدہ بیٹی ابتدا جوانی میں ہی فوت ہوگئیں تھی۔ماسی کبھی کبھار اسے یاد کر تی تو آنسو چھلک پڑتے اَور گلا بھر جاتا۔دوپٹے سے آنسو پونچھتی اَور پھر موضوع بدل دیتی۔

ماسی کے گھر کے پاس ایک پُرانی زیارت ہے۔اِس کے مقبروں کے پتھر تک بوسیدہ ہوچکے ہیں۔آج کے جدید دَور میں ان مقبروں کو دیکھ کر اَندازہ ہوتاہے کہ نامعلوم قدیم دَور کے یہ لوگ سمت قبلہ کاپوراخیال رکھتے تھے اَور اس معاملے میں بغیر کسی آلے کی مدد لیے ہم سے زیادہ جان کاری رکھتے تھے۔اس زیارت گاہ کے کچھ درخت بوسیدہ ہو کر اَب گر چکے ہیں ۔جن کو مَیں نے اپنے بچپن میں دیکھے تھے۔جب کہ چند ایک آج بھی موجود ہیں۔کچھ مقبروں سے پھوٹ کر باہر آئے ہوئے ہیں۔ایک چھتناور اِیرو کادرخت جو تقریباً پوری زیارت کو گھیرے ہوے ہے۔اَبھی بھی تن درست و جوان کھڑاہے۔مقامی پُرانے لوگوں کے پاس اس زیارت کی کئی کہانیاں اَور کرامات ہوں گی۔
مگر ماسی کے پاس ایک نقد کہانی آج بھی ہے۔جو بہت ہی دل چسپ ہے۔اَگر آپ براہ راست ماسی کی زبانی سننا چاہیں تو قصہ کچھ یوں ہے۔

‘‘میری بیٹی رئیسہ تین ماہ کی ہوئی تو مَیں شدید بیمار ہوگئی۔میری تیمارداری کے لیے میری ماں میرے پاس رہتی تھی۔مَیں اتنی ناتواں ہو چکی تھی کہ اپنے اُوپرپڑی چادر کھینچ کر منہ  پر نہ رکھ سکتی تھی۔میری ماں سمیت گھر والوں اَور رشتہ داروں کو میرے بچنے کی کوئی اُمید نہ رہی تھی۔اک چادر تلے چارپائی پر میرا جسم صرف ہڈیوں کاڈھانچہ بچا تھا۔ ایک دن عجب واقعہ ہوا۔گرمیوں کے دن تھے۔مَیں باہر برآمدے میں چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی کہ تسبیح کی جھنکار ہوئی۔دیکھا تو میرے دائیں طرف ایک باریش مر د اَور عورت کھڑے ہیں۔دَونوں دراز قد تھے۔مرد کے ہاتھ میں تسبیح تھی اَور عورت جس کا قد چھت تک جاتا تھا۔سر پر عام خواتین کی طرح چادر رکھے ہوئے تھی۔دونوں خوب شکل تھے۔مرد یاعورت میں سے کسی ایک نے کہا تم بیمار ہو نا۔۔۔!اپنی جان کاصدقہ دو۔مَیں نے اُن سے آگے دیکھا تو میری پاٹھ ( بکری ) میری طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔اسی اثنا میں مرد نے پوچھا ۔
ہمیں جانتی ہو۔؟
میں اُونچابول نہ سکتی تھی۔نقاہت بھرے لہجے میں پوچھا نہیں ۔آپ کون ہیں۔۔۔؟
مرد بولا۔ہم دونوں یہاں اُوپر ہی ہوتے ہیں ۔یہ زیارت ہے نا۔۔۔! یہ ہماری ہی ہے۔ ہم یہاں ہوتے ہیں ۔
پھر عورت بولی ۔تُم اَپنے تن کاکپڑا دو۔تُم ٹھیک ہو جاو گی۔سنو ایک شکایت ہمیں آپ لوگوں سے ہے۔تمھارا خاوند کبھی کبھار ہمارا خیال نہیں رکھتا اَور ہماری جگہ کی تعظیم نہیں کر پاتا۔ہمیں اس سے تکلیف ہوتی ہے۔
اَندر میری آواز میری ماں تک پہنچی ۔مگر انھیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ مَیں کیا کہہ رہی ہوں اَور کس سے مخاطب ہوں۔اُنھوں نے اَندر سے ہی آوا ز دی ۔کیا ہے۔۔۔؟ کیا مانگ رہی ہو۔۔؟کس سے بول رہی ہو۔۔۔؟ وہ اَندر سے اُٹھ کر قدرے باہر کو آئیں تو مَیں نے کہا کوئی مہمان ہیں اَور کہتے ہیں کہ اپنی جان کاصدقہ کرو ۔ تُم ٹھیک ہو جاؤ گی۔
ماں بولی کہاں ہیں مہمان۔۔۔؟ مجھے کیوں نظر نہیں آرہے۔۔۔؟ میں نے کہا یہاں میری چارپائی کے پاس ہی تو کھڑے ہیں۔ایک مرد اَور ایک عورت ہے۔ماں بولی اچھا مَیں یہ بکری صدقہ کروں گی ۔اَگر تُم ٹھیک ہو جاوتو۔ویسے اُن سے پوچھو ۔اُنھیں اَورکیا چاہیے ۔؟ ہم دینے کے لیے تیار ہیں ۔جو بھی وہ مانگیں گے۔مَیں نے یہی بات اُن مرد اَور عورت سے کہی ۔مگر عورت بولی ہم صرف تمھارے تن کا کپڑا لیں گے بس۔مَیں نے ماں سے کہا وہ کہتی ہیں کہ صرف تن کاکپڑا لیں گی۔
ماں بولی تمھارے لیے نئے کپڑے سلوائے ہیں ۔وہ بھی اَور پاٹھ (بکری ) بھی صدقہ کروں گی۔مگر عورت اَور مرد نے کہا نہیں بس تن کے کپڑے لیں گے۔یہ کہہ کر وہ دونوں چلے گئے۔میری حالت سدھرنا شروع ہوئی ۔قدرے تبدیلی اَپنے جسم میں محسوس کرنے لگی ۔جیسے میرے جسم میں جان آ نے لگی ہو۔

دوسرے دن ایک سفید باریش مرد ،سرپہ ٹوپی ایک ہاتھ میں تسبیح ،دوسرے سے لاٹھی ٹیکتے ہمارے گھر آیا۔میرے سامنے آتے ہی سلام کیا اَور اُونچی آواز میں کہنے لگا۔او ۔۔۔مایے باؤں دُورا چھٹییں ۔۔۔باوں دُورا چھٹیں ۔۔۔مبارک ہوئی ۔۔۔مبارک ہوئی۔(او مائی ۔۔بہت دُور سے واپس آئی ہو ۔۔۔بہت دُور سے واپس آئی ہو۔۔۔۔مبارک ہو ۔۔مبارک ہو۔)

اس باریش بزرگ کو مجھ سمیت سب گھر والے دیکھ سکتے تھے۔مگر ایک دن قبل جو مرد عورت آئے وہ صرف مجھے ہی نظر آتے رہے تھے۔باریش مرد نے چائے پی ۔کافی باتیں کیں۔میرے بھاییوں کے حوالے سے میری ماں سے بالکل ٹھیک ٹھیک پیش گوئیاں کیں۔جو بعد میں سو فی صد درست ثابت ہوئیں ۔بلکہ میرے درمیانے بھائی کے متعلق کہا وہ راستے میں ہے۔گھر آرہا ہے۔اُن دنوں فون نہ تھے ۔چھٹیاں بھی مشکل سے ہی مہینوں بعد جا کر کہیں ملتی تھیں۔ہر بھائی کے متعلق جو جو دُشواریاں بتائیں۔ بعد پیش آئیں۔

کافی دیربعد میرے تن کے کپڑے مانگے۔میری ماں نے تن کے کپڑوں کے علاوہ نئے سلے ہوئے کپڑے بھی بہ خوشی پیش کیے مگربابے نے صرف چُن کر وہی کپڑے لیے جن کے لیے ایک دن قبل مرد ،عورت نے کہا تھا۔میری ماں نے بکری کسی ضرورت مند کو دے دی۔مَیں بغیر کسی دوائی کے سنبھلنے لگی اَور پھر مکمل تندرست ہو گئی۔اُس کے بعد مَیں آج تک کسی بڑی بیماری کا شکار نہ ہوئی۔سوائے نزلہ زکام یا ہلکے پھلکے بخار کے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ماسی کی موجودہ عمر پچاسی اَور نوے کے درمیان ہے۔اَب بدن میں وہ طاقت نہیں رہی۔ تسبیح پہ ذکر اَب بھی کرتی ہیں۔زیادہ دیر بیٹھنے سے تھکن ہو جاتی ہے۔اُونچا سُننے کے ساتھ ساتھ کم گو ہو گئی ہیں۔
ڈور ڈنگر اَب تو نہیں رہے نہ ہی چراگاہ ویسی رہی اَور نہ ہی میری پتھر کی جاے نماز اَب وہاں ہے۔اَلبتہ ماسی کے منجلے لڑکے سردار عارف خان نے بھینسوں کاباڑہ بنا لیا ہے ۔اُن کادُودھ بازار میں بکتاہے۔
ہاں تو سرحد اَب مکمل دوستانہ ہے۔یہ الگ بات ہے کہ سرحد پار چراگاہ میں مویشیوں کے ساتھ میرا انتظار کرنے کو ماسی اَب نہیں ہوتی۔شاید کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ
؂
گُزرا ہوا زمانہ آتانہیں دوبارہ ۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply