دھول و پھول۔۔ حبیب شیخ

ذرا خیال سے اُڑنا، ادھر نہیں آنا۔
کیوں؟ تم اب میرے اِدھر اُدھر اڑنے پہ پابندی لگاؤ گے!
پابندی نہیں بھئی۔ بس یہ ایک درخواست ہے کہ اس طرف نہیں آنا۔ تمہیں پتا ہے کہ میں کتنا حسین و جمیل ہوں اور تم میرے حسن کو گرہن لگا دو گے اپنی گندگی سے۔
تم میرے ذرّوں کو گندگی کہتے ہو۔ اتنا تکبّر! اے نادان تجھے کچھ اس دنیا کے بارے میں علم ہے۔
تم مجھ سے کیوں بحث کرتے ہو؟ میں پودوں کی معراج ہوں۔ میرے حسن کے دیوانے دور دور سے کھچے آتے ہیں، تصویریں کھینچتے ہیں، مصور میری شکل پہ اپنے شاہکار بناتے ہیں، شاعر میری نزاکت پہ غزلیں کہتے ہیں، عاشق اپنے محبوب کو مجھ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ بھنورے میری طرف اڑتے آتے ہیں اور میری شیرینی کے لئے خود کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ انسانوں کی کوئی خوشی کا موقع میری موجودگی کے بغیر مکمّل نہیں ہوتا، میں گھروں کی زینت میں اضافہ کرتا ہوں، اداس چہروں کو طمانت بخشتا ہوں! اور سنو گے میرے بارے میں؟

ہا ہا! تم نے اپنی بہت تعریفیں کر لیں۔ اب میں بتاتا ہوں اپنے بارے میں۔
(قہقہہ)۔ تم کیا بیان کروگے اپنے بارے میں! دھول تو ہمیشہ دھول ہی رہتی ہے۔ تم جب حسیں چہروں پہ اپنی تہہ  جماتے ہو تو وہ فوراً دھو کر تمہیں دھتکار دیتے ہیں۔ تم صاف کپڑوں کو گندہ کر دیتے ہو۔ لوگ تمہیں اپنے گھروں میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے کھڑکیاں بند کر دیتے ہیں، دروازے نہیں کھولتے۔ تم صحراؤں میں طوفان برپا کرتے ہو۔ اور سن لو تم! تمہارے بارے میں انسانوں نے کتنے منفی محاورے بنائے ہیں مثلاً آنکھوں میں دھول جھونک دی،  گرد آلود ذہن کو صاف کرو،   سونا مٹّی ہو گیا۔ کیا تم نے کبھی میرے بارے میں منفی باتیں سنی ہیں؟

کتنے شوخ ہو تم اے بےعقل ۔ کبھی تم نے غالب کا یہ مصرعہ سنا ہے ؎
خاک میں، کیا صورتیں ہوں گی، کہ پنہاں ہو گئیں

میں تمہیں کیسے سمجھاؤں کہ تم میں ہی ہو! دو دن کی زندگی کے مغرور مہمان، کبھی تم نے سوچا کہ پودا کیسے بڑا ہوتا ہے۔ وہ مجھ سے، ہاں اس مٹی، گرد، دھول، ریت سے اجزاء جذب کرتا ہے اور پھلتا پھولتا ہے۔ پودا ایک دھول کی قسم ہی تَو ہے، پھر وہ پھل اور پھول دیتا ہے وہ بھی مجھے ہی کھا کر۔ اور جب پھول مرجھا جاتا ہے تو اس کی پنکھڑیاں بکھر جاتی ہیں۔ پھول پھر میں بن جاتا ہوں۔ اسی طرح انسان بھی موت کے ذریعے پھر مٹّی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ زمین کی ہر چیز میں ہوں۔ میں اٹل ہوں، مستقبل ہو ں، ماضی ہوں، زندگی کا منبع ہوں۔ اے دیوانی ہستی ، تم میری معراج ہو نہ کہ پودے کی۔ انسان، حیوان، پرند  چرند  سب میری معراج ہیں۔ انسان بے شک بہت تنگ نظر ہے، خود دھول سے بنا ہوا دھول کے ذرّوں سے بچتا پھرتا ہے۔ اس کے آباؤاجداد آج سے ہزاروں سال پہلے مٹّی کو اپنی ماں سمجھتے تھے، ان کا رشتہ اپنی دھرتی ماں سے بہت مضبوط تھا، وہ زیادہ وقت دھول مٹّی میں ہی گزارتے تھے، کچّی مٹّی سے اپنے گھر بناتے تھے،چاندنی راتوں میں دائرہ بنا کر ننگے پاؤں مٹّی پہ ناچتے گاتے تھے۔ ماضی میں غاروں میں بسنے والا انسان اب کتنی بلند و بالا عمارتیں بناتا ہے، دریاؤں کو عبور کرنے کے لئے پل تعمیر کرتا ہے، سمندروں کی تہہ کے نیچے سے سرنگیں نکالتا ہے۔ کیا یہ سب کچھ ریت کے بغیر ممکن ہے؟ اس کی یہ ساری ترقی میرے وجود کے  مرہونِ منّت ہے۔ میرا وجود تو تمام مخلوقات کے لئے ہے جیسے ہوا اور دھوپ۔ لیکن اب اس لالچی انسان نے بہت بڑے پیمانے پہ میری خرید و فروخت شروع کردی ہے۔

پھول نے ایک جما ئی لی اور خاموش رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اے بے وقوف، ہر   شئےکی ابتدا دھول مٹی سے ہی ہوتی ہے اور انتہا بھی وہی ہے یعنی مَیں ، مَیں۔ آج کا انسان بھی تمہاری طرح کا ہی ہے، میرے چند اڑتے ہوئے ذرّوں سے گھبراتا ہے۔
یہ کہہ کر دھول نے ایک قہقہہ لگایا اور ایک ہوا کے جھونکے کے سہارے پنکھڑیوں پہ ایک دبیز تہہ جما دی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply