کیا ہم غلام ہیں؟۔۔سیّد علی نقوی

امریکی غلامی نہ منظور”

“امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے”
“مرگ بر امریکہ”
امریکہ مردہ باد”
یہ تمام وہ نعرے ہیں جو شاید ہی کسی پاکستانی نے پاکستان کی سڑکوں پر پھرتے ہجوم  سے نہ سنے ہوں، جماعتِ اسلامی کے امریکہ مخالف ملین مارچ  سے لے کر مولانا فضل الرحمن کی جماعت تک، حافظ سعید ہوں، مولانا خادم رضوی ہوں یا عمران خان ہو امریکہ مخالف بیانیہ ہمارے یہاں کامیاب اور موثر الیکشن کیمپئن کا وہی تیار مصالحہ ہے کہ جو ہندوستان میں پاکستان دشمنی کے لیبل کے ساتھ بکتا ہے جو کارکردگی نہ دکھا سکے ، جو اصل معاملات سے توجہ ہٹانا چاہتا ہو، جس کو اپنی نا اہلی چھپانی ہو وہ امریکہ مخالف نعرہ لگا کر عوامی مقبولیت حاصل کر ہی لیتا ہے پاکستان میں امریکہ مخالف اور ہندوستان میں پاکستان مخالف بیانیے میں مماثلت بہت زیادہ ہے لیکن نہ آج تک ہندوستان کی کسی پارٹی نے اس دشمنی کو عملی جامہ پہنا کر پاکستان پر حملہ کیا اور نہ ہی ہم جمعے کے خطبوں میں امریکہ کو بدعاؤں سے آگے جا کر کچھ کہہ سکے، ہمارے چمچماتے میزائیل جب سے بنے ہیں امریکہ اور اسرائیل کی طرف کمر کر کے کھڑے بلکہ لیٹے ہوئے ہیں۔ایک فرق جو دیکھنے میں آیا وہ یہ ہے کہ پہلے زیادہ تر مذہبی رجحانات رکھنے والی جماعتیں جو کہ مذہبی بیانیے پر الیکشن لڑتی تھیں وہ اس طرح کے سلوگنز کا استعمال کیا کرتی تھیں لیکن یہ تحریِک انصاف ہے جو کہنے کو تو ایک ماڈرن لوگوں کی جماعت معلوم ہوتی ہے جس کا لیڈر انگریز کا  کھیل ادِھیڑ عمری تک کھیلتا رہا ہے، جس نے تعلیم انگلستان کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی، جس کی پہلی بیوی ایک انگریز تھی، جس کے تین تین انگریز بچے ہیں جن کو شاید ہی کوئی لفظ اردو زبان کا آتا ہوگا، جن کو پاکستان کے پانچ میں سے تین صوبوں کے نام بھی معلوم نہیں ہوں گے، وہی پارٹی کہ جس کے کارکنان میں یوتھ کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو جین پہنتے ہیں میوزک کے دلدادہ ہیں ناچنے، گانے ،آئی فون اور برانڈز کے شوقین جن کی شامیں ریسٹورنٹس اور کیفیز میں گذرتی ہیں ان میں سے کئی ہیں کہ جو پاکستان میں رہتے ہوئے بھی Live In Relationships
(بغیر شادی کیے ایک ساتھ رہنا) میں رہ رہے ہیں کئی ماڈرن بچے وہ بھی عمران خان کے فین ہیں کہ جو خدا کے تصور کو بھی نہیں مانتے لیکن وہ بھی آج امریکہ مردہ باد کیمپین کا حصہ ہیں، وہ بھی عمران خان کے اسلاموفوبیا کے بیانیے کے ساتھ ہیں، وہ بھی عمران خان کے Absolutely Not کو مشرقی غیرت کا آج تک کا پیش کیا جانے والا سب سے افضل عملی نمونہ مانتے ہیں۔

اب یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی غلام ہیں؟ بھکاری ہیں؟؟ اس سوال کا یک لفظی جواب جو بھی دے گا وہ گمراہ کن ہے آئیے اس سب کو تفصیل سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اردو کی سب سے مشہور و مستند لغت فرہنگِ آصفیہ غلامی کے مندرجہ ذیل مطالب و مترادفات بتاتی ہے

“حلقہ بگوشی، بندگی، عبودیت، اطاعت، تابع داری، آزادی کا نقیض، قید، نظر بندی”

اسی طرح جب فرہنگِ آصفیہ سے ذہنی غلامی کے مترادفات پوچھیں تو وہ اس میں لفظِ “مرعوبیت” کو بھی شامل کرتی ہے لیکن یہ مرعوبیت کیا ہوتی ہے؟؟ فرہنگِ آصفیہ مثال دیتی ہے کہ اگر کسی شخص کی مادری زبان اردو یا پنجابی یا سرائیکی ہو اور وہ ان زبانوں سے زیادہ فخر و طمانیت انگریزی یا فرنچ یا جرمن بول کر حاصل کرتا ہو تو اس کو مرعوب ہونا کہیں گے، اسی طرح کا معاملہ ثقافت، خوراک اور لباس کے متعلق بھی ہے مثلاً میں اکثر لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ یہ بچے جو اردو رومن میں لکھتے ہیں، کولے ، برگر اور پیزے کھاتے ہیں، جو جین اور جوگر پہنتے ہیں، جو راگ کی جگہ راک میوزک کے دلدادہ ہیں، جنہیں ستو کا نام بھی نہیں معلوم جبکہ وہ انرجی ڈرنک پینے کے عادی ہیں، جن کے ہیرو سوپر مین ،بیٹ مین اور سپائیڈر مین ہیں، کیا وہ آپکے بچے ہیں؟؟ ہمیں شاید یہ احساس ہی نہیں کہ ہم یہ جنگ بہت پہلے ہار گئے تھے۔

کوئی جا کر مشرقی غیرت کو یہ بتائے کہ تمہاری مکئی کی روٹی اور ساگ کی موت دہائیوں پہلے برگر اور سینڈوچ کے ہاتھوں ہو چکی اور اس میں ہر روز کوئی نئی چٌھری کسی نئی ایجاد ہونے والی ڈش کے ہاتھوں پیوست ہو جاتی ہے، آپکی دھوتی، کرٌتا ،شلواریں، قمیضیں، اچکنیں کب کی جینز کے ہاتھوں مر چکیں، آپکے شیخ چلی، ملاں نصیرالدین اور جگے کی قبروں کے نشان تو ٹارزن کے زمانے میں ہی مٹ گئے تھے، ہمارے بچے عید، بقر عید، شب برات ،ویساکھی سے سو گنا زیادہ دلچسپی نیو ایئر نائٹس ، ویلنٹائن ڈے، ہولو وین، اور بلیک فرائیڈے میں رکھتے ہیں لیکن ہم یہ سب دیکھنے کے باوجود یہ واضح ہار ماننے کو تیار نہیں ہیں، آپکی آج پیدا ہونے والی نسلوں کے ڈی این اے میں صرف ایک ہی چیز ہے اور وہ ہے مرعوبیت۔۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے بچوں کے ڈی این اے میں یہ مرعوبیت کہاں سے آئی؟ اس کے لیے تاریخ کے دریچوں میں جھانکنا پڑے گا۔

برصغیر کے عام آدمی کی کیا بات کریں ہمارے مرزا غالب جو کہ ہمارے یہاں کریٹیوٹی اور علم و فضل کے ایک آئیکون مانے جاتے ہیں انہوں نے جب انگریز افسر کو جیب سے ماچس نکال کر سگریٹ جلاتے دیکھا تو حیران ہوکر بولے تھے کہ یہ کیسی قوم آگئی ہے کہ جو جیب میں آگ لے کر گھومتی ہے؟؟؟ غالب جیسے جینیس کا ٹیکنالوجی دیکھ کر منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا تو سوچئے کہ عام آدمی کا کیا حال ہوتا ہوگا؟

اگر آپ تقسیم سے پچاس سال پہلے کے مخطوطات پڑھیں تو حیرت، شرمندگی، کم علمی سمیت کمتری کا شدید احساس ہوتا ہے، انگلستان سے آنے والوں کے لیے برصغیر میں مستعمل گورے کا لفظ ہی مرعوبیت کی سب سے بڑی نشانی بھی ہے اور ثبوت بھی۔

ایک اور مثال دیکھیے کہ جب انگریز سرکار نے برصغیر میں ریلوے ٹریک بچھانا شروع کیا تو یہاں کے لوگ تھڑوں پر بیٹھے حقے کی چلم تازہ کرتے ہوئے کیا باتیں کرتے تھے کہ گورا یہ لوہے کے پٹے اس لیے ڈال رہا ہے کہ وہ ہمارے ملک کی زمین کو ان لوہے کے پٹوں کی مدد سے کھینچ کر انگلستان لے جائے کیونکہ ان کے پاس زمین نہیں ہے، ریل کا انجن دیکھا تو کہا کہ اس لوہے کے بڑے بکسے میں “جن” بند ہیں ان “جنوں” کو مرچوں کی دھونی دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ غصے سے پھنکارتے ہیں تو یہ کالا دھواں نکلتا ہے اور اس دھونی سے جب انکی ناک میں جھنجھلاہٹ ہوتی ہے تو وہ سرپٹ دوڑ پڑتے ہیں اس طرح ٹرین چلتی ہے، اب اس واقعے میں آپکو جہالت، حیرت، مرعوبیت اور نہ جانے کیا کیا دیکھنے کومل سکتا ہے۔

ہم اپنے بچپن میں سنتے تھے کہ امریکہ اور یورپ میں شیشے کی سڑکیں ہیں، وہاں ہوا میں اڑنے والی کاریں ہیں، آٹا گوندھنے سے لے کر جوتے پالش کرنے کی مشینیوں کے قصے پھٹی ہوئی آنکھوں سے سنائے اور سنے جاتے تھے ریڈیو، ٹی وی اور لاؤڈ سپیکر کی مخالفت میں اس خطے کے رہنے والوں کی جہالت کا ماتم زیادہ بلند آواز میں سنائی دیتا تھا، شدید ترین مرعوبیت کے ساتھ شدید ترین احساسِ کمتری و محرومی بھی واشگاف تھی۔

استاد نے بتایا تھا کہ حکمرانی اس کی ہوتی ہے جس کا علم برتر ہوتا ہے یہ سائنس کی دنیا ہے یہاں وہ راج کرے گا جو ٹیکنالوجی میں برتری حاصل کرے گا، بات اسکی مانی جائے گی جس کی ایجاد منہ توڑ ہوگی، فن وہ بکے گا جو زیادہ سے زیادہ انسانوں کو اپنی جانب متوجہ کرے گا، لیکن چونکہ دنیا کا غالب بیانیہ شدت پسندی، نفرت، تقسیم اور انتہا پسندی ہے لہذا ایسے رجحانات رکھنے والوں کے لیے یہ بات سمجھنا تو شاید مشکل نہیں لیکن ہضم کرنا تقریباً نا ممکن ہے کیونکہ شدت پسند ذہن کی تعمیر میں سب سے اہم عنصر احساس برتری ہے، اس احساسِ برتری کی بھرتی ایک شدت پسند ذہن میں اس قدر کی جاتی ہے کہ وہ اپنے سے بہتر کو برداشت ہی نہیں کر پاتا اوّل تو وہ اس کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر وہ اس کے بس سے باہر ہو تو غصے میں وہ اسکے متعلق مغلظات بکتا ہے یہی کچھ ہم امریکہ اور یورپ کے ساتھ کرتے ہیں۔

اور ایسے میں ایک ایسا شخص کہ جس کی کُل زندگی انگریزی ماحول کی عکاسی کرتی ہو ،جو ہر مثال یورپ کی دیتا ہو، جس کی قانونی و غیر قانونی، اعلانیہ و غیر اعلانیہ ہر طرح کی اولاد انگلستان میں پلی بڑھی اور رہائش پذیر ہو وہ جب کہے کہ “کیا ہم غلام ہیں” تو انسان کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے، انسان یہ سوچتا ہے کہ یہ آدمی کیا بات کر رہا ہے, اس آدمی سے زیادہ غصہ ان پر آتا ہے کہ جو ان باتوں  کو  ایمان بنا لیتے ہیں۔

میں عمران خان کو بتانا چاہتا ہوں کہ تم سے زیادہ آج تک کسی کو مغربی ثقافت سے مرعوب ہوتے ہم نے نہیں دیکھا تم وہ ہو کہ جس نے عربی شیخوں کی گاڑیاں پرائم منسٹر ہوتے ہوئے ڈرائیو کیں، جس نے محمد بن سلمان کی ڈرائیوی کی، تم جب چائینہ گئے تو وہاں کا نظام تمہیں بھا گیا، سعودی عرب سے واپس آکر تم نے وہ حکم جاری کرنے کی کوشش کی کہ جو محمد بن سلمان جاری کرتا ہے، ایران گئے تو وہ تمہیں اچھے لگنے لگے، ترکی گئے تو تم ارتغرل بن گئے، ملایشیا کا مہاتیر محمد ایک زمانے میں ہر وقت تمہارے دماغ پر سوار رہتا تھا وہ تو بھلا ہو محمد بن سلمان کا کہ اس نے تمہارے دماغ سے مہاتیر کا بھوت جوتے مار مار کر اتارا، چین کا اسٹڈیم دیکھا تو تمہاری آنکھیں پھٹ گئیں، مودی سے تمہیں کشمیر کی آزادی کی امیدیں تھیں، ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں تمہیں غیرت دکھائی دیتی ہے، تم وہ کہ جو اس امید میں رہا کہ شاید ایک بار بائیڈن مجھے کال ہی کر لے اور ہمیں تم یہ بتاتے ہو کہ
“ہم کوئی غلام ہیں”

دعا ہے کہ کوئی خاور  مانیکا کے رقیبِ خاص کو بتائے تم کیا اور تمہاری اوقاف کیا، عمران خان تم ایک قومی مجرم ہو تم ایک فاشسٹ، میسوجونسٹ، سیکسکٹ, اور ایک کرپٹ آدمی ہو کہ جو اس ملک کے فیبرک کی دھجیاں بکھیرنے کے لیے مسلط کیا گیا تھا تمہارے خلاف سازش نہیں ہوئی بلکہ اس ملک کی سیاست کو نوے کی دہائی میں دھکیلنے کی سازش کا اصل محرک تم ہو ایک ایسی سازش کہ جو ملک کی بربادی کا تمام سامان ساتھ لیے ہوئے ہے، معیشت برباد، نوجوان نسل برباد، سیاسی مخالفت کے تمام اصول برباد، آئین اور اداروں کا تمام تقدس برباد، لوگوں کی رشتے داریاں، دوستیاں، تعلق برباد نہ تم میں نہ ہی تمہارے فالوورز میں یہ تمیز ہے کہ آئین کیا ہوتا ہے؟ قانون کیا ہوتا ہے؟ پارلیمنٹ کیا ہوتی ہے؟ بس ایک بات کہ جو عمران خان کہے وہی سچ ہے اور باقی تمام جھوٹ ہے یہ وہ ذہنی غلامی ہے کہ جس کے بارے میں ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ قومیں اس طرح کی شخصیت پرستی سے برباد ہوتی ہیں، دراصل عمران خان وہ سازش ہے کہ جس سے پاکستان کو خطرہ ہے۔

اے کاش! امریکہ تمہارے خلاف سازش کرتا ، کاش تم اتنے اہم ہوتے، کاش تم کچھ ایسا کرتے کہ امریکہ کو ہم سے خطرہ محسوس ہوتا کاش تم میں وہ صلاحیت ہوتی کہ تم واقعی امریکہ کو Absolutely Not کہہ پاتے تم کہ جو فرح گوگی اور حریم شاہ کے رحم و کرم پر ہو کہ ایک ویڈیو لیک ہوئی نہیں اور تمہارا کام تمام ہو جائے، تم کہ جو اپنا ذاتی گھر چلانے کے قابل نہیں، تم کہ جو کبھی جمائما گولڈ سمتھ کے پیسوں پر پلے، کبھی جہانگیر ترین کے تو کبھی علیم خان کے تو کبھی علیمہ خان کے، تم چندہ، فطرہ ، صدقہ چور تمہاری اوقاف کیا ہے کہ تم کہو کہ

“ہم کوئی غلام ہیں”

تم کہ جو قرضے کی قسط منظور ہوجانے کو کل تک خوش خبری کہتے تھے، آج امریکہ کو کہہ رہے ہو کہ ہم کوئی غلام ہیں، تم لوگوں کو یہ بتاتے ہو کہ ہم غلام نہیں ہیں تو سنیں عمران خان اور اسکے ماننے والے کہ تم تمہارے آباؤ اجداد تمہاری گزری ہوئی کئی سو نسلیں غلام تھیں اور جس دلدل میں تم اس ملک کو گھسیڑ کر گئے ہو اگلی کئی سو نسلیں بھی غلام ہی رہیں گی اور کیوں نہ ہوں کہ آج کی ماڈرن دنیا کے بنانے اور چلانے میں ہمارا حصہ کیا ہے؟؟ جس قوم نے پیمپر تک ایجاد نہ کیا ہو، جس کے سیب پھیکے پڑ چکے ہوں، جس کی کپاس مٹیالی اور گندم کالی پڑ چکی ہو، جس کے کارخانے ایندھن کی بجائے مزدوروں کے خون سے چل رہے ہوں، جہاں پر ٹائم گذارنے کے لیے لڑکیاں ایک چرس کے سگریٹ کے عوض تیار ہونے لگیں، جہاں سمسٹر کے نمبر لڑکی کی شلوار کے سرکنے سے مشروط ہو چکے ہوں، جہاں سائل وکیل نہیں جج کرتے ہوں، جس قوم کے فوجی ہتھیار چھوڑ کر اینٹوں اور سیمنٹ سے دل لگا بیٹھے ہوں، جس ملک کی عدلیہ ایک کروڑ سے زائد زیرِ التوا مقدمات کی موجودگی میں ڈیم بنا رہی ہو، جس ملک کی فوج تمام داخلی و خارجی خطرات کے باوجود ہاؤسنگ سوسائٹیز، بینک، پیٹرول پمپ، کارن فلیکس اور پیزے بنانے میں مصروف ہو، جس ملک کے لوگ ہر روز صبح چار بجے سے امریکی، فرانسیسی، برطانوی، اطالوی غرض ہر ایمبیسی کے باہر اس امید میں قطار بنا لیتے ہوں کہ جب نو بجے سفارت خانہ کھلے گا تو شاید ہمارا ویزہ ہی لگ جائے، جہاں غریب چھوڑیئے امیر محفوظ اور غیر مطمئن ہو، وہ ملک اور قومیں غلام بھی نہیں ہوتیں عمران خان اور اس جیسوں کو اطلاع ہو کہ ہاں ہم کوئی غلام نہیں ہیں کیونکہ ماڈرن دنیا میں غلاموں کے بھی حقوق ہیں اجرت طے شدہ ہے کام کرنے کے اوقات مقرر ہیں تم تو غلام رکھنے کے قابل بھی نہیں ہو ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم لوگوں کی اس صورت حال کو واضح کرنے کو ابھی تک فرہنگِ آصفیہ جیسی بلیغ لغت کے پاس بھی لفظ نہیں ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply