• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بچوں کی کم ہوتی ذہنی استعداد اور بڑھتی فیسیں ۔۔سیدمہدی بخاری

بچوں کی کم ہوتی ذہنی استعداد اور بڑھتی فیسیں ۔۔سیدمہدی بخاری

میں جس سرکاری سکول میں پڑھتا تھا اس کا رقبہ ایک ایکڑ تھا۔ ایک گراؤنڈ تھا جس میں ہاکی اور فٹ بال کھیلا جا سکتا تھا۔ سکاؤٹنگ تھی، وسیع لائبریری تھی اور ڈبیٹنگ ہال تھا جس میں مختلف کلاسوں کے مابین معلوماتِ عامہ کا سالانہ مقابلہ ہوتا تھا۔یعنی کلاس روم کے باہر ذہنی و جسمانی نشوونما کا پورا انتظام تھا۔

میرے کلاس فیلوز میں ایک لڑکے کا باپ تانگا چلاتا تھا۔ ایک کا باپ حلوائی، ایک بچہ تحصیلدار کا تھا اور ایک واپڈا کے ایگزیکٹو انجینئر کا۔چار لڑکے نواحی دیہاتوں میں رہنے والے چھوٹے زمینداروں کے تھے۔اور باقیوں کے ابّا کریانہ فروش، سٹیشنری کی دکان، ٹیچر، وکیل، بینک کیشیئر وغیرہ وغیرہ تھے۔

ڈسپلن برقرار رکھنے کے لیے استاد کے ہاتھ میں چھڑی بھی گھومتی رہتی تھی۔ فیس ساٹھ روپے ماہانہ تھی۔

آج آدھے کلاس فیلوز کا کچھ پتہ نہیں۔ باقی آدھوں میں سے کوئی آرٹسٹ ہے، کوئی امریکہ یا پورپ میں ہے، کوئی صوبائی سیکرٹری ہے، ایک کرنل ہے، کچھ کارپوریٹ سیکٹر میں ہیں، اور ایک بہت بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی کا مالک بنا پھر رہا ہے ۔

میرا سکول کوئی خاص نہیں تھا۔ اور اس میں ایسے ہی عام سے طالبِ علم پڑھتے تھے۔ وہ شام کو پی ٹی وی پر بچوں کے لیے کارٹون فلمیں، ڈرامے اور فاروق قیصر کا کٹھ  پُتلی شو اور عینک والا جن بھی دیکھتے تھے، ریڈیو پر گانے بھی سنتے تھے اور ان میں سے کچھ استاد کی غیر موجودگی میں ناچ بھی لیتے تھے۔

ہر مڈل کلاس گھرانے میں بچوں کا ایک آدھ رسالہ ضرور آتا تھا۔اخبارات میں بچوں کی دنیا کی طرح کا ہفتہ وار صفحہ ضرور چھپتا تھا۔ ان صفحات میں نئے نونہال لکھاریوں اور شاعروں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ انہیں صفحات کے طفیل بعد میں کئی سکہ بند ادیب اور شاعر بھی بن گئے۔

آج میرا بچہ جس سکول میں پڑھتا ہے اس کا رقبہ آٹھ سو مربع گز ہے۔ دو منزلہ عمارت میں صرف کلاس رومز ہیں۔ ایک چھوٹا سا لان ہے جس میں بس صبح کی اسمبلی ہونے کی گنجائش ہے۔ فیس اور متفرقات ملا کر سولہ ہزار روپے ماہانہ اس اکیلے بچے کا جاتا ہے۔
چونکہ سکول میں بھی گراؤنڈ نہیں لہذا وہ فٹ بال ٹیبلٹ کے سافٹ ویئر پر کھیلتا ہے۔ ویک اینڈ پر کرکٹ گھر کے باہر گلی میں کھیلتا ہے۔ ایک نگاہ گیند پر اور دوسری نگاہ آتی ہوئی کار اور جاتی موٹر سائیکل پر ہوتی ہے۔شام کو وہ ٹی وی نہیں دیکھتا۔ کسی چینل پر اس کے مطلب کا کوئی پروگرام نہیں۔ کارٹون کب تک دیکھے؟ روتی دھوتی عورتوں کے ڈرامے اور جھگڑالو ٹاک شو اس کی سمجھ میں نہیں آتے۔

وہ اور اس جیسے لاکھوں بچے کھیلنا چاہتے ہیں مگر کہاں کھیلیں، اپنے مطلب کے ٹی وی پروگرام دیکھنا چاہتے ہیں مگر کس چینل پر؟ اپنی ہم عمر کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں مگر کتابیں اور رسالے کہاں تلاش کریں؟ لہذا ان میں سے جن کے والدین یہ خرچہ اٹھا سکتے ہیں انہوں نے اپنے بچوں کو لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹ دلا دیا ہے۔ وہ یہ ٹیبلٹ کھاتے ہیں، پیتے ہیں اور جیتے ہیں۔
اور مجھ جیسے لال بجھکڑ روتے ہیں کہ نئی نسل اپنے اردگرد سے اتنی بیگانہ کیوں ہے؟ وہ صحت مند ذہنی و جسمانی زندگی گزارنے میں دلچسپی کیوں نہیں رکھتی؟ اس کی ذہنی استعداد یا آئی کیو لیول معیاری اور مہنگے سکولوں میں پڑھنے کے باوجود کیوں زوال پذیر ہے؟ یہ نسل عملی زندگی کے چیلنجوں کا کیسے مقابلہ کرے گی وغیرہ وغیرہ ۔

پہلے ہم نے اپنی نسل سے سکول چھینے، ذہنی و جسمانی تربیت کا ماحول چھینا، ان کی آزادی سے اڑان بھرنے کی اجازت کے پَر کُترے اور اب جب یہ نسل ایک کمرے کی دنیا میں سمٹ رہی ہے تو ہم نوحہ گر ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ آخر ہم نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے؟ جنہیں اب تک یہی نہیں معلوم کہ ان سے کون سا گناہ سرزد ہوا، انہیں کیسے معلوم ہوگا کہ گناہ کا کفارہ کیا ہوتا ہے۔
لاعلمی کا مداوا علم ہے مگر جہل کا کوئی کفارہ نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

(اپنے بچے کی مثال بطور استعارہ دی ہے کہ لاکھوں بچے ایسے ہی تو جی رہے ہیں۔ کوشش کرتا ہوں کہ وہ جسمانی ورزش والے کھیل کھیلے اور سکرین کے کھیلوں سے توجہ ہٹی رہے)۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply