عمران خان کے انداز و بیان۔۔ڈاکٹر ابرار ماجد

اخلاق معاشروں کے تہذیب و تمدن کا پتا دیتا ہے۔ سوچ انسان کی شخصیت، الفاظ انسان کی نمود و نمائش اور عمل ہماری معاشرت کا عکاس ہے۔ کل عمران خان کے مریم کو مخاطب کرکے کہے جانے والے الفاظ “مریم اتنے جزبے اور جنوں سے میرا نام نہ لیا کرو، تمہارا خاوند ناراض نہ ہو جائے” کے انداز و بیان نے تو حد کردی۔

اس طرح کے بیانات کی نشاندہی اور مزمت کافی نہیں۔ ہمیں اپنی نسلوں کو اس طرح کے فتنہ سے بچائے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ عمران خان کے الفاظ تو شرمساری تھے ہی مگر اس کے رد عمل میں ٹویٹر پر جو آج کا ٹاپ ٹرینڈ چل رہا ہے وہ یہاں بیان کے قابل بھی نہیں اور اس کے مندرجات ہوش اڑا دینےکے لئے کافی ہیں۔

یوں تواس طرح کے الفاظ کے جھلکیاں ہماری سیاسی ثقافت میں اکثر ملتی ہیں مگر اب انتہاء ہوتی جارہی ہے۔ سیاستدان تو سیاستدان، صحافی اور مذہبی پیشوا بھی اس میں پیش پیش ہیں۔ مگر عمران کی اوئے، تو، برے اور الٹے ناموں سے بلانا ایک معمول کا فعل بن چکا ہے اور اس کا تسلسل اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے چاہنے والے بھی ان کے مزاج سے مماثلت رکھتے ہیں۔ عمران خان کے کل والے بیان نے اخلاقی حد بندی قائم کر دی ہے اور اس پر رد عمل سے ہماری سیاسی اور معاشرتی زندگی میں پہچان بہت ہی واضح ہوجائے گی۔

کون کس مزاج اور اخلاق کا مالک ہے۔ اس بارے زیادہ الجھنے اور انتشار کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں بس اتنا اندازہ لگا لینا ہی کافی ہے کہ کون کس طرف کھڑا ہے۔ ایک طرف وہ ہے جہاں اس طرح کے زبان بازی کو فخر سے بیان کیا جاتا اور کھل کر داد دی جاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے تحفظ میں مختلف دلائل کے پہاڑ بھی پیش کر دیئے جاتے ہیں اور ایک دوسری طرف ہے جہاں اس طرح کی گالیوں کا جواب بھی بہت ہی محتاط الفاظ کے ساتھ اور شائستگی سے دیا جاتا ہے۔

کسی سیاسی قائد، صحافی یا مذہبی پیشوا کے عمل کو اس کا انفرادی فعل سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کے اثرات ہمارے معاشرے پر پڑتے ہیں اور اس سے ہماری معاشرتی تعمیر اور تخریب کے پہلوجڑے ہوتے ہیں۔ اگر اس طرح کی سوچ، عمل اور معاشرت کے باوجود ایک سیاسی قائد کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری اجتماعی معاشرت کس گراوٹ کا شکار ہوچکی ہے۔

ان حالات میں مقبولیت صحیح راہنمائی نہیں بلکہ ہم مزاج اور ہم خیال لوگوں کے جھرمٹ کی طرف اشارہ دے رہی ہوتی ہے۔ راہنمائی کا تعلق اعلیٰ سوچ، عمل اور ان میں ہم آہنگی سے ہے۔ اور ہمارے معاشرے میں اعلیٰ سوچ اور عمل کا معیار ہماری مذہبی، قومی اور اخلاقی اقدار ہیں نہ کہ مقبولیت۔

ہماری قومی اور اخلاقی اقدار میں اس طرح کے رویوں کی کوئی گنجائش نہیں اور جو آج ماحول پیدا ہو رہا ہے یہ ہماری تعلیم تربیت کا نتیجہ ہے جو کردار سازی کی بجائے مادیت کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔

ہمارے معاشرے میں عموماً اس طرح کی گالی کو اشتعال انگیزی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس سے انتہائی نفرت کا اظہار اور مد مقابل کو تکلیف دینا مقصود ہوتا ہے اور اس پررد عمل میں اکثر قتل و غارت تک نوبت جاپہنچتی ہے اور خاندانوں کے خاندان تباہ ہوجاتے ہیں۔

کسی کے حوصلہ و برداشت کو معلوم کرنے کے لئے گالی دے کر آزمانے کو بہت ہی پر اثر ہتھیار سمجھا جاتا ہے اور اس کا استعمال تاریخ میں بہت سی اعلیٰ شخصیات کو آزمانے کے لئے استعمال کیا گیا۔

ہمارے معاشرے میں گالی پر خاموشی کو بے غیرتی سمجھا جاتا ہے اور جواب دینے کو غیرت مندی مگر حقیقت یہ ہے کہ گالی سن کر ہوش و حواس کو قائم رکھنے اور تحمل سے جواب دینے والا انسان کمزور یا بے غیرت نہیں بلکہ بہت ہی طاقتور اعصاب کا مالک اور عقلمند ہوتا ہے۔

حضور اکرم ﷺ کا ارشاد کا مفہوم ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی کے برا بھلا کہنے پر خاموش رہے تو اس کا جواب فرشتے دیتے ہیں۔

کسی کے اشتعال دلانے پر غصہ آجانے سے انسان اپنے حواس پر اختیار کو کمزور کر بیٹھتا ہے اور پھر اس کی قوت صحیح دانشمندانہ فیصلہ کرنے سے اس کو عاری کر دیتی ہے۔

عمران خان صاحب جس شخصیت کو اپنا ماڈل سمجھتے ہیں ان کے بارے حضرت عائشہؓ نے کہا ہے کہ پورا قرآن ان کا اخلاق ہے۔ تو ہم آج اپنے اپنے اخلاق کو پرکھ سکتے ہیں کہ یہ قرآن مجید میں بیان کئے گئے اخلاقی معیار میں کہاں کتنا پورا اترتا ہے۔

ہمیں کسی کی صحیح شخصیت کو سمجھنے کے لئے محض اس کے انداز و بیان کو ہی نہیں لینا ہوتا بلکہ اس کے عمل کو بھی دیکھنا اور جائزہ لے کر رائے قائم کرنی ہوتی ہے کہ ان میں ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے یا کھلا تضاد ہے۔

قرآن پاک میں منافق کی تین نشانیاں بتائی گئی ہیں۔ وہ جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے تو پورا نہیں کرتا اور اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرتا ہے۔ اب ہم سب اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔

حضور اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ مومن نہ تو طعن کرنے والا ہوتا ہے نہ لعنت کرنے والا نہ وہ فحش گو ہوتا ہے اور نہ زبان دراز۔

Advertisements
julia rana solicitors

کسی بھی معاشرے کی تباہی میں دشمن کا اتنا کردار نہیں ہوتا جتنا منافق کا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ بہروپئے کی صورت میں اندر سے دیمک کی طرح معاشرت کو تباہ کر رہا ہوتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply