کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے ؟۔۔شیخ خالد زاہد

وقت کسی بپھرے ہوئے سمندر کا رویہ اختیار کر چکا ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا کے حالات غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہیں ۔ جیسا سوچا تھا ویسا تو ہوا نہیں اور ویسا ہوگیا جس کا خیال تک نہیں کیا گیا۔دنیا ایسی کیفیت سے دوچار محسوس کی جارہی ہے ۔ مادہ پرستی کا دور دورہ ہے ہر کوئی اپنے اپنے حساب کتاب کے مطابق لائحہ عمل ترتیب دے کر بیٹھا ہوتا ہے جبکہ قدرت کا اپنا طے شدہ اور قابل عمل پروگرام ہوتا ہے جو ہوکر رہتا ہے ۔ قدرت اگر کسی کو ذلت دینے پر آجائے تو اس کے اچھے سے اچھے کام کو بھی اتنا خراب پیش کیا جاتا ہے کہ سب کرنے والے کے اوپر گر جاتا ہے اور اسی طرح اگر قدرت عزت دینے کا طے کرلے تو کسی بھی قسم کا کام ہو اسے اچھا ترین بنا دیا جاتاہے ۔ دنیا ابھی غیر یقینی کی انتہائی صورتحال سے گزر کر آئی ہے یعنی کچھ ہی وقت گزرا ہے کہ دنیا کورونا جیسی موذی وباء نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور واضح طور پر محسوس کیا جارہا تھا کہ گویا قیامت یا پھر قیامت کا نمونہ قدرت نے انسانیت کو دکھا دیا ہے، اب اس کی پکڑ سے کافی حد تک آزادی مل چکی ہے لیکن ابھی بھی خبریں آرہی ہیں کہ کورونا اب کوئی اور شکل اختیار کر کے واپس آنے کی کوششو ں میں مصروف ہے ۔

کیا وہ وقت آن پہنچا ہے کے یہ مان لیا جائے کہ دنیا کی تمام تر مشکلات کا سبب بننے والی کوئی ایک دنیاوی طاقت ہے جو اپنے اثر و رسوخ اور اپنی موجودگی ہر ملک کے داخلی اور خارجی معاملات میں رکھنا چاہتی ہے ۔ یوں تو دنیا بخوبی اس امر سے   واقف ہے کہ امریکہ وہ ملک ہے جو ساری دنیا میں اپنی قائم کردہ اجارہ داری کی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ امریکہ کو ایسا کرنے کی ضرورت افغانستان میں عبرت ناک شکست پر پردہ ڈالنے کیلئے کرنا پڑ رہی  ہے ۔ دوسری طرف پچھلی دو دہائیوں سے سب سے بڑے حلیف بلکہ اگلی صفوں میں کھڑے ہوکر سارا خسارہ برداشت کرنے والے ملک پاکستان کا ایک دم سے اعلانیہ ساتھ چھوڑ دینا ، امریکہ کیلئے کسی بہت بڑے دھچکے سے کم نہیں تھا ،جس کی دھمک انکے اعلیٰ  ایوانوں تک بھی پہنچ گئی ، اس اعلان کی توثیق در توثیق  ہوتی چلی گئی اور پاکستان نے ناصرف امریکی مطالبات ماننے سے انکار کردیا  بلکہ الٹے اپنے مطالبات سامنے  رکھ رئیے ۔ ان مطالبات کو تسلیم کرنا امریکہ کیلئے اس لئے ضروری ہوگیا کیونکہ اسکی افواج کو افغانستان سے نکلنے کا محفوظ راستہ انہی شرائط پر ملنا تھا ۔ محفوظ راستہ مل گیا ساری فوج رات کی تاریکی میں نکل گئی اس طرح نکلنے کا طریقہ یقینا ً پاکستان نے بتایا ہوگا ۔ امریکہ نے جان کی امان پائی اور وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پاکستان کی ہر شرط تسلیم کر لی لیکن یہ سب اسکے مزاج کے خلاف انکی حکمت عملی سے متصادم ہوا تو کسی نا کسی طرح اور جلد از جلد اسکا بدلہ لینا ضروری تھا اور اسکا بہترین بدلہ یہی ہوسکتا تھا کہ اس صاحب اقتدار کو زیر کردیا جائے جس نے   امریکہ   کو جھکنے پر مجبور کیا ہے ۔ اب جوکچھ ہوا ہے وہ کسی سے بھی چھپا ہوا نہیں ہے اور ویسے بھی آج ہم سماجی ابلاغ کے دور میں ہیں ، خبر کتنی ہی بڑی کیوں نہ  ہو یا کتنی ہی معمولی کیوں نہ  ہو سب کوسماجی ابلاغ پر یکساں اہمیت دی جارہی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹانے میں خارجی دخل اندازی تقریباً ثابت ہوچکی ہے اور اس خارجی دراندازی کو راستہ دینے والے اور انکے آلہ کار بننے والے بلکہ ایک اصطلاح کچھ وقت پہلے بہت عام ہوئی تھی سہولت کاروں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹاجائے گا، لیکن اسوقت مسئلہ  دہشت گردی کا تھا ،جس پر الحمد للہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بیش بہا قیمتی جانوں کے نذرانے دے کر قابو پایا اور انکے سہولت کاروں کو بھی انجام تک  پہنچایا ۔ پاکستان کی تاریخ میں سیاسی دھاندلیوں کی سب سے بڑی مثال سقوط ڈھاکہ کی صورت میں موجود ہے جو ایک بدنما داغ کی طرح نمایاں ہے یہ اس  وقت کی بات ہے جب خبر اپنی مرضی سے شائع کی جاتی تھی اور نہ شائع کرنے کا اختیار بھی موجود تھا، اسکے بعد اگر ہم کسی سیاسی دھاندلی کو رقم کرینگے تو وہ تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کیلئے کی جانے والی دھاندلیوں کا تسلسل ہے ۔ سقوطِ ڈھاکہ تاریکی میں سرزد ہونے والا سانحہ سمجھ کر سیاہ باب بنا کر بند کردیا گیا لیکن عمران خان کو وزارتِ اعظمی سے ہٹا کر اور انکے خلاف ایک اجتماعی محاذ بنا کر جتنی بڑی غلطی کی گئی ہے یہ ہم لوگ خوب دیکھ رہے ہیں ۔ ایک طرف تنہا    عمران خان، دوسری طرف تمام ادارے اور تمام ذی قدر سیاسی جماعتیں ، اب کیا تھا عمران خان کوخوب معلوم ہوچکا تھا کہ انکا مقدمہ اب عدالتوں میں تو سننے والا کوئی نہیں ہے انہوں نے عوامی عدالتیں لگانا شروع کردیں اور کسی زخمی شیر کی مانند اپنے مخالفین کو للکارنا شروع کردیا اور للکارتے ہوئے نام نہاد قومی سیاسی جماعتوں کے عظیم مانے  جانے والے رہنماؤں کے چہروں پر سے نقاب نوچنا شروع کردئیے ۔ اصلی چہروں کے سامنے آتے ہی عوام نے عمران خان کی ہر آواز پر لبیک کہنا شروع کردیا ،آواز نے گونج بننا شروع کیا اور یہ گونج ایک شہر سے دوسرے شہر اور پھر شہر شہر گلی گلی کوچے کوچے میں سنی جانے لگی ہے ۔ حق ثابت ہوچکا ہے نا اہل اور درآمد شدہ نظریہ بری طرح سے ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے ہر قدم اس اتحاد کی اجتماعی قبر کی جانب بڑھ رہا ہے ۔ پاکستان بہت جلد اپنے حقیقی نظریاتی وارث کو سونپا جانے ولا ہے ۔ اب انتخابات کا وقت بھی نکلتا جا رہاہے اب اقتدار خود بخود عمران خان کی جھولی میں ڈالا جائے گا اور بہت جلد پاکستان میں صدارتی نظام قائم کیا جائے گا ۔ اگر اللہ نے چاہا  تو و ہ  وقت واپس آجائے گا جب پاکستان کے فیصلے پاکستان میں ہی کئے جائیں گے ۔ انشاء اللہ ۔

Facebook Comments

شیخ خالد زاہد
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔ ان کے منتخب مضامین کا پہلا مجموعہ بعنوان قلم سے قلب تک بھی شائع ہوچکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply