چاچا محبت – محبتوں کی ٹھنڈی چھاؤں کا سفیر۔۔انعام مورگانائٹ

بچپن اور پھر لڑکپن مورگاہ میں گزرا سادہ سا زمانہ تھا سادی طبیعت کے لوگ تھے رزق یا روزی کی تلاش ملکوں ملکوں میں جہاں بھی گیا مورگاہ میرے ساتھ رہا،میرے دل و دماغ میں مورگاہ بسا رہا۔
جہاں گیا پروین شاکر کے ہرجائی کی صورت پلٹا تو مورگاہ کا چکر جدول میں رکھا۔
کبھی نئی آبادی آخری اسٹاپ تک، کبھی سی لین کے میدانوں میں پرانے برگد اور پیپل سے سرگوشیاں کرتا تھا کبھی اکیلی رات کو گھنٹوں اِن ٹیلوں اور راستوں پر بیٹھا رہتا تھا کہ شاید یہاں وہ پرانے مہربان چہرے دکھائی دے جائیں
لالہ طفیل(مرحوم) کی محبت
لالہ امیر افسر کی شفقت
ریاض کی ہٹی اور اسکے اونچی آواز سے ٹیپ ریکارڈر سے بجنے والے گیت ، تاج بھائی دکاندار کے الفاظ کہ” ادھار اگلے چوک سے”،پرنسٹن سگریٹ ایک تو سستا تھا دوسرا لمبا تھا ہم دو بندے ملکر بھی پیتے تو دیر سے ختم ہوتا ،اس لیے یہ برانڈ اپنے لیے مخصوص کر لیا گیا۔
پپو بھائی(ریاض) نے پہلی دفعہ لمبا کش لگانا سکھایا کہ دھواں اندر لیتے ہی سی کی آواز نکالو تو سگریٹ لطف دیتا ہے،جب میں نے ایسا کیا تو چکرا گیا۔۔
ایک اور ٹرک trick پپو بھائی سے سیکھی تھی ہم نئے لونڈے جن کو ابھی تازہ تازہ سگریٹ کی لت لگی تھی وہ سب انتظار میں رہتے تھے کہ پپو بھائی آئیں گے سگریٹ ملے گی۔
پھر انھوں نے کٹنا شروع کردیا ایک دن وہ آئے، ایک سگریٹ پیکٹ سے نکال کر سلگائی باقی پیکٹ شان بے نیازی سے ایسے پھینکا جیسے کہ وہ خالی ہو گیا ہے جبکہ وہ خالی نہ تھا مگر ہم جیسے نوزائیدہ سموکرز سے بچا لیا گیا تھا۔

کرکٹ اور ہاکی کے گراونڈ بھرے رہتے تھے،ہر وقت کھیلوں کے مقابلے کی فضا بنی رہتی تھی۔وہ سارے جو ہاکی کے موسم میں ہاکی کے ٹورنامنٹ میں ہوتے تھے تو کرکٹ کے سیزن میں سارے ہی کرکٹ کے لباس میں دکھائی دیتے تھے۔
کبھی کبڈی کبھی والی بال کبھی گُلی ڈنڈا کبھی کوکلا چھپاتی کبھی چھپن چھپائی  کبھی ساری دیواریں کالی کر دی جاتی تھیں کہ تلاش کرو۔

میں کبھی بھی مورگاہ اور اسکے سحر سے باہر نہ نکل سکا۔مورگاہ کی معروف ایک جگہ “سی لین” جسکا ایک کردار “چاچا محبت” جو کبھی مجھے بھولے گے نہیں۔انکے بارے میں کچھ لکھنا دراصل اس کردار کی تعظیم میں اپنا معمولی سا نذرانہ پیش کرنا ہے۔وہ اس دنیا میں نہیں ہیں مگر مجھے یقین ہے وہ اس دنیا سے بہت زیادہ خوبصورت دنیا میں ہونگے۔

چاچا محبت۔۔مودی بھائی، گلفام بھائی، مظہری بھائی کے والد ہیں،میں نے انکو جب بھی دیکھا ایک بھرپور توانائی میں دیکھا۔میرے بڑے بھائی جان حاجی اکرام صاحب کی شادی تھی شاید 70 کی دہائی تھی اس زمانے میں محلے کے کسی کے گھر میں شادی کا مطلب پورے علاقے کے گھروں میں شادی ہوتا تھا۔مہمان نوازی میں پیش پیش سبھی میزبان ہوتے تھے۔لڑکے لڑکیاں شادی کے گیت گا رہے تھے کہ چاچا محبت اچانک کہیں سے نمودار ہوئے انکے گلے میں ڈھول تھا اور اسکو بجا رہے تھے سب لڑکوں کو کہہ رہے تھے ” اوئے جاتکوں اٹھو سمی پاؤ”۔
انھوں نے ایک جاندار آواز میں پھر للکارا مارنا
اب کسی کی مجال ہے کہ اس دور میں سب کے بچے سانجھے بچے ہوتے تھے اور بزرگ سب کے لیے اپنے بزرگوں جیسے ۔۔
چاچا محبت ایک زندہ دل متحرک پاکستانی تھے۔
71 کی جنگ میں اٹک آئل کمپنی میں زبردست شیلنگ ہوئی ،لوگوں کا جم غفیر بغیر گیٹ پاس کے ریفائنری کے اندر فائیر اور فائر اینڈ سروسز کی معاونت کے لیے پہنچ گیا اللہ اکبر کی بازگشت کے ساتھ اس ہجوم مستانہ کے سر خیل کوئی اور نہیں چاچا محبت تھے۔
چاچا محبت سردیوں میں الگ قسم کی مصروفیات لے کر محلے کے سب بچوں کے درمیان ہوتے جبکہ گرمیوں میں بالکل جدا سرگرمیاں شروع جاتیں۔ یہ یادیں  کیسے بھول سکتا ہوں۔
موسم بہار کی آمد آمد ہے،چاچا محبت نے سب لڑکوں کو جمع کیا اور ٹاسک دیا کہ  درخت لگانے ہیں ہر گھر ایک درخت لگائے گا اور اسکو اپنے بچے کی طرح پالے گا۔
آج کے حالات میں جب سوچتا ہوں کہ چاچا کا کیا وژن تھا ؟؟
گرمی کی حدت میں اضافہ کا باعث درختوں کا کاٹنا ہی تو ہے
اب کیا تھا ایک لائین سے 10 درخت لگائے گئے
کہنے لگے دیکھا یہ تم لوگوں کی ورزش بھی ہوگئی اور اپنی زمین سے محبت بھی بڑھے گی۔
پھر ہم نے دیکھا وہ نوزائیدہ پودے جب تناور درخت بنے
میں اکثر جاتا ہوں ان درختوں کے بیچ بیٹھ کر ان دنوں کو محسوس کرتا ہوں۔
چاچا محبت کی محبت کو اپنے بہت قریب محسوس کرتا ہوں،انکے کھردرے مگر محبت سے ملائم ہاتھوں کا لمس اپنے سر پر محسوس کرتا ہوں۔
پتہ نہیں وہ اور ان جیسے کردار اب کہاں ملتے ہیں
کہ وہ اب ناپید ہیں شاید ۔؟
مگر محبت وہم نہیں ہو سکتی
بقول گلزار صاحب کے
نور کی بوند ہے
صدیوں سے بہا کرتی ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

چاچا محبت اس دریا کا نام تھا جہاں سے یہ بوندیں ٹپکتی ہیں
چاچا آپ جہاں بھی ہوں، نور کی بارش آپ پر ہو۔
ہم ہمیشہ دعا گو ہیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply