عوامی سیاست سے خالی پاور سیاست۔۔عامر حسینی

دو دن پہلے وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سید خورشید شاہ اور کل چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پانی کے بحران میں صرف اور صرف سندھ کا مقدمہ پیش کیا-
جبکہ دوسری طرف وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف، ارسا میں پنجاب کا نمائندہ امجد سعید نے پانی کی تقسیم میں پنجاب سے زیادتی کی بات کی لیکن کسی ایک جگہ پر بھی جنوبی پنجاب میں پانی کی قلت بارے سوال نہیں اٹھایا ۔
پاکستان تحریک انصاف جو ملک بھر میں بڑے بڑے جلسے کررہی ہے، اُس کے چیئرمین سے لیکر دیگر مرکزی اور صوبائی عہدے داروں نے جنوبی پنجاب میں پانی کی قلت بارے ایک جملہ تک کہنا اپنی تقریر میں پسند نہیں کیا ۔
مسلم لیگ نواز کی مرکزی نائب صدر بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کررہی ہیں انھوں نے بھی جنوبی پنجاب میں پانی کی قلت پر کوئی بیان نہیں دیا ۔

یہ تینوں جماعتیں سرائیکی وسیب کی عوام کے حقوق کی چمپئن بنتی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے جب وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کا معاملہ سامنے آتا ہے تو نواز لیگ وسطی پنجاب کی وکیل، پی پی پی سندھ کی وکیل اور تحریک انصاف کسی کی طرف سے وکیل نظر نہیں آتی ۔
پی پی پی کی سندھ حکومت اور صوبائی تنظیم کی قیادت اور مرکزی سندھ سے تعلق رکھنے والی قیادت سندھ کے پانی کا مسئلہ تو زور و شور سے اٹھاتی ہے لیکن اس پارٹی کی جنوبی پنجاب کی تنظیم کا کوئی عہدے دار بشمول صدر، جنرل سیکرٹری، سیکرٹری اطلاعات و نشریات، جنوبی پنجاب ملتان سے تعلق رکھنے والا مرکزی سینئر وائس چیئرمین چُپ کا روزہ رکھے رہتے ہیں، وہ نہ تو چولستان کے باسیوں کے لیے پانی کے ٹینکر، خوراک کے پیکٹ بھیجتے ہیں ۔ وہ جنوبی پنجاب کی ششماہی نہروں کی بندش پر کوئی ایک احتجاجی مظاہرہ تک نہیں کرتے ۔وہ پارٹی کی تنظیم کے ساتھ ساتھ پنجاب اور وفاق کی حکومتوں میں اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں لیکن جنوبی پنجاب کے کسانوں ، مال مویشی پالنے والوں کے لیے پانی کی فراہمی کے لیے کہیں کوئی احتجاج منظم نہیں کرتے ۔ جنوبی پنجاب میں یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود کے زاتی خادموں کی طرح رہنے والے پی پی پی کے عہدے داروں نے جنوبی پنجاب کے کسان ہوں، مزدور ہوں، دیہی غریب ہوں یا شہری غریب ہوں اُن کے مسائل اور ایشوز کے گرد کوئی تحریک نہیں چلائی ۔ کسانوں کو کھاد نہ ملے، ڈیزل بلیک میں ملے، نہریں بند ہوں یا جو چل رہی ہوں وہاں محکمہ آبپاشی طاقتور اور بڑے زمینداروں کے موگے کھلے اور اونچے بناکر اُن کو پانی دے اور غریب و متوسط کسانوں کی زمینوں کو پانی نہ ملے یا بھاری رشوت کی طلب کی جائے، آواز اٹھانے پر غریب کسانوں کے خلاف جھوٹے مقدمات کا اندراج ہو پی پی پی جنوبی پنجاب کی تنظیم اور اُن کے بنائے مقامی ڈمی عہدے دار کہیں آواز اٹھاتے نظر نہیں آتے ۔

پی پی پی جنوبی پنجاب کے ناکارہ، نااہل، دیہاڑی باز عہدے داران جن کو کہا جاتا ہے کہ اُن کا تعلق ورکرز کلاس سے ہے ملتان و لاہور میں گیلانی ہاؤس اور مخدوم احمد محمود ہاؤس کے مجاور اور نوکر ہیں جو عام کارکنوں کی زلت اور رسوائی کے ساتھ ساتھ عوام سے پی پی پی کو بالکل بے گانہ بنائے ہوئے ہیں ۔

ملتان ڈویژن اور بہاول پور ڈویژن دونوں میں پی پی پی کی اکثر و بیشتر تنظیمیں ڈمی ہیں اور اُن کا عوام سے کوئی تعلق اور رشتہ نہیں ہے ۔
اس وقت ملتان ڈویژن، ڈیرہ غازی خان ڈویژن اور بہاولپور ڈویژن میں کسان پانی پانی کررہے ہیں لیکن پی پی پی جنوبی پنجاب کے اشراف رہنماء اور اُن کے ذاتی غلام نام نہاد کارکن کلاس سے عہدے دار اسلام آباد اور لاہور میں اقتدار میں اپنے حصے کی بندر بانٹ میں مصروف ہیں اور انھیں پانی کو ترستے جنوبی پنجاب کے کسانوں سے کوئی غرض نہیں ہے ۔

پاکستان تحریک انصاف کے جنوبی پنجاب کے تمام قابل  ذکر بڑے بڑے نام جن کو جنوبی پنجاب کی عوام نے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھجوایا تھا وہ ہر روز ہر ایک مسئلے پر بیان داغتے ہیں سوائے جنوبی پنجاب میں پانی کی قلت، کھاد و ڈیزل کی نایابی بارے ۔
مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، ٹکٹ ہولڈر ،ان کے اتحادی ترین گروپ کے اراکین اپنے اپنے حلقوں من پسند کے ڈی سی، ڈی پی او، اے سی، تحصیلدار، پٹواری، لوکل گورنمنٹ، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، کمیونیکیشن و ورکس، بلڈنگز میں ایکسئن، ایس ڈی او لگوانے میں مصروف ہیں ۔ ان کے بھی کئی ایک نام نہاد ورکرز کلاس کے عہدے داران ٹرانسفر اینڈ پوسٹنگز، درجہ چہارم کی نوکریوں کو بیچ کر مال کمانے کی کوشش کررہے ہیں ۔
عوام کے مفادات، عوامی ایشوز کی سیاست کا دور دور تک کچھ پتا نہیں ہے ۔

آصف علی زرداری کا یہ کہنا کہ پی پی پی رائٹ آف دی سنٹر لیفٹ جماعت ہے اُس کا ثبوت جنوبی پنجاب میں ٹاپ ٹو باٹم کہیں نظر نہیں آرہا ، بلکہ جنوبی پنجاب کی تنظیم کا کوئی ایک عہدے دار بھی اس اصطلاح کے معنی بھی سمجھتا ہوگا مجھے اس بارے شک ہے ۔
پی پی پی کے تنظیمی سٹرکچر کے اندر تنقید کا کوئی میکنزم سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی میڈیم جس کے زریعے مستقل طور پر اپنی تجاویز پہنچائی جائیں اور اُس پر باقاعدہ ردعمل موصول ہو ۔
المیہ تو یہ ہے کہ 30 سے 40 سال کی عمر کے پارٹی کے سرگرم کارکن کہلانے والوں کی اکثریت بھی دیہاڑی باز سوچ اور عمل کی حامل ہے ۔ پارٹی سوشل ڈیموکریسی سے لبرل ڈیموکریسی اور اس سے آگے نیولبرل ڈیموکریسی تک پہنچ گئی ہے اور مرکز و صوبائی سطح پر ایک بھی قد آور شخصیت ایسی نہیں ہے جس نے پارٹی کی بنیادی دستاویز سے اس انحراف مسلسل کے خلاف پارٹی کے اندر کوئی حقیقی لیفٹ اپوزیشن کی تعمیر کی ہو ۔ سندھ میں پارٹی کی مرکزی قیادت میں شمار ہونے والے تاج حیدر ہوں، سندھ کے صوبائی جنرل سیکرٹری وقار مہدی ہوں، شہید مزدور لیفٹ ٹریڈ یونینسٹ کے بیٹے سعید غنی ہوں، پی ایس ایف کی انقلابی روایت سے آگے آنے والی سیدہ شہلا رضا ہوں، پنجاب کے سرکردہ لیفٹ کا پس منظر رکھنے والے رہنما ہوں یا کے پی کے کے ماضی میں لیفٹ کی سیاست کرنے والے ہوں سب کے سب نیو لبرل ڈیموکریسی کے پارٹی پر غلبے کے خلاف کوئی نظریاتی دیوار کھڑی نہیں کرسکے بلکہ سب کے سب اپنی نوکریاں بچانے اور پارٹی میں سرمایہ داروں اور ٹھیکے دار مافیا کی غلامی میں لگے ہوئے ہیں ۔ان کی جو مخالفت کرتے ہیں اُن سے ملیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ تنظیم اور پارلیمانی پارٹی میں موجودہ غلاموں کی جگہ لینا چاہتے ہیں اور اس سے زیادہ نہ اُن کا کوئی ہدف ہے اور نہ ہی مقصد ۔
نظریہ اور اُس کے مطابق عمل کا پی پی پی کے اندر کوئی پلیٹ فارم نہیں ہے ۔
پی پی پی کے لیبر، کسان ، نوجوان اور طلباء ونگز بدترین نظریاتی زوال کا شکار ہیں کیونکہ مدر پارٹی کی تنظیمیں نیولبرل ڈیموکریسی کے حامیوں سے پُر ہیں ۔

پارٹی کی مرکزی سطح پر کوئی شیخ رشید نہیں ہے جو پارٹی کی تاسیسی دستاویز کے مطابق پارٹی کے اندر لیفٹ اپوزیشن کی تعمیر کرسکے ۔ پارٹی پر صنعتی سرمایہ دار ، ٹھیکے دار مافیا، مالیاتی سرمائے دار لابی، زرعی سرمایہ دار لابی اور ان کی غلام مڈل کلاس کی پرتوں کا قبضہ ہے – محنت کش اور کسان طبقات سے تعلق رکھنے والے کارکن اور درمیانے طبقے کی انقلابی پرت پارٹی میں محض شو پیس اور دھکے کھانے کے لیے ہیں ۔ زرعی سرمایہ دار طبقے کا ایم این اے قاتل ہو تو بھی سندھی اجرک سے عزت پاتا ہے اور مقامی سطح کا مقتول کارکن کے اہل خانہ کے لیے راستہ صرف معاف کردیے کا چھوڑا جاتا ہے ۔ یہ سب پارٹی کے بنیادی منشور سے بدترین انحراف کا نتیجہ ہے – پیپلزپارٹی میں سرمایہ دار طبقے کی جملہ پرتیں سب کی سب گھس پیٹھیے، غدار، بدعنوان، بے ضمیر مزدور اور کسان دشمن پرتیں ہیں جن کے قابض اور غالب رہنے تک پارٹی کا چیئرمین بلاول بھٹو نیولبرل ڈیموکریٹک لائن سے انحراف نہیں کرسکتا ۔ وہ معشیت میں نیولبرل معشیت کی لائن سے ہٹ کر سوچ بھی نہیں سکتا ۔ وہ نیولبرل ریاست کو سوشلسٹ ریاست سے بدلنے کی بات کرنا تو درکنار اسے ماضی کی سوشل ڈیموکریٹ ریاست سے بدلنے کی بات بھی نہیں کرسکتا ۔
پارٹی کی قیادت ملک میں غربت کے خاتمے کا کوئی حل سامنے لیکر بھی آتی ہے تو وہ ورلڈ بینک کا وضع کردہ انکم سپورٹ پروگرام ہوتا ہے یعنی نیولبرل معاشی پالیسیوں سے جتنی غربت پھیلے اُس غربت کے ایک حصے کو نیٹ کیش دے کر بغاوت سے دور رکھا جائے اور باقی اکثر غریبوں کو یہ لالچ رہے کہ کبھی وہ بھی اس سیفٹی نیٹ ورک میں داخل ہوجائیں گے، یہی وجہ ہے کہ خود کو سنٹر آف دا رائٹ سمجھنے والی مسلم لیگ نواز ہو یا پی ٹی آئی ہو وہ بھی اس انکم سپورٹ پروگرام کو جاری رکھتے ہیں، پی ٹی آئی اُس کا نام بدل دیتی ہے ۔

پی پی پی محنت کشوں اور کسانوں کی تعمیر کی جانے والی عوامی روایت کی حامل پارٹی ہے جس میں آج روایت ہی سب سے زیادہ حملوں کا شکار ہے ، اس پارٹی کو سرمایہ داروں کے قبضے میں جانے دینے کے سب سے بڑے زمہ دار درمیانے طبقے کے موقع  پرست، غدار وہ لوگ ہیں جو آج ہمیں مرکزی اور صوبائی عہدوں پر قابض نظر آتے ہیں ۔ ان میں سے کئی ماضی کے ٹریڈ یونینسٹ، طالب علم رہنما، کسان لیڈر اور مزدور لیڈر تھے جنھوں نے کم سماجی معاشی رتبے سے بڑے سماجی مقام تک کا سفر موقعہ پرستی کے زریعے سے طے کیا ہے – وہ اپنا سماجی طبقہ بدلنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن اپنے سابقہ مزدور، کسان طبقات کی پارٹی میں آواز کا گلہ گھونٹنے میں کامیاب رہے ہیں ۔

پیپلزپارٹی کی آج کی غالب سیاست سندھ کی بورژوازی و پیٹی بورژوازی کی جمہوری قوم پرستانہ سیاست ہے جو باقی صوبوں کی بورژوازی و پیٹی جمہوری قوم پرستانہ سیاستوں سے مفاہمت کا نام ہے ۔ یہ سیاست اُس کے تاسیسی منشور سے ایک سو اسی درجے کا انحراف ہے- کیونکہ پارٹی کی صف اول کی قیادت پارٹی کے منشور سوشلزم ہماری معشیت پر سرے سے یقین ہی نہیں رکھتی ہے، اس کا چیئرمین حالیہ لانگ مارچ میں ہر شہر اور قصبے میں اپنی تقریر کے دوران “سوشلزم ہماری معشیت ہے” کو مساوات جیسے مبہم الفاظ سے بدلتا رہا ہے اور پارٹی کے درمیانے طبقے کے کسی نام نہاد بائیں بازو کے دانشور رہنما اور عہدے دار میں اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ اپنے نوجوان چیئرمین سے اس تبدیلی کی وجہ پوچھ لیتا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں صاف صاف سوال اٹھاتا ہوں کہ پیپلزپارٹی کے اقتدار کے ادوار میں پارٹی کے سرمایہ دار عہدے داروں اور پارلیمانی اراکین کے جس تیزی سے مالیاتی اثاثوں میں اضافہ ہوا، اُسی تیز رفتاری سے پارٹی کے لیے قتل ہونے والوں ، پھانسی چڑھ جانے والوں، کوڑے کھانے والوں، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والوں، اپنے نظریات پر سختی سے کاربند رہنے والوں کے خاندانوں کی معاشی ابتری کیوں ہوئی؟ پارٹی کے کسی ایک شہید کارکن کا مزار کیوں نہ بنا؟ رزاق جھرنا سمیت پارٹی کے شہید کارکنوں کی قبروں پر پارٹی کی قیادت اُن کی ہر برسی پر حاضری کیوں نہیں دیتی؟ ان شہیدوں کے گھر کی عورتیں وہ مقام کیوں نہیں پاتیں جو شیری رحمان، شازیہ مری، نفیسہ شاہ جیسی اشراف خاندانوں کی عورتوں کو ہر دور میں مل جاتا ہے؟ ان گھرانوں کے مرد مراد علی شاہ، شرجیل میمن، سہیل انور جیسا مقام اور مرتبہ کیوں نہیں پاتے اگر پارٹی کی بنیادی تاسیسی دستاویز سے انحراف کرکے حکومتیں بنانے کا مقصد ستم رسیدہ کارکنوں اور شہیدوں کے گھرانوں کو نوازنا تھا؟ محنت کش اور کسان طبقات کے کارکنوں کی قربانیوں اور بے مثال سیاسی جدوجہد کا صلہ تو یہ ہوتا کہ ان طبقات کے کارکن پارٹی کے اہم تنظیمی عہدوں پر براجمان ہوتے اور فیصلوں کا حق اُن کے پاس ہوتا مگر ہوا اس کے بالکل برعکس ۔
آج پارٹی کے اندر جمہوری تنقید کرنے والوں کو ذلیل و رسوا کردیا جاتا ہے اور انھیں قیادت اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتی ، کیونکہ پارٹی کے اندر نہ تو رکنیت سازی ہے، نہ الیکشن ہوتے ہیں اور نہ منتخب قیادت آتی ہے ، ایک گراس روٹ لیول کا زہین سے زہین کارکن کیسے پارٹی کے مقامی سطح سے لیکر صوبائی سطح تک اور آگے مرکزی سطح تک کے عہدوں کا الیکشن لڑے جب اُس کا موقعہ ہی میسر نہ آئے؟ یہ سارے سوال پارٹی کے تنظیمی اور پارلیمانی ڈھانچوں پر قابض سرمایہ دار اور دیہاڑی باز گروہوں کے ہاں مذاق سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہیں ۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply