زور، زُور اور زر۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

زور ، زُور اور زَر کی دَراندازی سے وہی بچ سکتے ہیں جو اپنی زندگی کو سادگی کے آسن بیٹھ کر گزارنے کا ہنر اور حوصلہ رکھتے ہیں۔
زور ہمیں اپنی بات منوانے کے لیے چاہیے ہوتا ہے، زر اپنی من پسند زندگی گزارنے کے لیے درکار ہوتا ہے اور قولِ زُور کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب ہم اپنی بات ثابت کرنے کے لیے قولِ سدید کے علاوہ کوئی راستہ اختیار کرتے ہیں۔ قولِ سدید سیدھے رستے کی طرح سیدھی بات ہے۔ بات میں اُلجھاؤ، ٹیڑھ اور دائیں بائیں کی آمیزش بات اور راستے کو سیدھا نہیں رہنے دیتی۔ عرفِ عام میں جسے جھوٹ کہتے ہیں قرآنی اور روحانی اصطلاح میں اسے قولِ زُور کہا جاتا ہے۔ جھوٹی بات سچے اللہ کے ہاں کس قدر ناپسندیدہ ہے‘ اِس کا اندازہ اِسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں قولِ زُور سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے‘ وہیں اس آیت میں بتوں کی گندگی سے بچنے کا حکم بھی ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قولِ زُور (جھوٹی بات) بُت پرستی سے کس قدر قریب ہے۔ قولِ حق کی جگہ قولِ زُور ایسے ہی ہے جیسے حق تعالیٰ کے ہوتے ہوئے کسی غیر کی پرستش کی جائے۔ حق بات کے ہوتے ہوئے غیرِ حق کہاوت اور وکالت ذاتِ حق کے نزدیک ایک انتہائی رجس یعنی گندہ کام ہے۔
جھوٹ کیا ہے؟ جھوٹ ایک ساحری ہے۔ جھوٹ بولنے والا کسی ساحر کی طرح اپنے لفظوں کے فسوں سے سننے والے کے گمان میں ایسا منظر پیش کرتا ہے جو کہیں بھی موجود نہیں ہوتا۔ سننے والا “دیکھنے والا” بن جاتا ہے۔ سننے والا اپنے گمان کو حقیقت سمجھنے لگتا ہے۔ فرعون کے جادوگروں نے جب رسیاں پھینکیں تو دیکھنے والوں کو محسوس ہوا جیسے وہ سانپ ہیں۔ اسی طرح لفظوں اور ترکیبوں کی گرہوں پر بدنیتی کی پھونکیں مارنے والا الفاظ سننے والوں کو اصل کے برعکس منظر دکھا دیا ہے۔ سننے والا وہ کچھ دیکھنے لگتا ہے جو اصل میں نہیں ہوتا۔ لفظوں کی جادوگری یہی ہے۔ مثلاً کوئی پوچھے کدھر سے آئے ہو؟ بتانے والا بازار سے آ رہا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ مسجد سے آ رہا ہوں۔ اب یہاں سننے والے کے ذہن میں ایک ایسا منظر پیدا ہو جاتا ہے جس کا وجود درست سمت میں موجود نہیں ہوتا۔ خارجی لوگ اس لیے بدترین خلائق کہا گیا ہے کہ وہ کافروں پر صادق آنے والی آیات کا اطلاق مومنین کی سمت میں موڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ حق تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی کائنات میں ایک ایسا تصرف ہے جو ظلم کہلاتا ہے۔ یہ کائنات روشن ہے، روشنی ہے— بقول مرشدِ خیال “روشنی کائنات کی خوشبو ہے”— حق کی تخلیق برحق ہے۔ اس میں لفظوں کے طلسم سے اندھیرا ظاہر کرنا‘ اسے اندھیر نگری تصور کرنا ایک ظلم ہے ـــ ظلم بجائے خود اندھیرا ہے —یہ قولِ مذموم ــ زبان اور ہونٹوں کی یہ مذموم حرکت درحقیقت خالقِ کائنات کے دُوبدو ہونے کے برابر ہے، یہ طاغوت کا رستہ ہے، اس پر چلنا طاغوت کی پرستش کے برابر ہے۔ قرآن ِ کریم میں ایک اور جگہ طاغوت سے بچنا اور جھوٹی بات سے بچنا ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
جھوٹا کا سہارا لینے والا بنیادی طور پر مفاد پرست ہوتا ہے۔ ایک بے لوث اور مخلص آدمی کو جھوٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ امکانات کے چوراہے پر اپنے مفادات کی چھابڑی لگا کر نہیں بیٹھتا، اس لیے وہ اس خوف سے قطعاً آزاد ہے کہ سچ بولنے کی پاداش میں اُس کے مفادات کی اسٹرابیری والی چھابڑی سرِ بازار اُلٹا دی جائے گی۔ سچ پوچھیں تو جھوٹ بولنا نفس پرستی بھی ہے اور اَنا پرستی بھی!!نفس جو چاہتا ‘ انسان ویسا منظر دیکھنا چاہتا ہے اور دکھانا چاہتا ہے، اگر سچ کے کینوس میں وہ منظر دستیاب نہیں ہوتا تو وہ جھوٹ کے بازار کا رُخ کر لیتا ہے۔ اسی طرح اَنا پرست ہر حال میں اپنی ہی پسند کا منظر دیکھنے کا خوگر ہوتا ہے اور اس کے لیے اسے اس سے غرض نہیں ہوتی کہ لوگ اس سے جھوٹ بول رہے ہیں یا وہ لوگوں کو ایک جھوٹا منظر دکھا رہا ہے۔ خواجۂ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین اجمیری ؒ فرماتے ہیں کہ نفس پرستی ہی دراصل بت پرستی ہے۔ مراد یہ کہ کلمہ گو کلمہ پڑھ کر جس “الٰہ” کا انکار کرنے کا اعلان کرتا ہے‘ وہ سب سے پہلے اپنے نفس کا انکار ہے— نفس جو کائناتِ حقیقت میں سب سے بڑا جھوٹا الٰہ ہے۔
جھوٹی بات کہنے والا، دراصل جھوٹ کا ساتھ دینے والا ہوتا ہے۔ جھوٹی بات اگر کسی فرد کے بارے میں کہی جائے تو یہ بہتان کے ذمرے میں آتی ہے، اس پر حدِ قذف جاری ہوتی ہے۔ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے والا فرقان کے انعام کا حق دار ٹھہرتا ہے۔ فرقان صادقین کے پاس ہوتا ہے، صادقین کے ہمراہ ہوتا ہے۔ حکمِ خداوندی ہے “کونوا مع الصادقین” ـــ سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ، یعنی سچوں کے ہمراہ ہو جاؤ۔ سچے کو جھوٹا اور جھوٹے کو سچا ثابت کرنے کی کوشش قولِ زُور کی زمرے میں آتی ہے۔ خاندان ہو یا معاشرہ ‘ فساد اور انتشار کی وجہ قولِ زُور ہے۔ کسی ملامت کے ڈر سے یا کسی منفعت کے لالچ میں جب ہم کسی جھوٹی بات کا ساتھ دیتے ہیں تو عملاً قولِ زُور کے مرتکب ہوتے ہیں۔ قولِ زُور جتنی تباہی مچائے گا‘ اُس کا ساتھ دینے والا حصہ بقدرِ جثّہ اتنی ہی تادیب و تعذیب کا حق دار ہو گا۔
دراصل حق کے مقابلے میں صرف باطل ہوتا ہے— اس لیے جو حق کا ساتھ نہیں دیتا‘ وہ باطل کا ساتھی ہوتا ہے۔ حق اور باطل کی آویزش میں مصلحت کی آمیزش اسے قولِ زُور تک لے جاتی ہے۔ اسے مصلحت نہیں بلکہ منافقت کہا جاتا ہے۔ ذاتی پسند اور ناپسند، اَنا اور عناد حق بات قبول کرنے میں مانع ہوتی ہے۔ مفاد پرستی ہمیں حق پرستی سے دُور کر دیتی ہے۔ دھرم کی جگہ دھڑے کی حمایت ہمیشہ خرابی پیدا کرتی ہے۔ یہ خرابی فرد کے باطن سے لے کر اُس کے ظاہر میں معاشرے تک سرایت کر جاتی ہے۔ بحرو برّ میں فساد کا ظاہر ہونا حق پرستی کی جگہ مفاد پرستی کی روش کے باعث ہوتا ہے۔ یہ فساد پہلے اندر ‘ اَنفس میں ظاہر ہوتا ہے اور پھر باہر‘ آفاق میں— اس لیے معاشرے میں اصلاح کا اُفق تلاش کرنے کے لیے پہلے اپنے نفس کے اندر شُرور کا شور مدھم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
مشکل اور نامساعد حالات میں حق کی آواز بلند کرنے اور حق کا ساتھ دینے والوں کی شان الگ ہے۔ قرآن کریم میں فرعون کے دربار میں اس مردِ مومن کا ذکر ہے جس نے فرعون اور اس کے درباریوں سے کہا تھا‘ کیا تم ایک شخص کی جان لینے کے درپے فقط اِس بات پر ہو گئے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔ زور اور زَر کے ماحول میں پرورش پانے والے اسٹیٹس کو‘ کے حامی تھے، وہ حضرت موسیٰؑ کے اس مطالبے پر برہم تھے کہ ایک پسی ہوئی غلام قوم کو اُس کے کہنے پر آزاد کر دیا جائے۔ ظالم حاکموں کو سوئے ہوئے غلام بھلے معلوم ہوتے ہیں۔ انہیں محلات اور اہراموں کی تعمیر میں غلاموں کا اَرزاں خون درکار ہوتا ہے، وہ امیر غریب طبقات میں فرق کم کرنے کے حق میں نہیں ہوتے۔ غلام کو اگر فرصت اور فراغت کی چھاؤں مل جائے گی تو وہ اپنی غلامی پر سوال اٹھانے لگتے ہیں۔ زور اور زَر کے پروردہ آج بھی اپنی جاگیروں میں غریب کے بچوں کے لیے اسکول کالج اور یونیورسٹی بننے کی مخالفت کرتے ہیں۔
زور اور زَر کے ہجے اور معنی باہم ملتے جلتے ہیں۔ زور‘ زَر کی پیدائش کرتا ہے اور زر‘ زور میں اضافہ کرتا ہےـــ طاقت دولت اکٹھی کرنے میں معاون ہوتی ہے اور دولت طاقتور حلقوں میں رسائی کے لیے اکسیر مانی جاتی ہے۔ اس لیے زورآور بالعموم زرداروں کے ساتھی ہوتے ہیں اور زردار زور آوروں کے حمائتی ہوتے ہیں۔ زور اور زر کے حامی ایک دوسرے کے قدرتی حلیف ہیں، کیونکہ زندگی کے بارے میں ان کا مطمعِ نظر ایک سا ہے‘ دونوں کا فلسفہ حیات یکساں ہے۔ زور اور زر کے حصول کے لیے اُن کے ہاں قولِ زُور کا سہارا لینا عین روا ہے۔
زور اور زر کو اپنا مقصدِ حیات بنانے والے مقصدِ حیات سے دُور ہو جاتے ہیں۔ اُن کے ہاں کوئی اخلاقی یا روحانی ضابطہ مستقل نہیں ہوتا ہے۔ انہیں کوئی دینی یا روحانی بات فقط اپنے مقصد تک پہنچنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ جونہی کوئی اخلاقی کلیہ اُن کی گرفت کرنے لگتا ہے‘ یہ اپنا موضوعِ سخن بدل لیتے ہیں۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر خلطِ مبحث میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ قولِ سَدید سے قولِ زُور تک پہنچنا اُن کے لیے لمحے بھر کا سفر ہوتا ہے۔
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا قول ہے کہ سچ وہ ہے جو سچے کی زبان سے نکلے۔ اس پیرائے میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ حتمی صداقت قولِ صادقﷺ میں ہے۔ صادق اور اَمین ذات صرف ایک ہی ذات ہے اور وہ ذاتِ بابرکات فقط آپﷺ ہی کی ذات ہے۔ کسی غیر معصوم کے لیے روا نہیں کہ وہ صادق اور امین ہونے کا دعویٰ کرے۔ سچائی کی سند شہرِ علمؐ سے ملتی ہے۔ ایک اُمّتی اپنے قول و کردار میں جس قدر مدینتہ العلم کے قریب ہو گا‘ اُسی قدر وہ صداقت اور امانت کا حامل ہوگا۔ جب یہ حکم دیا جاتا ہے کہ امانت اس کے اہل کے حوالے کرو (اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا) تو اِس سے مراد گواہی کی امانت بھی ہے ــــ یعنی قولِ حق کا ساتھ دینا اور قولِ زُور سے بہرصورت اجتناب کرنا!!
سچے رب کے حضور دعا ہے کہ وہ اپنے سچے حبیبﷺ کے صدقے میں ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر سچ اور جھوٹ کی پہچان عطا فرمائے ـــ قولِ زُور سے بچائے اور قولِ سدید کا ذَوق عطا فرمائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply